✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

محبتِ صحابہ و اہل بیت کا تلازم

عنوان: محبتِ صحابہ و اہل بیت کا تلازم
تحریر: افسر العلیمی (الحنفی)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ جل مجدہ کے آخری پیغمبر اور رسول ہیں۔ آپ پر نبوت و رسالت کا دروازہ بند کر دیا گیا اور آپ کی شریعت نے سابقہ تمام ادیان کو منسوخ کر دیا، اِس لیے اب آپ پر اور آپ کی لائی ہوئی تمام باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے۔ لیکن تکمیلِ ایمان کے لیے شرط یہ ہے کہ اپنی جان و مال، آل و اولاد سے بھی بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی جائے۔

چنانچہ حدیث پاک میں فرمایا گیا:

لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ، حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ [البخاري، رقم الحديث: 15]

ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اُسے اُس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔

جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ایمان ہے، ایسے ہی آپ کے صحابہ و اہل بیتِ اطہار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی محبت بھی ایمان کا ایک حصہ ہے، اس لیے کہ محبت کا تقاضا ہی یہ ہے کہ ہر اُس چیز سے محبت کی جائے جس کی نسبت محبوب کی طرف ہو یا جس سے محبوب نے محبت کی ہو۔

لزوم کا معنیٰ و مطلب:

”دستور العلماء“ میں لزوم کی تعریف کرتے ہوئے صاحبِ کتاب رقم طراز ہیں:

اللُّزُوم: كَونُ أَحَدِ الشَّيْئَيْنِ بِحَيْثُ لَا يَتَصَوَّرُ وُجُودُهُ بِدُونِ الآخَر [القاضي عبد النبي، دستور العلماء، ج: 3، ص: 120، دار الكتب العلميه، بيروت]

ترجمہ: دو چیزوں میں سے ایک کا اِس طور پر ہونا کہ اُس کے وجود کا تصور دوسرے کے بغیر نہ ہو۔

محبتِ صحابہ و اہل بیت میں تلازم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دونوں محبتوں میں سے کوئی ایک بھی دوسری کے بغیر نہیں پائی جائے گی۔ اگر کوئی شخص محبتِ صحابہ کا تو دعویٰ کرے لیکن اہل بیت سے بغض رکھے، یا محبتِ اہل بیت کا دعویٰ کرے لیکن صحابہ سے بغض رکھے، تو اُس کا دعویٰ باطل محض ہے، حقیقت سے اس کا کوئی واسطہ نہیں۔ بندے کے دل میں دونوں محبتیں ایک ساتھ پائی جائیں تو پھر وہ سنی کہلائے گا، ورنہ یا تو وہ رافضی ہوگا یا خارجی و ناصبی۔

احادیثِ مصطفیٰ سے تلازم کا ثبوت:

حُضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت کے تعلق سے ارشاد فرمایا:

أَحِبُّوا اللَّهَ لِمَا يَغْذُوكُمْ مِنْ نِعَمِهِ، وَأَحِبُّونِي لِحُبِّ اللَّهِ، وَأَحِبُّوا أَهْلَ بَيْتِي لِحُبِّي [الترمذي، رقم الحديث: 3789]

ترجمہ: اللہ سے محبت کرو، اس کی نعمتوں کے سبب جو وہ تمہیں عطا کرتا ہے، اور مجھ سے اللہ کی محبت کے سبب، اور میرے اہلِ بیت سے میری محبت کے سبب محبت کرو۔

حضراتِ حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے بارے میں ارشاد فرمایا:

مَنْ أَحَبَّهُمَا فَقَدْ أَحَبَّنِي، وَمَنْ أَبْغَضَهُمَا فَقَدْ أَبْغَضَنِي [الذهبي، تاريخ الإسلام، ج: 5، ص: 95، دار الكتاب العربي، بيروت]

ترجمہ: جس نے ان دونوں (حسن و حسین) سے محبت کی، اُس نے مجھ سے محبت کی، اور جس نے ان سے بغض رکھا، اُس نے مجھ سے بغض رکھا۔

حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے بارے میں فرمایا:

فَاطِمَةُ بَضْعَةٌ مِنِّي، فَمَنْ أَغْضَبَهَا أَغْضَبَنِي [البخاري، رقم الحديث: 3767]

ترجمہ: فاطمہ میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ جس نے اُس سے بغض رکھا، اُس نے مجھ سے بغض رکھا۔

اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تعلق سے ارشاد فرمایا:

اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ يُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ۔ [الترمذي، رقم الحديث: 3862]

ترجمہ: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو۔ انہیں میرے بعد نشانہ نہ بنانا۔ پس جس نے ان سے محبت کی، اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی، اور جس نے ان سے دشمنی رکھی، تو اس نے میری دشمنی کی وجہ سے ان سے دشمنی رکھی۔ جس نے انہیں تکلیف دی، اس نے مجھے تکلیف دی، اور جس نے مجھے تکلیف دی، اس نے اللہ کو تکلیف دی۔ اور جو اللہ کو تکلیف دیتا ہے، عنقریب اللہ اسے پکڑ لے گا۔

انصار صحابہ کے متعلق ارشاد ہے:

آيَةُ الْإِيمَانِ حُبُّ الْأَنْصَارِ، وَآيَةُ النِّفَاقِ بُغْضُ الْأَنْصَارِ [البخاري، رقم الحديث: 3784]

ترجمہ: انصار کی محبت ایمان کی نشانی اور انصار کا بغض نفاق کی علامت ہے۔

اِن تمام احادیث مبارکہ سے محبتِ اہل بیتِ اطہار و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں تلازم واضح طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں محبتوں کو اپنی محبت اور دونوں کے بغض کو اپنا بغض فرمایا ہے۔

اقوالِ علمائے اہل سنت سے تلازم کا ثبوت:

حضرت علامہ فضل رسول قادری بدایونی رحمہ اللہ ”المعتقد المنتقد“ میں فرماتے ہیں:

”ومنها محبته لمن أحبه النبي صلى الله عليه وسلم ولمن ينسب إليه من أهل بيته وصحابته من المهاجرين والأنصار و عداوة من عاداهم و بغض من أبغضهم و سبهم فمن أحب شيئا أحب من يحبه“ [فضل رسول البدايوني، المعتقد المنتقد، ص: 136، رضا أكاديمي مومباى]

ترجمہ: حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کی علامتوں میں سے یہ ہے کہ اس سے محبت کی جائے جس سے حُضور نے محبت فرمائی اور ان سے بھی جو حُضور کی طرف منسوب ہیں یعنی اہل بیت اور مہاجرین و انصار صحابہ اور ان سے دشمنی رکھی جائے جو ان حضرات (نبی کریم، اہل بیت و صحابہ) سے دشمنی رکھے اور اس سے بغض رکھا جائے جو ان حضرات سے بغض رکھے اور گالی دے اس لیے کہ جو کسی سے محبت کرتا ہے وہ اس سے بھی محبت کرتا ہے جس سے اس کا محبوب محبت رکھتا ہے۔

آخر میں فرماتے ہیں:

”وبالجملة يجب على كل أحد أن يحب أهل بيت النبوة وجميع الصحابة ولا يكون من الخوارج في بغض أهل البيت فإنه لا ينفعه حينئذ حب الصحابه ولا من الروافض في بغض الصحابة فإنه لا ينفعه حينئذ حب أهل البيت.“ [فضل رسول البدايوني، المعتقد المنتقد، ص: 138، رضا أكاديمي مومباى]

ترجمہ: خلاصہ یہ کہ ہر شخص پر واجب ہے کہ اہل بیت نبوت اور تمام صحابہ سے محبت رکھے اور اہل بیت کے بغض میں خوارج سے نہ ہو جائے اس لیے کہ اس وقت اس کو صحابہ کی محبت نفع نہ دے گی۔ اور صحابہ کے بغض میں روافض میں سے نہ ہو جائے کیونکہ اس وقت اُس کو اہل بیت کی محبت فائدہ نہ پہنچائے گی۔

اِس سے معلوم ہوا کہ جو شخص حُضور صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے، اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ دونوں محبتوں کو ایک ساتھ اپنے دل میں رکھے، اگر صحابہ یا اہل بیت میں سے کسی ایک سے بھی بغض رکھے اور باقی حضرات سے محبت کرے تو اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ اس کا حُضور سے محبت کرنے کا دعویٰ جھوٹا ہے اس لیے دونوں محبتیں ذات رسول کی نسبت ہی کی بنیاد پر فرض ہیں، اگر حُضور سے اُس کی محبت سچی ہوتی تو ضرور وہ آپ کی دونوں نسبتوں کو محبوب رکھتا۔

امامِ اہل سنت اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

”ایسا کیوں نہ ہو (یعنی بغض اہل بیت میں صحابہ کی محبت اور بغض صحابہ میں اہل بیت کی محبت فائدہ نہ دے) حالانکہ صحابہ کی محبت اُن کے ذوات کی وجہ سے نہیں اور نہ اہل بیت کی محبت ان کے نفوس کی وجہ سے ہے بلکہ ان سب کی محبت صرف اِس لیے ہے کہ اُن کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے۔ پس جس نے رسول اللہ سے محبت کی، اُس پر واجب ہے کہ وہ ان سب سے محبت کرے اور جس نے ان میں سے کسی سے بغض رکھا تو ثابت ہوگیا کہ وہ رسول اللہ سے محبت نہیں رکھتا تو ہم محبت میں ان میں سے کسی ایک کے ساتھ فرق نہیں کرتے جیسے کہ ایمان لانے میں اپنے رب کے رسولوں (صلوات اللہ و سلامہ علیہم) میں فرق نہیں کرتے۔ اور جو ابو بکر سے محبت کرے علی سے نہ کرے جیسے نواصب و خوارج تو معلوم ہوا کہ وہ تو ابو قحافہ کے بیٹے سے محبت کرتا ہے نا کہ رسول اللہ کے خلیفہ، ان کے محبوب اور صحابی سے۔ اور جو علی سے محبت کرے، ابو بکر سے نہ کرے جیسے روافض، اُس کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ تو ابنِ ابی طالب سے محبت کرتا ہے نا کہ رسول اللہ کے بھائی، ان کے ولی اور نائب سے۔ اور یہی معنیٰ مثنوی میں مولوی قدس سرہ کے قول کا ہے۔ اے گرفتار ابو بکر و علی تو چہ دانی سر حق کہ غافلی“ [إمام أحمد رضا، المستند المعتمد حاشية على المعتقد المنتقد، ص: 138، رضا أكاديمي مومباى]

ایک شبہ کا ازالہ:

حدیث شریف میں ہے:

عَنْ عَلِيٍّ: قَالَ لَقَدْ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ الْأُمِّيُّ صلي الله عليه وآله وسلم أَنَّهُ لَا يُحِبُّکَ إِلاَّ مُؤْمِنٌ وَلَا يُبْغِضُکَ إِلاَّ مُنَافِقٌ. [الترمذي، رقم الحديث: 3736]

ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی امی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے عہد فرمایا کہ مومن ہی تجھ سے محبت کرے گا اور کوئی منافق ہی تجھ سے بغض رکھے گا۔

روافض اور ان کے ہم نوا حضرات اس فرمان سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بغض علی تو منافقت ہے لیکن حضرت علی کے علاوہ کسی صحابی (مثلاً حضرت امیر معاویہ، عمرو بن عاص اور حضرت ابو سفیان وغیره رضی اللہ عنھم) سے بغض رکھنا منافقت نہیں حالانکہ یہ بات تلازم کے خلاف ہے اس لیے کہ اگر تلازم کے اصول پر دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ تمام صحابہ و اہل بیت کی محبت ایمان ہے اور ان تمام کا بغض منافقت ہے۔

فتح الباری شرح صحیح البخاری میں ابنِ رجب حنبلی اِس پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وقد روي أن المنافقين إنما كانوا يعرفون ببغض علي، ومن هو أفضل من علي كأبي بكر وعمر، فهو أولى بذلك [إبن رجب الحنبلي، فتح الباري في شرح البخاري، ج: 1، ص: 66، مكتبة الغرباء الأثرية، المدينة المنورة]

ترجمہ: روایت ہے کہ منافقین بُغض علی سے پہچانے جاتے تھے تو جو حضرت علی سے افضل ہیں جیسے ابو بکر و عمر وہ تو اِس کے زیادہ حق دار ہیں۔ (کہ منافقین ان کے بُغض سے پہچانے جائیں۔)

امام مسلم نے ترجمۃ الباب میں ہی اس شبہے کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

”بَابٌ حُبُّ عَلِيٍّ وَالأَنصَارِ آيَةُ الإيمَانِ، وَبُغضُهُم آيَةُ النِّفَاقِ“

ترجمہ: یہ باب ہے اِس بارے میں کہ حضرت علی و انصار صحابہ کی محبت ایمان کی نشانی ہے اور ان کا بغض نفاق کی علامت ہے۔

امام قرطبی ”مفہم شرحِ مسلم“ میں اِس باب کے تحت فرماتے ہیں:

وهذا المعنَى جارٍ في أعيان الصحابة كالخلفاء، والعَشَرة، والمهاجرين، بل وفي كُلِّ الصحابة؛ إذ كُلُّ واحدٍ منهم له شاهد وغَنَاءٌ في الدِّين، وأَثَرٌ حَسَنٌ فيه؛ فحبُّهم لذلك المعنى محضُ الإيمان، وبُغضُهُم له محضُ النفاق [القرطبي، المفهم، ج: 1، ص: 264، دار إبن كثير - دار الكلم الطيب، دمشق، بيروت]

”یہ معنیٰ (یعنی محبت کا ایمان ہونا اور بُغض کا نفاق ہونا) سرداران صحابہ جیسے خلفاء، عشرہ مبشرہ، مہاجرین بلکہ ہر ایک صحابی میں جاری ہے۔ اِس لیے کہ ہر ایک صحابی کا دین میں نمایاں کردار اور اچھا تاثر رہا ہے لہٰذا اس معنیٰ کے اعتبار سے اُن کی محبت محض ایمان ہے اور ان کا بغض محض نفاق ہے۔“

ان تمام اقوال کا ماحصل یہی ہے کہ جس طرح حب علی سے مومن اور بغض علی سے منافق کا پتہ چلتا ہے ایسے ہی حب ابو بکر و عمر و عثمان، عمرو بن عاص، امیر معاویہ اور جمیع صحابہ رضی اللہ عنہم کی محبت سے مومن اور ان کے بغض سے منافق کی پہچان ہوتی ہے۔ اِس لیے اس پہلو کو بھی بیان کرنے کی ضرورت ہے تاکہ خارجیت و ناصبیت سے ساتھ ساتھ رافضیت کا بھی فتنہ دب سکے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں احقاق حق اور ابطال باطل کی توفیق بخشے اور تادم حیات مسلک اہل سنت و جماعت پر قائم و دائم رکھے۔ آمین

1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں