عنوان: | مُلّا بن رہا ہے مُلّا! |
---|---|
تحریر: | ابو تراب سرفراز احمد عطاری مصباحی |
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں جامعہ سے چھٹی لے کر گھر آیا ہوا تھا۔ میں کسی کام سے اپنے قصبے کی مارکیٹ گیا، اسی دوران میری نظر ایک پھل فروش لڑکے پر پڑی۔
میں ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہ گیا۔۔۔ اس عمر کے لڑکے تو اسکول یا مدرسے میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، پر یہ؟۔۔۔ شاید اس کو فکرِ معاش نے شارعِ عام پر لاکھڑا کیا تھا۔ میں رکا اور دل میں کہا: نہیں، یہ اس کی فکرِ معاش کا نتیجہ نہیں بلکہ کسی اور کی فکرِ معاش نے اس کے ساتھ یہ سلوک کیا ہے۔
اس کی آنکھوں میں ایک چمک تھی، جو اس کے ذوقِ علم کی رہنمائی کر رہی تھی۔ اس کی پیشانی پر ایک سرخ مائل بسیاہ نشان تھا، جو اس کے شوقِ عمل کی عکاسی کر رہا تھا۔۔۔ صبح کے وقت ہرے بھرے پودوں پر شبنم کی طرح ذہانت اس کے چہرے پر ٹپکتی سی معلوم ہوتی تھی۔ اس طرح کی خصوصیات تو ہم مدرسے کے طالبِ علم میں دیکھتے ہیں، مگر یہ کسی مدرسے کا طالبِ علم نہ تھا بلکہ ایک پھل فروش تھا۔ میں اس کے پاس گیا اور سلام اور نام دریافت کرنے کے بعد میں نے پوچھا:
"آپ پھل بیچنے کا کام کب سے کرتے ہیں؟"
"چھ سال ہوگئے، پہلے ابو جی کے ساتھ ہوتا تھا، اب جب میں تھوڑا بڑا ہوگیا تو انھوں نے الگ پھلوں کا ٹھیلہ میرے حوالے کردیا۔" اس نے جواب دیا۔
"تم پڑھائی نہیں کرتے؟"
"جی، کبھی کبھی اسکول جاتا ہوں۔" وہ بولا۔
"اور مدرسہ؟"
"جی نہیں، ٹائم نہیں ملتا۔۔۔ صبح سے رات بارہ بج جاتے ہیں اسی کام پر۔"
"والد صاحب نے تمہیں پڑھایا کیوں نہیں؟" میں نے پوچھا۔
"بڑی بہن کی شادی کرنا ہے، اسی لیے یہ سب کرنا پڑ رہا ہے۔۔۔ پر مجھے پڑھنے کا شوق ہے۔"
میں نے کہا: "تمہیں عالم بننا ہے۔۔۔ اور ہاں، پڑھنے کی کوئی عمر نہیں ہوتی۔ ابھی ایسا کرو، تھوڑا وقت نکال کر امام صاحب سے ناظرہ شروع کردو۔ میں ابھی چلتا ہوں، اِن شاء اللہ پھر ملاقات ہوگی۔"
میں تو چلا آیا، پر وہ مجھے حسرت بھری نگاہوں سے تکتا رہ گیا۔۔۔ شاید اس طرح کے سوالات کرنے والا اس کے لیے میں پہلا شخص تھا۔ کچھ ہی دن میں میں نے دیکھا کہ اس نے پابندی سے امام صاحب سے مدنی قاعدہ پڑھنا شروع کردیا ہے۔
میرے مسرتوں کی انتہا نہ رہی۔۔۔ اور اس وقت میری خوشیوں کی معراج ہوگئی جب اس نے یہ کہا کہ "آپ مجھے فجر میں فون کرکے اٹھا دیا کریں۔" میں اس کو روزانہ فون کر کے اٹھاتا، اس طرح اس نے پنج وقتہ نماز کی پابندی بھی شروع کردی۔۔۔
کچھ دنوں کے بعد جب میں نیپال آنے کے بعد دوبارہ اپنے گھر آیا اور اس سے ملاقات کی تو اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ کہنے لگا: "آپ کے کہنے پر میں نے پڑھنا شروع کردیا تھا، پر۔۔۔" میں نے کہا: "ہوا کیا؟ کچھ بتاؤ گے بھی؟"
"وہی بس۔۔۔ ابو جی کو پیسہ، پیسہ اور بس پیسہ چاہیے، کام بڑھا دیا، اب بالکل وقت نہیں ملتا۔۔۔" مجھے اس وقت اتنا شدید غصہ آیا کہ یار! یہ باپ کیسے ہوتے ہیں؟ انھیں صرف اپنا مستقبل دکھتا ہے، اولاد کا مستقبل نہیں دکھتا۔۔۔ بے چارے کو کم سنی ہی سے ایک تو کام پہ لگا دیا اور ایک گھنٹہ بھی دینی تعلیم کے لیے نہیں نکالنے دیتے۔۔۔ وہ کہنے لگا: "جب میں نے مدنی قاعدہ پڑھنا شروع کیا تو مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔۔۔ پر اب کیا کیا جائے؟"
میں نے اس کو تسلی دیتے ہوئے دعا دی کہ اللہ تمہارے حق میں بہتری فرمائے۔۔۔ میں بھی کیا کرتا۔۔۔ پر میں اس کو کہتا رہتا کہ "تمہیں عالم بننا ہے۔۔۔"
وہ مجھ سے روزانہ ایسے ایسے مسائل دریافت کرتا، جس سے میں نے اس کے اندر خوفِ خدا، عشقِ رسول اور پرہیزگاری کا وہ پودا محسوس کیا کہ جس کی اگر آبیاری کی جائے تو وہ تناور درخت بن کر دوسروں کو بھی ان چیزوں سے فیضیاب کرے۔۔۔ وہ ہر کام سے پہلے شرعی رہنمائی لیتا، وہ پھل ضرور بیچا کرتا تھا، لیکن اسی دوران اس کو ۳۱۳ مرتبہ درودِ پاک ضرور پڑھنا ہوتا تھا۔ میں نے اس کو نیکیوں کا ایسا حریص پایا کہ ہم جیسے کچھ طلبہ کی ایک تعداد اس حرص سے محروم ہوتی ہے۔۔۔
اب اسے طعنے بھی ملنا شروع ہوگئے تھے کہ "مُلّا بن رہا ہے مُلّا۔۔۔" ملتے بھی کیوں نہ؟ سر سے کبھی ٹوپی نہیں اترتی، کوئی نماز قضا نہیں ہوتی، ہر وقت ذکر و درود میں منہ حرکت میں رہتا۔۔۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ گھر والوں سے اس حوالے سے کبھی حوصلہ افزائی نہ ہوئی، اور ہوتی بھی کیسے؟ اس طرح کے طعنے تو عموماً گھر ہی سے ملا کرتے تھے۔۔۔
ایک مرتبہ جب میں نے دیدارِ مصطفیٰ ﷺ کے بارے میں کچھ مدنی پھول بتائے تو کہنے لگا کہ "یہ سعادت ہمیں کب ملے گی؟ لگتا ہے زندگی یہی روڈ پر پھل بیچتے گزر جائے گی۔۔۔ کاش! میں بھی دینی تعلیم سے وابستہ ہوتا۔۔۔" اس کی آواز بھرّا نے لگی۔۔۔
اس وقت مجھے بڑی شرمندگی ہوئی جب اس نے مجھ سے کہا کہ "مجھے آپ کی طرح بننا ہے۔" میں نے دل میں کہا: "میری طرح؟"۔۔۔ لیکن مجھے فوراً ہی خیال آیا۔۔۔ "دعوتِ اسلامی والے کی طرح۔۔۔" میں نے اسے جواب دیا کہ "اللہ آپ کو دنیا و آخرت میں خوب بہتر بنائے۔" میں نے اس کی صورت یہ نکالی کہ اس کو امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ کا مرید بنوا دیا اور اپنے دل کو تسلی دی کہ میرے پیر و مرشد اب اس کی رہنمائی کرتے رہیں گے۔
پیارے اسلامی بھائیو! کتنے ہی ایسے ہیں جن کو علم و عمل کا شوق ہوتا ہے، پر بے چارے گھریلو مسائل کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور ان کی زندگی برباد ہو جاتی ہے۔۔۔ اے اسلامی بھائیو! اگر اللہ نے آپ کو علم و عمل کا ایک ماحول دیا ہے، وہ بھی دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول، تو اس کی اہمیت کو سمجھیے، قدر کیجیے، اللہ کا شکر ادا کیجیے، اس کے تقاضے پورے کیجیے۔۔۔ اور علم و عمل کا شہسوار بن کر اللہ کے دین کے لیے کچھ کر جائیے۔۔۔ ایک بات اور۔۔۔ ہماری انفرادی کوشش کسی کے اندر کس قدر تبدیلی لا سکتی ہے، مذکورہ بالا سطور سے بخوبی اس کا اندازہ ہو جاتا ہے۔۔۔ انفرادی کوشش میں ہمیں کسی بھی طرح کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔۔۔
مضمون نگار جامعۃ المدینہ فیضان مخدوم لاہوری، موڈاسا کے استاذ ہیں۔ {alertInfo}
ما شاء اللہ تعالیٰ
جواب دیںحذف کریںرب کریم مذید برکتیں عطا فرمائے آمین
ماشاء اللہ مفتی صاحب اس مضمون کو پڑھ کر آنکھین نم ہوگی
جواب دیںحذف کریںاللہ رب العزت سب کو علم کی دولت سے مالا مال کرے