✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

مسلمانوں کی کامیابی کے اصول

عنوان: مسلمانوں کی کامیابی کے اصول
تحریر: بنت انصار سورت، گجرات

یہ حضور اعلیٰ حضرت مجدد دین و ملت امام احمد رضا فاضلِ بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک سوال کے جواب پر مشتمل رسالہ ” تدبیر فلاح و نجات و اصلاح“ ہے جس میں اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے یہ سوال کیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے اور امداد تُرک کا کیا طریقہ ہے۔

یہ سوال اس وقت کیا گیا تھا جب تُرک کے مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تھے، اور آج جس طرح سے ہمارے فلسطینی بھائیوں پر ظلم کیا جا رہا ہے یہ اس سے کہیں زیادہ المناک ہے، اس وقت حضور اعلیٰ حضرت نے مسلمانوں کی کامیابی اور مظلوم مسلمانوں کی مدد کے چار اصول بیان فرمائے. جن پر اگر اس وقت بھی عمل کیا جائے تو یقیناً مسلمانوں کے حالات بدل سکتے ہیں۔

رب تبارک و تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْؕ (الرعد:11)

ترجمہ کنزالایمان: بے شک اللہ کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل دیں۔

تفسیر صراط الجنان: اس آیت میں قدرت کا ایک قانون بیان کیا گیا ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ اس وقت تک کسی قوم سے اپنی عطا کردہ نعمت واپس نہیں لیتا جب تک وہ قوم خود اپنے اچھے اعمال کو برے اعمال سے تبدیل نہ کر دے۔ (الصاوي، الرعد، تحت الآیۃ: 11، 3 / 996)

قوموں کے زوال سے متعلق اللہ تعالیٰ کا قانون: قدرت کا یہی اٹل قانون سورہ انفال کی اس آیت میں بھی بیان ہو چکا ہے۔

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ لَمْ یَكُ مُغَیِّرًا نِّعْمَةً اَنْعَمَهَا عَلٰى قَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ (الأنفال:53)

ترجمہ کنزالایمان: یہ اس لیے کہ اللہ کسی قوم سے جو نعمت انہیں دی تھی بدلتا نہیں جب تک وہ خود نہ بدل جائیں اور بے شک اللہ سنتا جانتا ہے۔

اسلامی تاریخ میں اس قانون کی بے شمار مثالیں موجود ہیں جیسے ماضی بعید میں دنیا کے تین برِّ اعظموں پر نافذ مسلم حکومت کا ختم ہو جانا، 800 سال تک اسپین پر حکومت کے بعد وہاں سے سلطنت اسلامیہ کے سورج کا غروب ہو جانا، اَسلاف کی بے شمار قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے مسلمانوں کے پہلے قبلے ”بیتُ المقدس“ کا یہودیوں کے قبضے میں چلے جانا، اسلام کی متحد حکومت کا بیسیوں ٹکڑوں میں تقسیم ہو جانا اور ماضی قریب میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہو جانا، عراق اور افغانستان پر غیروں کا قبضہ ہو جانا، مسلم دنیا کا کافر حکومتوں کی دست نگر ہو جانا اس قانونِ قدرت کی واضح مثالیں ہیں۔

چنانچہ اعلیٰ حضرت رضی اللّٰہ عنہ نے ایک اور آیت مبارکہ کے ذریعے سے مسلمانوں کو بیدار کرنے کی کوشش کی کہ اللہ ربّ العزت نے تو مسلمانوں کے جان و مال جنت کے عوض خرید لیے ہیں پھر فرمایا کہ ہاں اپنا حال سنبھالنا چاہتے ہیں تو لڑائیوں پر ہی کیا موقوف تھا ویسے ہی چاہیے تھا۔

پھر اعلیٰ حضرت رضی اللّٰہ عنہ نے مسلمانوں کی کامیابی کے چار اہم اصول بیان فرمائے کہ اگر مسلمان ان اصولوں پر عمل پیرا ہو جائیں تو ان کے حالات بدل سکتے ہیں اور کامیابی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ وہ چار اصول مندرج ذیل ہیں:
پہلا اصول: ان امور کہ جن میں حکومت کی دست اندازی ہے مسلمان اپنے ہاتھ میں لیں اور اپنے معاملات خود حل کریں اور کورٹ کچہری کے چکر میں پڑ کر اپنے گھر برباد نہ کریں۔
دوسرا اصول: اپنی قوم کے سوا کسی سے کچھ نہ خریدیں تاکہ گھر کا نفع گھر میں ہی رہے اپنی حرفت و تجارت کو ترقی دیں کہ کسی چیز میں کسی قوم کے محتاج نہ رہیں تاکہ دوسری قوم ان کی محنت کی کمائی پر قابض نہ ہو جائے۔
تیسرا اصول: مالدار مسلمان اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے بینک کھولیں،سود کو شریعت مطہرہ نے حرام فرمایا ہے لیکن اور سو طریقے حلال کمائی کے بتائے ہیں، لہذٰا مسلمان ان جائز امور کو اپنائیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں تاکہ انہیں بھی نفع ہو اور ان کے مسلمان بھائیوں کی حاجت بھی بر آئے۔
چوتھا اصول: سب سے زیادہ اہم دین ہے لہذٰا مسلمان دین کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں اسی دین نے ہمارے اسلاف کو مدارج عالیہ پر پہنچا دیا ہمارے اسلاف نے دین کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا دین کی راہ پر اس مضبوطی کے ساتھ گامزن رہے کہ چارہ انگ عالم میں ان کا سکہ بیٹھ گیا، دین نے ہی نانِ شبینہ کے محتاجوں کو تاجوں کا مالک بنا دیا اور جس نے دین کو چھوڑا ذلت اس کا مقدر ہوئی۔

دین متین علم دین سے وابستہ ہے، لہذٰا مسلمان علم دین سیکھیں اپنے بچوں کو سکھائیں کم سے کم اپنی ایک اولاد دین کے لیے وقف کر دیں) آج مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ دنیاوی تعلیم کے پیچھے منہ کے بل گرتے ہیں اور دین کو پس پشت ڈال رکھا ہے، اعلیٰ حضرت رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں:

اندھو! جسے ترقی سمجھتے ہو سخت تنزل ہے، جسے عزت جانتے ہو اشد ذلت ہے۔

مسلمان اگر مذکورہ چار اصول اختیار کر لیں تو ان شاءاللہ تعالیٰ ان کی حالت آج بدل جائے گی، اب مسلمانوں کا رد عمل ملاحظہ فرمائیں۔
اول کا حال: تو اس طرح ہے کہ گھر کے فیصلے میں اپنے دعوے سے کچھ بھی کمی منظور نہیں اگر چہ کچہری میں جا کر گھر بھی چلا جائے ٹھنڈے دل سے پسند کر لیتے ہیں، گرہ گرہ بھر زمین کے لیے ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہو جاتے ہیں۔
دوم کا حال: یہ ہے کہ خاندانی لوگ حرفت و تجارت کو عیب سمجھتے ہیں اور ذلت کی نوکریاں کرنے، ٹھوکریں کھانے اور حرام کمائی پر فخر کرتے ہیں۔ اور اگر تجارت کریں بھی تو مسلمانوں کو اتنا حس نہیں کہ اپنی ہی قوم سے خریدیں اگر چہ کچھ مہنگا ملے کہ اس میں نفع تو اپنے ہی بھائی کا ہے، غیروں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ اپنی ہی قوم والوں سے خریدتے ہیں اگر چہ گراں ملے، ادھر بیچنے والوں کی یہ حالت ہے کہ ہندو کم نفع رکھتا ہے اور مسلمان صاحب سارا نفع ایک مرتبہ میں ہی کمانا چاہتے ہیں، ہندو تجارت کے اصول جانتا ہے کہ جتنا تھوڑا نفع رکھے اتنا ہی زیادہ ملتا ہے، خریدنے والے مجبوراً ہندو سے خرید سکتے ہیں تو کیا مسلمان اپنی عادت چھوڑ سکتے ہیں؟
سوم کا حال: کچھ یوں ہے کہ مسلمان مالدار بے حیائی اور بیہودگی کے کاموں میں لاکھوں کروڑوں خرچ کر دیتے ہیں ناموری حاصل کرنے کے لیے اور ایک مسلمان بھائی کی مدد کو آگے نہیں آتے۔ انہیں دین سے کوئی تعلق ہی نہیں بس ختنے نے انہیں مسلمان کیا اور گوشت کھانے نے ان کی مسلمانی کو باقی رکھا، اس سے زائد کی انہیں ضرورت نہیں گویا کہ نہ انہیں مرنا ہے اور نہ ہی اللہ کے حضور جواب دینا ہے۔
چہارم کا حال: دنیاوی تعلیم کے پیچھے بچوں کی زندگی برباد کر دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ بچے نے بی۔ اے۔، ایم۔ اے کر لیا تو رزاق مطلق ہو گیا، حالانکہ نوکری کے لیے ہزار شرطیں لگائی جاتی ہیں اگر کسی طرح نوکری مل بھی گئی تو صریح ذلت کی، اس طرح سے بچے کی آدھی زندگی برباد کر دیتے ہیں اور تعلیم کی جو عمر ہوتی ہے اس طرح گنوا دیتے ہیں، اب علم دین کب حاصل کرے گا بچہ کہ حرام و حلال، نیک و بد میں تمیز کر سکے۔

حال یہ ہوتا ہے کہ یہی بچہ والدین کا نافرمان بنتا ہے اور ایک وقت یہ بھی آتا ہے کہ والدین کو گھر سے در بدر تک کر دیتا ہے، یہ کیسی تعلیم کہ اولاد کو جہنم کا مستحق بنا دیتی ہے، علم دین سے بے راہ روی کا یہی تو نتیجہ ہوگا۔

اس طرح اعلیٰ حضرت رضی اللّٰہ عنہ نے وجوہ اور اسباب بیان فرما دیے کہ مسلمان کن اصول پر عمل پیرا ہو کر کامیابی کی راہ پا سکتے ہیں لیکن جب تک مسلمان اسباب کو باقی رکھ کر مرض کا علاج چاہیں گے تو یہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔

کاش! مسلمان اگر ان چار اصول کو اپنا لیں تو یقیناً آج سے ہی حالات بدلنے لگیں گے، لیکن یہ اصول سکھ برادری (پنجابی قوم) میں پائے جاتے ہیں، وہ اس طرح کے اصولوں سے استفادہ کرکے دنیا میں خوب ترقی کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

مگر مسلمانوں کو چاہیے کہ آپس میں ایک دوسرے کے کام آئیں، اور اپنوں کو چھوڑ کر غیروں سے معاملات نہ کریں، کیوں کہ غیر کبھی اپنے ہونے والے نہیں ہیں اور اگر اپنوں کا ساتھ دیں گے ایک دوسرے کے معاون بنیں گے تو مسلمان ضرور کامیاب ہوں گے اور انہیں دوسری قوم کی حاجت نہیں ہوگی، دین اسلام سے محبت کریں دین کا درد پیدا کریں اپنے بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کریں، اپنے وہ معاملات جن میں حکومت کو دخل دیتے ہیں آپس میں ہی حل کریں اور دین اسلام کی تبلیغ و بقاء کے لیے دن رات کوشاں رہیں۔

نوٹ: یہ مضمون حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کے رسالہ ”تدبیر فلاح و نجات و اصلاح“ کا خلاصہ ہے۔

1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں