✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

ندامت میں کامیابی ہے

عنوان: ندامت میں کامیابی ہے
تحریر: ہمشیرہ الماس عطاری

یقیناً فانی دنیا سے منہ پھیر کر رب العالمین کی طرف رجوع کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔ بغیر اس خالقِ کائنات کی طرف رجوع کیے ہمارے دلوں کا کچھ نہیں ہو سکتا۔

اس کی یاد کے بغیر ہمارا دل مردہ، مردار اور نجاست میں لتھڑا ہوا ہے، قسم قسم کی بیماریوں میں شرابور ہے، اور ہماری زندگی یوں ہی ضائع ہو رہی ہے۔ اگر ہم پوری زندگی گناہوں کے دلدل اور گندی نالیوں میں لت پت رہے اور اس کی جانب رجوع نہ کیا تو گویا ہم مردہ ہی تھے اور مردہ ہی زمین تلے دفن کر دیے جائیں گے۔

جب تک مولا عزوجل اور رسولِ اکرم ﷺ کی یاد کا چراغ ہمارے دلوں میں نہ جلے اور ان کی طرف ہمارا دل نہ مائل ہو، تو جان لیں کہ ہم بظاہر زندہ ہیں مگر حقیقت میں مردہ ہیں۔

ہر بیماری کی کوئی نہ کوئی دوا ہوتی ہے، اور دلوں کی بیماری کی دوا سچی ندامت، توبہ اور استغفار ہے۔ جب ہم کسی دنیاوی عہدے دار کے پاس جاتے ہیں تو اپنا ظاہری حلیہ درست کرتے ہیں، زبان سنبھال کر بولتے ہیں، الفاظ عاجزانہ ہوتے ہیں، اور بیٹھنے کا انداز بھی مؤدبانہ ہوتا ہے۔

تو ذرا غور کریں! جو احکم الحاکمین، ساری کائنات کا رب، اور تمام مخلوقات کو پالنے والا ہے، اس کی بارگاہ میں کتنا محتاط ہوکر جانا چاہیے؟

اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے دل میں اللہ اور اس کے پیارے رسول ﷺ کی رضا بسائیں، مردہ دل کو زندہ کریں، اپنی آخرت کی فکر کریں، گناہوں کی نجاست سے نکل کر پاک صاف ہوں، اور ہر مصیبت سے بچنے کے لیے اللہ کی طرف رجوع کریں۔

ہمیں اب جاگ جانا چاہیے اور اپنی خطاؤں پر نادم ہوکر اس کی بارگاہِ عالی میں جھک جانا چاہیے۔ اللہ عزوجل ہمیں عقلِ سلیم عطا فرمائے اور دنیا، نفس و شیطان کے مکر و فریب سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

بعض اوقات عبادت وہ اثر نہیں دکھاتی جو ندامت دکھاتی ہے ہر چیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ اگر بندہ واقعی اپنے گناہوں پر نادم ہو تو سچی ندامت یہ ہے کہ وہ جس گناہ پر نادم ہے، دوبارہ کبھی اس جیسا کوئی عمل نہ کرے

۔ جیسا کہ حضرت ابو طالب مکی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

”سچی ندامت یہ ہے کہ بندہ جس فعل پر نادم ہے، اس جیسا کوئی کام دوبارہ نہ کرے۔“ [قوت القلوب، ص: 99]

اللہ عزوجل نے اپنے پاکیزہ کلام میں ارشاد فرمایا:

”اِنَّ اللّه يُحِبُّ التَّوَّابِيْنَ وَ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِيْنَ“ [البقرہ: 222]

ترجمہ کنز الایمان: بیشک اللہ تعالی توبہ کرنے والوں اور ستھرا رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔

رسولِ اکرم ﷺ کا فرمانِ محتشم ہے:

”التَّائِبُ حَبِيْبُ اللّهِ، وَالتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَّا ذَنْبَ لَهُ“ [ابن ماجہ، کتاب الزہد، حدیث: 4250]

ترجمہ: توبہ کرنے والا اللہ عزوجل کا حبیب ہے، اور گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ ہی نہیں کیا۔

غور کریں، ہم جیسے گناہگاروں کو گریہ و زاری کرنے کی کس قدر ضرورت ہے! ایک شاعر نے اسی حقیقت کو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا:

”یَخَافُ عَلی نَفْسِہ مَنْ یَّتُوْبُ فَکَیْفَ تَری حَالَ مَنْ لَا یَتُوْبُ“ [منہاج العابدین، ص: 71]

ترجمہ: جو ہر وقت توبہ و استغفار میں مصروف رہتے ہیں، وہ بھی اپنے نفس کے بارے میں ڈرتے ہیں، تو ان کا کیا حال ہوگا جو توبہ سے بالکل ہی غافل ہیں؟

حضرت سیدنا سہل بن عبداللہ تستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”انسان پر توبہ سے بڑھ کر کوئی چیز لازم نہیں، اور توبہ نہ کرنے سے بڑھ کر کوئی عذاب بھی نہیں، مگر لوگ توبہ سے غافل ہیں۔“

ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

”جو یہ کہتا ہے کہ توبہ فرض نہیں، وہ کافر ہے، اور جو ایسے شخص کے قول سے راضی ہو، وہ بھی کافر ہے۔ بلکہ سچی توبہ کرنے والا وہ ہے جو ہر لمحہ اور ہر سانس میں نیکیوں سے ہونے والی غفلت پر بھی توبہ کرتا ہے۔“ [قوت القلوب، ص: 98]

امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

”توبہ کرنے والوں کے پاس بیٹھا کرو، کیونکہ ان کے دل بہت نرم ہوتے ہیں!“ (الزہد لابن مبارک، حدیث: 132)

اب وقت ہے کہ ہم عہد کریں!

ابھی وقت ہے، آئیے اٹھیں اور یہ عہد کریں کہ ہم اب تمام گناہ کی چیزوں سے اپنے دلوں کو دور کر لیں گے۔ اب بس بہت ہنس لیے، بہت مستیاں کر لیں، بہت دکھاوا کر لیا، بہت بے حیائی ہو گئی، بہت دلوں کو توڑا، بہت والدین کی نافرمانی کر لی، بہت شوہر کی حکم عدولی کر لی، دنیا اور نفس نے ہمیں بہت غافل کر دیا۔ہم نے جسمانی صفائی پر تو بہت توجہ دی، مگر روحانی صفائی پر نہیں۔

بہت رنگ برنگے لباس پہن لیے، مگر گناہوں کی آلودگی اور نجاست کو دھونے کی فکر نہ کی۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنے دلوں کو توبہ کے پانی سے دھوئیں، ذکرِ الٰہی کی چادر چڑھائیں، اور سنتِ رسول ﷺ کی رداسے خود کو ڈھانپ لیں۔

ہمیں چاہیے کہ خود کو کنیزِ فاطمہ بنانے کا عزم کریں۔ اپنے ظاہری قدموں سے نہیں، بلکہ دلوں سے اللہ کی طرف چلیں، ہمیشہ کے لیے اس کی بارگاہ میں اپنی جبینِ نیاز کو جھکا دیں۔ اپنی ماضی کی خطاؤں کی سچی معافی مانگیں اور آئندہ گناہوں سے بچنے کا پختہ عزم کریں۔

”یا اللہ! ہمیں سچی اور پکی توبہ کرنے کی توفیق عطا فرما، اور ہمیں توبۃ النصوح نصیب فرما۔ آمین یا رب العالمین!“

ندامت نے بشر حافی کو ولایت کے عظیم منصب پر فائز کیا، ندامت ہی نے فضیل بن عیاض کو قربِ الٰہی کا مشتاق بنا دیا!

ہمارے پیر و مرشد امیرِ اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کیا خوب فرماتے ہیں:

چل دیے دنیا سے سب شاہ و گدا

کوئی بھی دنیا میں کب باقی رہا؟

جیتنے دنیا سکندر تھا چلا

اور جب گیا دنیا سے، خالی ہاتھ تھا

کر لے توبہ، رب کی رحمت ہے بڑی

قبر میں ورنہ سزا ہوگی کڑی

اللہ عزوجل ہمیں سچی توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!

1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں