✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

نحوی تحقیق کا ایک علمی سفر

عنوان: نحوی تحقیق کا ایک علمی سفر
تحریر: محمد عکاس علی نعیمی

تقریبا ڈیڑھ دو مہینہ پہلے کی بات ہے ایک دن عشاء کے بعد درجہ ثانیہ کے طالب علم حافظ عبیدرضا ابن شمس میرے پاس آئے اور انہوں نے نحو کا ایک مسئلہ پوچھا کہ حضرت! جزا اگر مضارع مجزوم بلم ہو تو اس پر فاء کا دخول جائز ہے یا نہیں؟

تو میں نے کہا کہ جائز نہیں ہے انہوں نے پوچھا کیوں؟ میں نے کہا کہ وہ معناً ماضی ہے اور قد کے بغیر ماضی پر فاء کا دخول جائز نہیں ہے۔

تو انہوں نے مجھے ہدایۃ النحو کے دخول فاء کی وجوبی صورتوں پر چڑھایا ہوا حاشیہ دکھایا جس میں صاف لکھا ہوا تھا کہ مضارع منفی بما و لن و لم پر فاء لانا واجب ہے وہ حاشیہ یہ ہے۔

الصُّورَةُ الثَّانِيَةُ أَنْ يَكُونَ الجَزَاءُ مُضَارِعًا مَنْفِيًّا بِغَيْرِ لَا بِأَنْ يَكُونَ مَنْفِيًّا بِـمَا أَوْ بِـلَنْ أَوْ بِـلَمْ۔

یعنی دوسری صورت (جہاں فاء لانا واجب ہے) یہ ہے کہ جزاء مضارع منفی بغیر لا ہو بایں طور کہ منفی بما ہو یا بلن ہو یا بلم ہو۔ (عنایۃ النحو، صفحہ: 199)

تب میں نے خلاصۃ النحو میں دیکھا تو اس میں صراحت تھی کہ جزا لم کے ساتھ ہو تو اس وقت فاء لانا جائز نہیں ہے اس کی اصل عبارت یہ ہےگے۔

اس میں دو صورتوں میں جزاء پر فاء لانا جائز نہیں:

(1)۔۔۔ جزاء ماضی بغیر قد کے ہو:

إِنْ صُمْتَ نَجَحْتَ

(2)۔۔۔ جزاء کے شروع میں لم ہو: مَنْ يَكْذِبُ لَمْ يَنْجَحُ (خلاصۃ النحو صفحہ: 153)

تو میں حیرت میں پڑ گیا کہ ایک ہی مصنف دو جگہ دو طرح کی بات لکھ کے رکھے ہیں اور ابھی یہ فیصلہ بھی باقی تھا کہ خلاصہ النحو اور عنایۃ النحو میں سے کس کی بات صحیح ہے؟

تو پھر میں نے انہیں شرح جامی لانے کے لیے کہا اس کو جب کھول کر دیکھا تو میری حیرت میں کمی کی بجائے اس میں مزید اضافہ ہوگیا کیونکہ اس میں بھی دو جگہ دو طرح کی بات لکھی ہوئی تھی یعنی ماضی بغیر قد کی تفصیلات میں بھی مضارع مجزوم بلم کو شمار کیا تھا جس کی اصل عبارت یہ ہے۔

إذا كان الجزاء ماضيا بغير قد لفظا تفصيل للماضي، نحو: إن خرجت خرجت، أو معنى نحو: إن خرجت لم أخرج لم يجز الفاء في الجزاء یعنی جزاء ماضی چاہے لفظاً ہو۔

نحو: ان خرجت خرجت یا معنًی ہو نحو: ان خرجت لم اخرج

اس پر فا کا دخول جائز نہیں ہے۔ (شرح الجامي، صفحہ: 501، کتب خانہ مدرسہ فقاہت)

اور مضارع منفی بغیر لا کی تفصیلات میں بھی مضارع مجزوم بلم کو شمار کیا تھا اصل عبارت یہ ہے۔

وإما جملة اسمية أو أمر أو نهي أو دعاء أو استفهام أو مضارع منفي بما أو لم أو لن إلى غير ذلك، كالتمني والعرض. وفي جميع هذه المواضع لا تأثير لحرف الشرط في الجزاء فاحتاج إلى الفاء۔

یعنی جملہ اسمیہ اور جملہ انشائیہ اور فعل مضارع منفی بما یا بلم یا بلن وغیر ذٰلک مثلاً تمنی و عرض ان تمام صورتوں میں چونکہ حرف شرط کی جزا میں کوئی تاثیر نہیں ہوتی ہے اس لیے فاء کی ضرورت ہے۔ (عنایۃ النحو، صفحہ: 503)

اسی حیرانگی کے عالم میں میں نے شرح جامی کے حاشیہ کی طرف نظر کی تو الحمدللہ وہاں اس حیران کن مسئلہ کا حل موجود تھا اس میں لکھا ہوا تھا۔

الواجب إسقاط قوله: (أو لم) فإنه صرح فيما سبق أنه ماض معنى مندرج في قوله: (إذا كان ماضيا بغير قد) وفي بعض النسخ لم يوجد:

جس کا صریح مطلب یہ تھا کہ مضارع منفی بغیر لا کی تفصیلات میں لم کو شامل کرنا صحیح نہیں ہے اور بعض نسخے اس سے خالی بھی ہیں۔

اس حاشیہ نے مجھے حیرت کے بھنور سے کلیۃ نکال لیا پھر میں نے اطمینان کی سانس لی

فالحمد للہ رب العالمین و الصلوٰۃ والتسلیم علی سید المرسلین و علی آلہ و اصحابہ اجمعین۔

ابھی ایک مرحلہ اور باقی تھا وہ یہ کہ عنایۃ النحو میں ماضی بغیر قد کے تحت والے حاشیے میں کیا ہے ؟ اس حاشیہ کو دیکھا تو خلاصۃ النحو والی بات ہی لکھی ہوئی تھی کہ مضارع مجزوم بلم پر فاء کا دخول صحیح نہیں ہے اس حاشیہ کی اصل عبارت یہ ہے

قوله: ماضياً سواء كان لفظاً نحو: إن أكرمتني أكرمتك أو معنى نحو: «إن قمت لم أقم۔ (عنایۃ النحو، صفحہ: 198)

یہ حاشیہ دیکھنے کے بعد خیال آیا کہ کاش یہ حاشیہ پہلے ہی دیکھ لیا ہوتا تو اسی وقت معلوم ہو جاتا کہ مضارع منفی بغیر لا کے تحت جو عنایۃ النحو والا حاشیہ ہے وہ غلط ہے۔

خیر! دیر آید درست آید شرح جامی منگانے سے یہ بات تو معلوم ہوگئی کہ اس میں بھی کتابت کی غلطی موجود ہے اور اسی کی اتباع میں یہاں پر یہ سہو واقع ہوا ہے۔

اب جبکہ مسئلہ مجھ پر مکمل منقح ہوگیا تھا تو پھر میں نے عبید سے کہا کہ دیکھیے! خلاصۃ النحو کی بات (عنایۃ النحو، صفحہ: 198) والی بات ہی صحیح ہے اور اس کے برخلاف (عنایۃ النحو، صفحہ: 199) والی بات صحیح نہیں ہے۔ ہو سکتاہے کہ محشی علام سے بے توجہی میں شرح جامی کی اتباع میں یہ بات نقل ہوگئی ہے۔

پھر وہ خوش وخرم میرے پاس سے چلے گیے اس کے اس طرح سوال کرنے سے مجھے بھی بے پناہ خوشی ہوئی اور سچ پوچھیےتو اس وقت مجھے حضرت مفتی عبید الرحمن مصباحی رشیدی پورنوی کے دور طالب علمی کا علم نحو ہی سے متعلق ایک واقعہ یاد آگیا تھا۔

ماضی قریب کی نامور ہستیوں میں ایک بڑا نام حضرت مفتی عبید الرحمن رشیدی پورنوی علیہ الرحمہ کا بھی ہے تعلیمی سفر میں مظہر اسلام آنے سے پہلے تک نحو و صرف سے آپ کو دلچسپی تھی لیکن مظہر اسلام میں داخلہ لینے کے بعد آپ کی دلچسپی معقولات کے ساتھ قائم ہوگئی تھی۔

وہ واقعہ یہ تھا کہ نحو کا کوئی مسئلہ شرح جامی میں کچھ اور تھا اور البشیر الکامل یا بشیر الناجیہ میں صدر العلماء علامہ غلام جیلانی میرٹھی علیہ الرحمہ نے کچھ اور تحریر فرمارکھا تھا۔

اس مسئلہ کو لے کر کے حضرت مفتی عبیدالرحمن رشیدی علیہ الرحمہ اپنے استاد (غالباً حضرت علامہ عبدالرؤف بلیاوی علیہ الرحمہ) کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو علامہ عبدالرؤف بلیاوی علیہ الرحمہ نے فرمایا کہ آپ صحیح فرما رہے ہیں دونوں میں تضاد تو موجود ہے اور ادھر شارح جامی ہے تو ادھر بھی صدر العلماء امام النحو ہیں۔

میرے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ کس کا قول درستگی کے زیادہ قریب ہے آپ کی خوش نصیبی یہ ہے کہ امام النحو صاحب ابھی باحیات ہیں آپ انہیں سے خط و کتابت کر لیجیے تو حضرت مفتی عبدالرحمن رشیدی صاحب نے اس مسئلہ کے حل کے لیے حضور امام النحو کی بارگاہ میں خط لکھا جس کے جواب میں حضور امام النحو علیہ الرحمہ نے فرمایا تھا کہ بالکل آپ صحیح کہ رہے ہیں۔

میں نے شارح جامی کے برخلاف موقف اختیار کیا ہے کیونکہ یہی موقف میرے استاد (غالباً حضرت مولانا گل محمد کابلی علیہ الرحمہ) کا تھا انہیں کی اتباع میں میں نے یہ موقف اپنی کتاب میں بیان کیا ہے۔

اور خط کے اخیر میں آپ نے اشرفیہ کی بڑی تعریف کی کہ مجھے خوشی ہوئی کہ اشرفیہ میں ایسے طلبہ کرام موجود ہیں جو اتنی باریک بینی اور گہرائی و گیرائی کے ساتھ کتب دینی کا ذوق رکھتے ہیں۔

حسن اتفاق کہیے کہ دونوں واقعہ میں کئی طرح سے مشابہت و یکسانیت پائی جاتی ہے من جملہ یہ کہ وہاں بھی عبید یہاں بھی عبید، وہاں بھی نحو کا مسئلہ یہاں بھی نحو کا مسئلہ، وہاں بھی تضاد یہاں بھی تضاد۔ ماشاءاللہ عزوجل۔

اس سال حافظ عبید کے کئی سوالوں سے میں بہت خوش ہوا ان میں سے ایک سوال یہ تھا سوچا کہ ان خوشیوں کو الفاظ کا جامہ پہنا دیا جائے سنا ہے خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں۔

مولا کریم حافظ عبید سمیت ہم سارے لوگوں کو ہمارے اکابر خصوصا حضرت مفتی عبید الرحمن رشیدی پورنوی علیہ الرحمہ کے فیضان سے مالا مال فرمائے نظر بد سے محفوظ رکھے دونوں جہاں کا سفر آسان بنائے ہمارے اکابر کی روش پر ہمیں قائم و دائم رکھے۔

تبلیغ دین و سنت میں دعوت اسلامی کی دھومیں مچائے اور جن کے مساعی جمیلہ کی بدولت اس علمی انحطاط کے زمانے میں ہمیں باذوق طلبہ اور انتہائی دینی و علمی ماحول فراہم ہوا یعنی کروڑوں سنیوں کے پیشوا بانی دعوت اسلامی امیر اہل سنت ابو بلال حضرت علامہ مولانا الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ ان کا سایہ ہمارے سروں پر دراز فرمائے۔

آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وبارک وسلم ابدا ابدا

1 تبصرے

  1. پڑھ تو لیا سمجھ نہیں آیا رب کریم سمجھ عطا فرمائے آمین علمِ نحو عطا فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں