عنوان: | نسل نو کی تربیت کے ذمہ دار ہم ہیں! |
---|---|
تحریر: | مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا |
عہدے بڑے ہوں تو ذمہ داریاں بھی بڑی ہوتی ہیں۔
اللہ رب العزت نے قرآن مقدس میں ارشاد فرمایا:
وَلَقَدۡ كَرَّمۡنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ (الإسراء: 70)
ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی۔
انسان کے سر اشرفیت کا تاج سجا دیا گیا ہے۔ اشرف المخلوقات ہونے کے ناطے انسان اتنی ہی ذمہ داریوں کا حامل بھی ہے، اور ان ذمہ داریوں کی کما حقہ تکمیل ہی انسان کو اشرف بناتی ہے۔
درج ذیل حدیث شریف میں ذمہ داری کے مختلف دائرے ذکر کیے گئے ہیں:
عن عبد الله بن عمر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: الا كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته، فالامير الذي على الناس راع عليهم وهو مسئول عنهم، والرجل راع على اهل بيته وهو مسئول عنهم، والمراة راعية على بيت بعلها وولده وهي مسئولة عنهم، والعبد راع على مال سيده وهو مسئول عنه فكلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته. (أبو داؤد: 2928)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”خبردار سن لو! تم میں سے ہر شخص اپنی رعایا کا نگہبان ہے اور (قیامت کے دن) اس سے اپنی رعایا سے متعلق بازپرس ہو گی، لہٰذا امیر جو لوگوں کا حاکم ہو وہ ان کا نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق بازپرس ہو گی اور آدمی اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا، اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کے اولاد کی نگہبان ہے اس سے ان کے متعلق پوچھا جائے گا غلام اپنے آقا و مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا، تو (سمجھ لو) تم میں سے ہر ایک راعی (نگہبان) ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق پوچھ گچھ ہو گی“۔
انسان پر اس کی زندگی میں دو طرح کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں:
ایک تو وہ ذمہ داری جو کہ ذاتی اور شخصی ہے، اور دوسری وہ ذمہ داری جو ایک انسان کی دوسرے انسان پر عائد ہوتی ہے۔ بہرحال، ہر فردِ بشر ذمہ داریوں کا حامل ہے، جس کا سلسلہ بچپن سے ہی شروع ہو جاتا ہے اور اس کی انتہا انتہائے زندگی ہے۔
مگر اس وقت زیر بحث ایک خاص قسم کی ذمہ داری ہے اور وہ ذمہ داری نسلِ نو کی تربیت ہے۔
خیال رہے، کسی بھی قوم کی ترقی و بقا کا انحصار اس کی آئندہ نسل پر ہوتا ہے اور نئی نسل کی تربیت کا انتظام موجودہ نسل کا فریضہ ہے۔ موجودہ نسل ہی آئندہ نسلوں کے ایمان و ایقان کی حفاظت کی ذمہ دار ہے۔ نسلِ نو کی خوش بختی اور بختی ہمارے ہاتھ میں ہے۔
اس لیے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ان کے دلوں میں نورِ علم و آگہی سے چراغاں کریں، حق و باطل کی معرفت کرائیں، احقاقِ حق و ابطالِ باطل کا جذبہ بیدار کریں، محبتِ خدا اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے دلوں میں جاگزیں کریں، دین سے محبت و وفا سکھائیں۔
یاد رکھیں! اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے پورا نہ کرنا، ان کے معاملے میں کوتاہی برتنا، انہیں فتنۂ و فساد کے شعلوں کی نذر کرنا ہے۔
اس لیے اس فریضہ کو سمجھیں قبل اس کے کہ آئندہ نسلیں فتنۂ و فساد کی آندھیوں کی زد میں آجائیں۔ ان کے نزدیک کفر و ایمان کا فرق، توحید و شرک کا فرق، عقائد و مذاہب کا فرق سب بے معنی باتیں ہو کر رہ جائیں۔
کیوں کہ دین کے منافی ماحول میں ایمان سے محروم ہو جانے والے احتمالات قوی ہیں، جن کا اندازہ حالاتِ حاضرہ کے تئیں لگایا جا سکتا ہے۔ یہ مہرِ نیم روز کی طرح واضح ہے کہ صحبت اور ماحول کا اثر و رسوخ انسان کی زندگی پر بڑی ہی سبک رفتاری سے اثر انداز ہوتا ہے۔
غور کریں! اگر آج ہم نے ان کے ایمان و عقائد کی فکر نہیں کی تو ہماری آئندہ نسلوں کا کیا حال ہوگا؟ وہ تباہی کے کس ہولناک دہانے پر کھڑی ہوں گی؟ اور اس تباہی کا سیلاب نسلاً بعد نسل بڑھتا جائے گا۔
اگر ہم نئی نسل کے تعلق سے اپنی ذمہ داری کو اس آیت کی روشنی میں سمجھتے ہیں:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ (التحریم:6)
ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔
تو ہمیں اپنے رویے کا بے لاگ و منصفانہ جائزہ لینا ہوگا۔ کیا ہم نے آئندہ نسلوں کی صلاح و راستی اور امن و آشتی کے لیے کوئی تیاری کی؟ کوئی منصوبہ یا تدبیر سوچی؟ کوئی قدم اٹھایا؟
اپنے آپ سے یہ سوال ضرور کریں:
ہر شعبۂ زندگی میں فرض شناسی کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ جس معاشرے میں بھی جذبۂ فرض شناسی مفقود ہو، وہ ایک کامیاب اور متوازن معاشرہ نہیں بن سکتا۔
چوں کہ تعلیم و تعلم کا ذوق بھی ہمارے دلوں سے رفتہ رفتہ اٹھتا جا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب بہترین معاشرے کی تشکیل محض تصور بن کے رہ گئی ہے۔
کیوں کہ تعلیم کے بغیر حق تربیت کی تکمیل کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
اس لیے ہمارے لیے از حد ضروری ہے کہ اپنی ترجیحات بدلیں، دل میں دین کا درد پیدا کریں، دین کی ترویج و اشاعت میں پیش پیش رہیں اور حتی المقدور حصہ لیں۔
آئندہ نسلوں کی فکر کریں، تعلیم و تعلم پر بھر پور توجہ دیں، کیوں کہ عورت ہونے کے ناطے ہمیں بس اپنی ذات کی نہیں پورے ایک خاندان کی پرورش کرنی ہے۔
بلکہ معاشرے کی اخلاقی و روحانی ترقی کے لیے ہر فردِ بشر کا اس میں حصہ لینا ضروری ہے۔
آپ کی یہ کاوش بحرِ کائنات کے مد و جزر میں ان کی کشتیِ حیات کو اخلاقِ ذمیمہ اور عقائدِ شنیعہ کی خونخوار لہروں سے بچا کر نجاتِ دارین کے ماویٰ تک پہنچا سکے گی۔
اب آپ خود فیصلہ کریں کہ آپ ان کے ایمان و ایقان کے محافظ بنیں گے یا یہ منظور کریں گے کہ تباہی کے طلاطم میں انہیں غرق ہونے کے لیے چھوڑ دیں؟
فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے۔
اللہ رب العزت توفیقِ عمل بخشے۔ (آمین)
رب کریم عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین
جواب دیںحذف کریںما شاء اللہ تعالیٰ 💖