✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

نظام حیات سورہ ضحیٰ کی روشنی میں

عنوان: نظام حیات سورہ ضحیٰ کی روشنی میں
تحریر: فردوس جبیں امجدی ضیائیہ

انسان کی نفسیاتی اور باطنی کیفیات کا باہمی تعلق کچھ اس طرح ہے کہ ہر شخص پر دو طرح کی کیفیات طاری ہوتی ہیں۔

انسان بنیادی طور پر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ایک Extro ہوتے ہیں یعنی کہ بھاگ دوڑ،کھیل کود،لوگوں سے ملنا جلنا،ہنسی مزاق کرنا ان سب چیزوں میں انھیں خوشی ہوتی ہے تنہائی انھیں کاٹ کھانے کو دوڑتی ہے۔

دوسرے وہ لوگ جو Intro کہلاتے ہیں وہ مجلس وغیرہ میں نھیں بلکہ تنہاٸی میں بیٹھنا پسند کرتے ہیں غور و فکر رہے ہوتے ہیں۔

یہ دو مزاج اللہ تعالیٰ نے بنائے ہیں۔ اس طرح ہر شخص پر alternatively کچھ کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ ہر چیز کا اک تاریک رخ بھی ہوتا ہے اور اک روشن رخ بھی ہوتا ہے۔

کبھی طبیعت میں ایک طرح کا قبض ہو جاتا ہے۔ طبیعت میں بندش آجاتی ہے۔ ایسا لگتا ہے پکڑ لیا ہو کسی نے، پھر آدمی نا امید سا ہو جاتا ہے، اسے ہر معاملے میں تاریک پہلو نظر آنے لگتا ہے۔

دوسرے وقت اس شخص کے اندر پھر انشراح پیدا ہو جاتا ہے، بولنے ہنسنے کو جی چاہتا ہے، ہر چیز میں روشنی کا پہلو اسے نظر آتا ہے، اس وقت انسان ہر چیز کا روشن رخ دیکھتا ہے۔

یہ دونوں کیفیات جب انسان کی روحانی زندگی سے متعلق ہو جائیں تو اسی کو صوفیاے کرام قبض و بسط کا نام دیتے ہیں۔

جب کبھی قبض کی صورت ہو تو سورہ ضحیٰ کا پڑھنا تریاق ثابت ہوتا ہے۔ سورہ ضحیٰ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَالضُّحَى (الضحیٰ: 1)

ترجمہ کنز الایمان: قسم ہے روز روشن کی۔ جب سورج پوری آب وتاب سے چاشت کے وقت چمکنے لگتا ہے، اس وقت کو ضحیٰ کہتے ہیں۔

وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى (الضحیٰ: 2)

ترجمہ کنز الایمان: اور رات کی جب وہ سکون کے ساتھ چھا جائے۔

جب رات تاریک ہو جائے اور ہر سو آرام و سکون پھیل جائے تو عرب کہتے ہیں: ”سجی اللیل“ دن سرور و راحت اور رات وحشت و غم کا وقت ہے اور اس میں اشارہ ہے کہ ہموم دنیا سرور سے زیادہ ہیں۔ اس لیے کہ ضحیٰ ایک ساعت ہے اور لیل ساعات۔

اب سوال یہ ہے کہ ان دونوں کو ایک ساتھ کیوں لایا گیا؟

تو جواب یہ ہوگا کہ صبح سے حرکت، برکت، چلنا، دوڑنا، بھاگنا ہے، ہر کام کا آغاز ہے، ہر شخص اپنی منزل کی طرف قدم بڑھا رہا ہے، چہل پہل ہے، شور و غل ہے، صبح سے حیات کی روانگی کا پتہ چلتا ہے۔

اور رات کو سکون کا ماحول ہو گیا، تاریکی چھا گئی، شور و ہنگامہ ختم ہو گیا، نظام کائنات ساکن ہو گیا، لوگ سمٹ گیے۔ لیکن یہ دن اور رات دونوں ضروری ہیں۔ نظام حیات ممکن نہ ہوتا اگر رات ہی رات ہوتی یا دن ہی دن ہوتا۔

مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى (الضحیٰ: 4)

ترجمہ کنز الایمان: نہ آپ کے رب نے آپ کو چھوڑا اور نہ ہی وہ ناراض ہے۔

اللہ رب العزت نے روشن دن اور رات کی قسم کھا کر اپنے حبیب کی دلجوئی فرما دی کہ اے محبوب آپ کے پروردگار نے تو نہ ہی آپ کو چھوڑا ہے اور نہ ہی آپ سے ناراض ہے۔

جس طرح رات اور دن دونوں ضروری ہیں اسی طرح نفس انسانی کے لیے کبھی کبھی قبض کا وقفہ بھی ضروری ہے۔ آپ اسے یہ نہ سمجھیں کہ آپ کا رب ناراض ہو گیا بلکہ وحی کے نزول میں بھی اس کی حکمت تھی اور اس کے انقطاع میں بھی کئی حکمتیں مضمر ہیں۔ یہ بھی تربیت کا اک جز ہے۔

وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأُولَى (الضحیٰ: 4)

ترجمہ کنز الایمان: اور یقیناً ہر آنے والی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بدرجہا بہتر ہے۔

بلکہ آپ کے رب کے لطف و کرم اور انعام و احسان کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہےگا، ہر آنے والی ساعت گزری ہوئی ساعت سے، ہر آنے والی گھڑی گزری ہوئی گھڑی سے، ہر آنے والی حالت گزشتہ حالت سے، اعلیٰ سے اعلیٰ، بہتر سے بہتر اور ارفع سے ارفع ہوگی۔

دعوت اسلام کے ابتدائی دور کا تصور کیجیے جس میں یہ سورت نازل ہوئی۔ گنتی کے چند افراد نے اس دین حق کو قبول کیا تھا باقی تمام اھل مکہ حضور کے خون کے پیاسے تھے۔

انہوں نے عزم مصمم کر لیا تھا کہ اسلام کے چراغ کو بجھا کر رہیں گے، توحید کا یہ گلشن جو مصطفیٰ لگا رہے ہیں اس کا اک اک پودا جڑ سے اکھیڑ دیں گے۔

اس وقت کون یہ خیال کر سکتا تھا کہ یہ دین چند سالوں میں اتنی ترقی کر جائےگا کہ سارا جزیرہ عرب اس کے نور سے جگمگانے لگےگا۔ اس نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ وہ عزت و سروری اور شان محبوبی عطا فرمائےگا کہ آج جو خون کے پیاسے ہیں کل اشارة ابرو پر اپنی جانیں قربان کرنا سعادت سمجھیں گے۔

اور پھر اللہ نے وہ فتوحات عطا کیں کہ جیتی دنیا تک نسل انسانی یاد رکھے گی۔ اللہ نے اپنے حبیب مکرم سے خطاب فرمایا اے محبوب اس قبض کے بعد جو وقت آئےگا وہ اس سے بھی بہتر ہوگا۔

غالب نے کہا تھا:

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

رُکتی ہے مری طبع، تو ہوتی ہے رواں اور

اس لیے کہ اس قبض کے بعد جب انبساط کا مرحلہ آتا ہے تو آدمی ایک قدم آگے ہوتا ہے پہلی کیفیت سے ایک درجہ اس کا بڑھ چکا ہوتا ہے۔ یقیناً ہر آنے والی گھڑی پہلی گھڑی سے بہتر ہوتی ہے۔ آنے والا وقت اونچا درجہ لےکر آتا ہے۔

لہذا جب کبھی زندگی میں آزمائشیں مرض، بھوک، تنگی رزق، اہل و عیال کی موت وغیرہ کی صورت میں پیش آئے تو حالات سے گھبرا کر ہار ماننا دانشمندی نھیں بلکہ یہ سوچ کر قدم آگے بڑھانا چاہیے کہ اس آزمائش کے بعد جو وقت آنے والا ہے وہ اس سے سو درجہ بہتر ہوگا اور اس کے بعد کا وقت اس سے کئی گنا آسان ہوگا۔

کیوں کہ یہ وعدہ الٰہی ہے۔

فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرً (الم نشرح: 5-6)

ترجمہ کنز الایمان: تو بے شک دشواری کے ساتھ آسانی ہے بے شک دشواری کے ساتھ اور آسانی ہے۔

زندگی کے ان نازک حالات کا مقابلہ اس چٹان کی طرح کریں جو ہلنے کا نام نھیں لیتا اور آنے والے بہترین لمحے کا انتظار کریں وقت کا پہیا یوں ہی چلا کرتا ہے۔

جس کا اعلان قرآن مقدس نے یوں کیا:

وَ  تِلْكَ  الْاَیَّامُ  نُدَاوِلُهَا  بَیْنَ  النَّاسِۚ (اٰل عمران: 140)

ترجمہ کنز الایمان: اور یہ دن ہیں جو ہم لوگوں کے درمیان پھیرتے رہتے ہیں۔

یقینا آج کی اس دشواری کی بھی اک انتہا ہے اور اس کے بعد پھر آسانیاں ہی آسانیاں ہیں۔

لہذا جن حالات سے بھی آپ دوچار ہیں یقین جانیں انھیں ختم ہونا ہے۔ صبر و شکر کے ساتھ اس کے اختتام کے منتظر بنیں۔ تاکہ آپ کا نام بھی ان صابرین کی فہرست میں لکھا جا سکے جن کے لیے بشارت یوں آئی ہیں۔

وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَ (البقرہ: 155-156)

ترجمہ کنز الایمان: اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو کہ جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا۔

یقینا ہم اللہ ہی کی امانت ہیں اور ہمیں اسی کی طرف پلٹنا ہے، پر قابل غور امر یہ ہے کہ کون اپنے دامن میں کیا لے کر لوٹتا ہے۔ اپنے دامن کو صبر کا گہوارا بنائیں اور ان تلخ حالات میں رب ذوالجلال کا شکر ادا کریں کہ اس نے اس امتحان کے لیے آپ کا انتخاب کیا۔

امتحان گاہ میں اسی کو بٹھایا جاتا ہے جس میں امتحان دینے کی صلاحیت و لیاقت ہوتی ہے یہ اور بات ہے کہ ہر بندہ اپنی استطاعت کے مطابق نمبرات حاصل کرتا ہے۔

یہ قدرت کا نظام ہے کہ ہر بندے سے اس کے منصب کے مطابق امتحان لیا جاتا ہے۔ نرسری کلاس کے طالب علم سے NEET کا امتحان نھیں لیا جاتا اور MBBS کے طالب علم سے پرائمری کتابوں کا امتحان نھیں لیا جاتا لہذا جتنے عظیم منصب پر آپ خود ہوں گے اتنا ہی سخت آپ کا امتحان ہوگا اور اتنے ہی اجر و ثواب کے آپ مستحق ہوں گے۔

جیسا کہ ترمذی کی اک روایت اس کی تائید کرتی ہے:

”عن أنس بن مالك رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: إن عِظَمَ الجزاءِ مع عِظَمِ البلاءِ، وإن الله تعالى إذا أحب قوما ابتلاهم، فمن رَضِيَ فله الرِضا، ومن سَخِطَ فله السُّخْطُ۔ (ترمذی: 2396)

حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑا ثواب بڑی بلا (آزمائش) کے ساتھ ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو اسے آزماتا ہے پس جو اللہ کی تقدیر پر راضی ہو اس کے لیے اللہ کی رضا ہے اور جو اللہ کی تقدیر سے ناراض ہو تو اللہ بھی اس سے ناراض ہو جاتا ہے۔

تو زندگی کی آزماٸشوں کو اپنے لیے کثیر ثواب کا ذریعہ سمجھیں پھر چاہے وہ آزمایشیں کیسی ہی صورت میں کیوں نہ ہوں اور خدا کے ہر فیصلے پر دل سے راضی رہیں کہ اصل بندگی یہی ہے۔

رضائے حق پہ راضی رہ یہ حرف آرزو کیسا؟

خدا خالق، خدا مالک، خدا کا حکم تو کیسا؟

اللہ پاک ہمیں رضائے حق پہ راضی رہنے اور ہر حال میں اس کا شکرگزار بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں