✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

نوجوانوں کے لیے جدید چیلنجز

عنوان: نوجوانوں کے لیے جدید چیلنجز
تحریر: راغب حسین رضوی

دنیا ہمیشہ تبدیلی کے مراحل سے گزرتی رہی ہے، ہر زمانے کے اپنے تقاضے اور اپنی مشکلات ہوتی ہیں، مگر موجودہ دور ماضی کے تمام زمانوں سے زیادہ پیچیدہ اور مشکلات سے بھرپور ہے۔

سائنسی ترقی، بے راہ روی، جدید ٹیکنالوجی اور معاشرتی مسائل نے آج کے نوجوان کو ایک ایسے موڑ پر کھڑا کر دیا ہے جہاں ہر طرف نئے امتحانات اس کا انتظار کر رہے ہیں۔

ہر زمانے میں نوجوانوں کو کسی نہ کسی چیلنج کا سامنا کرنا ہوتا ہے، لیکن آج کے مسائل نہ صرف معاشرتی ہیں بلکہ فکری، ذہنی اور روحانی سطح پر بھی ان کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

نوجوان ہر قوم کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔ ان کے خیالات، ان کا طرزِ عمل اور ان کی سرگرمیاں قوم کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہیں۔ اگر نوجوان کسی بلند مقصد کو اختیار کر لے تو قومیں عروج حاصل کرتی ہیں، اور اگر ان کی سوچ منتشر ہو جائے، اور وہ بے مقصد زندگی گزارنے لگیں، تو قومیں زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔

آج کا نوجوان ایک ایسے مقام پر ہے جہاں جدید ترقی کی کشش بھی اسے متوجہ کر رہی ہے اور دوسری جانب اسے اپنی اقدار اور روایات سے دور ہونے پر آمادہ بھی کیا جا رہا ہے۔ ایسے حالات میں نوجوانوں کے لیے سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ وہ اپنے سامنے موجود چیلنجز کو پہچانیں، ان کے اسباب پر غور کریں اور ان کا مؤثر حل تلاش کریں۔

دینی و اعتقادی چیلنجز

موجودہ زمانے میں دین پر حملے مختلف انداز میں ہو رہے ہیں۔ ایک طرف مذہب بیزاری کو فروغ دیا جا رہا ہے، تو دوسری طرف نوجوانوں کو ایسے اختلافات میں الجھایا جا رہا ہے جو انہیں اصل دین سے دور کر رہے ہیں۔

سوشل میڈیا پر فکری انتشار اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ایک عام نوجوان، جسے بنیادی اسلامی تعلیمات کا مکمل علم بھی نہیں، چند ویڈیوز اور تحریروں سے متاثر ہو کر اپنے دین کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہو جاتا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کے نوجوان کو مذہب کے معاملے میں دو مخالف راہ کا سامنا ہے۔ ایک طرف وہ طبقہ ہے جو جدیدیت کے نام پر دین سے بالکل لاپرواہ ہو رہا ہے، نماز، روزہ، حلال و حرام اور دیگر شرعی احکام کو بوجھ سمجھنے لگا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو بغیر تحقیق کے مذہب میں ایسی شدت پسندی اختیار کر رہا ہے جو اسلام کی اصل تعلیمات کے خلاف ہے۔

اس چیلنج سے سامنا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان اہلِ حق علماء کے ساتھ وابستہ رہیں، دین کو صحیح اور مستند ذرائع سے سمجھیں، اور اپنے عقائد کو مضبوط بنیادوں پر استوار کریں۔

دین پر ہونے والے فکری حملوں کا ہمیشہ علمی و عقلی بنیادوں پر جواب دیا گیا ہے، اور آج بھی نوجوانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کی گہرائی میں جائیں، اپنے مذہبی ورثے سے جُڑے رہیں اور اپنے ایمان کو محفوظ رکھنے کے لیے علمی و عملی طور پر مضبوط ہوں۔

تعلیمی بحران اور جدید تعلیم کے چیلنجز

تعلیم کسی بھی قوم کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے، مگر جب تعلیم کا مقصد محض نوکری یا مادی فائدہ بن جائے تو اس کے اثرات خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔

آج کے تعلیمی نظام میں اخلاقی اور روحانی پہلو تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔ مغربی طرزِ تعلیم کو ترقی کی علامت سمجھا جانے لگا ہے، جس کے نتیجے میں نوجوانوں میں دنیا پرستی بڑھتی جا رہی ہے۔

اس کے علاوہ تعلیمی نظام میں عدم مساوات بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ امیر اور غریب کے لیے علیحدہ علیحدہ معیار کے تعلیمی ادارے موجود ہیں، جس کی وجہ سے معیاری تعلیم کا حصول ہر کسی کے لیے ممکن نہیں رہا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد یا تو معیاری تعلیم سے محروم رہ جاتی ہے، یا پھر ایسے مضامین میں ڈگری حاصل کر لیتی ہے جن کا عملی زندگی میں زیادہ فائدہ نہیں ہوتا۔

تعلیم کے زوال کا ایک اور سبب یہ بھی ہے کہ آج کے نوجوان کتابوں سے دور ہو چکے ہیں۔ تحقیق اور غور و فکر کی عادت ختم ہو چکی ہے اور انٹرنیٹ پر دستیاب سطحی معلومات کو ہی کافی سمجھ لیا جاتا ہے۔ یہ روش نہ صرف تعلیمی معیار کو متاثر کر رہی ہے بلکہ علمی ترقی کی راہ میں بھی رکاوٹ بن رہی ہے۔

سوشل میڈیا اور ڈیجیٹل فتنہ

ٹیکنالوجی نے جہاں زندگی میں آسانیاں پیدا کی ہیں، وہیں اس کا غیر ضروری استعمال نوجوانوں کے ذہنی، اخلاقی اور روحانی نقصان کا سبب بن رہا ہے۔

سوشل میڈیا پر نوجوانوں کا بے تحاشا وقت ضائع ہونا، غیر ضروری ویڈیوز دیکھنا، غیر محتاط گفتگو میں ملوث ہونا اور اخلاقی حدود کو نظر انداز کرنا ایک عام بات بن چکی ہے۔

سوشل میڈیا کے منفی اثرات میں سب سے زیادہ نقصان دہ چیز ”ذہنی الجھن“ ہے۔ ہر شخص کو رائے دینے کی آزادی حاصل ہے، جس کی وجہ سے سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا مشکل ہو گیا ہے۔

نوجوان کسی بھی چیز پر غور و فکر کیے بغیر، بغیر تحقیق کے ہر بات پر یقین کر لیتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ یا تو گمراہی میں مبتلا ہو جاتے ہیں یا اپنی زندگی کے قیمتی سال غیر ضروری سرگرمیوں میں ضائع کر دیتے ہیں۔

معاشی چیلنجز اور بے روزگاری

معاشی مسائل اور بے روزگاری نوجوانوں کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکے ہیں۔

ایک طرف تعلیمی اخراجات بڑھ چکے ہیں، تو دوسری طرف اچھی ملازمتیں حاصل کرنا بھی مشکل ہو چکا ہے۔ جو نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیتے ہیں، وہ بھی ملازمت کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں۔

بے روزگاری کے نتیجے میں نوجوان مایوسی اور ذہنی دباؤ کا شکار ہو رہے ہیں اور بعض اوقات ناجائز ذرائع اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ نوجوان صرف ملازمت کے پیچھے نہ بھاگیں بلکہ خود روزگار کے مواقع پیدا کریں، کسی ہنر کو سیکھیں اور کاروبار کے متعلق غور کریں، تاکہ وہ نہ صرف اپنی زندگی بہتر بنا سکیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی روزگار کے مواقع فراہم کر سکیں۔

آج کے نوجوانوں کو بے شمار چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ رہا، مگر اگر وہ اپنی راہ درست کر لیں، دین سے جڑے رہیں، علم کے حصول کو اپنی ترجیح بنائیں، اخلاقی و روحانی مضبوطی پیدا کریں اور وقت ضائع کرنے سے بچیں تو کامیابی ان کے قدم چوم سکتی ہے۔

سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ نوجوان اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں اور انہیں مثبت مقاصد کے لیے بروئے کار لائیں۔

قوم کا مستقبل نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔ اگر یہ نوجوان اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں، وقت کی قدر کریں اور حق و باطل میں فرق کرنے کی صلاحیت پیدا کریں تو ایک مضبوط اور باوقار قوم کی تشکیل ممکن ہو سکتی ہے۔

اگر وہ اپنی ذمہ داریوں کو نظر انداز کریں اور چیلنجز کے حل کی کوشش نہ کریں، تو یہی مسائل ان کی توانائیوں کو ضائع کر کے انہیں ناکامی کی طرف لے جا سکتے ہیں۔

لہٰذا، نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ حالات کا ادراک کریں، اپنی صلاحیتوں کا درست استعمال کریں اور دین و دنیا میں توازن رکھتے ہوئے ایک کامیاب اور بامقصد زندگی گزاریں۔

2 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں