عنوان: | ارکان اسلام میں ایک رکن زکاۃ |
---|---|
تحریر: | بنت اسلم برکاتی |
ارکانِ اسلام میں سے ایک اہم رکن ”زکوٰۃ“ ہے۔ رب العالمین نے قرآنِ مجید میں نماز کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ کا بھی حکم دیا ہے۔
زکوٰۃ کا حکم قرآنِ مجید میں 32 مرتبہ آیا ہے۔ مکی سورتوں میں 11 مرتبہ اور مدنی سورتوں میں 21 مرتبہ دہرایا گیا ہے۔
حضور تاجدارِ ختمِ نبوت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
”بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ“ (صحیح بخاری: 8، صحیح مسلم: 111)
ترجمہ: ”اسلام کی پانچ بنیادیں ہیں (جس میں سے ایک) زکوٰۃ ادا کرنا (ہے)۔“
زکوٰۃ کا لغوی معنیٰ پاک ہونا، بڑھنا اور نشوونما پانے کے ہے۔ زکوٰۃ مالی عبادت ہے جو ہر مالکِ نصاب پر واجب ہے۔ زکوٰۃ دینا فرض ہے، جو نہ دے وہ گناہگار ہے۔
زکوٰۃ واجب ہونے کی مندرجہ ذیل شرائط ہیں: مسلمان ہونا، عاقل و بالغ ہونا، آزاد ہونا، مالکِ نصاب ہونا، ایک سال گزرنا، نصاب کا حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہونا۔
زکوٰۃ دیتے وقت یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ جسے دیا جا رہا ہے، وہ مستحقِ زکوٰۃ ہے بھی یا نہیں! اگر مستحقِ زکوٰۃ نہیں ہے تو اس کو دینے سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔
ہمیں دین میں پورے پورے داخل ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے کچھ حصوں پر عمل کر کے کچھ حصوں کو نظر انداز کر کے دینِ اسلام کے نظام کے فیوض و برکات کا حصول ممکن نہیں ہے۔ اپنی مرضی کا کچھ حصہ لیا، کچھ حصہ چھوڑ دیا، اس سے اجتماعی طور پر فائدہ نہیں ہے بلکہ اس کے نقصانات ہیں۔
افسوس صد افسوس! کہ امت کا زکوٰۃ کو لے کر رویہ بہت مختلف ہے، الا ما شاء اللہ! اس کی اہمیت کا اندازہ ہی نہیں ہے۔ زکوٰۃ واجب ہونے پر بھی ادائیگی میں کوتاہی کی جاتی ہے۔ یہ سب علمِ دین اور علماءِ کرام سے دوری کا نتیجہ ہے کہ مالکِ نصاب ہوتے ہوئے بھی زکوٰۃ ادا نہیں کی جاتی۔
جیسا کہ فرمانِ حضور تاجدارِ ختمِ نبوت ﷺ ہے:
”مَنْ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا، فَلَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهُ، مُثِّلَ لَهُ مَالُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ لَهُ زَبِيبَتَانِ يُطَوَّقُهُ يَوْمَ القِيَامَةِ، ثُمَّ يَأْخُذُ بِلِهْزِمَتَيْهِ – يَعْنِي بِشِدْقَيْهِ – ثُمَّ يَقُولُ أَنَا مَالُكَ أَنَا كَنْزُكَ، ثُمَّ تَلاَ: (لَا يَحْسبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ)“ (صحیح بخاری: 1403)
ترجمہ: ”قیامت کے روز زکوٰۃ ادا نہ کرنے والوں کا مال و دولت گنجا سانپ (یعنی انتہائی زہریلا) بنا کر ان پر مسلط کر دیا جائے گا جو انہیں مسلسل ڈستا رہے گا اور کہے گا: میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں۔“
زکوٰۃ اسلام کا وہ نظام ہے جو معاشرے کو پاک و صاف کر کے اس کی معیشت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ، ہر ایک انسان کو حقوق کی ادائیگی کے لیے ذہن سازی کرتا ہے اور نیک معاشرے کی تشکیل میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
ہر مالکِ نصاب کو چاہیے کہ سال مکمل ہوتے ہی پائی پائی کا حساب کر کے زکوٰۃ نکالے اور مستحقِ زکوٰۃ کے حوالے کرے۔ اس میں ذرا برابر بھی کوتاہی نہ کریں!
یوں تو زکوٰۃ سال مکمل ہونے پر ہی نکال دینی چاہیے، لیکن ماہِ رمضان میں زکوٰۃ نکالنے کا ثواب بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔
مدارس دین کے قلعے ہیں، جو غریب بچوں کو علمِ دین سے بہرہ ور کر رہے ہیں۔ مالکِ نصاب اپنی زکوٰۃ میں سے دینی مدارس کا بھی حصہ ضرور نکالیں اور ان کی مدد کریں۔
زکوٰۃ ادا کرنے سے رب کی رضا حاصل ہوتی ہے، مال کی حفاظت و اضافے کا سبب بھی بنتا ہے، غریبوں کی دعائیں ملتی ہیں، مال پاک ہو جاتا ہے، تقویٰ حاصل ہوتا ہے اور زکوٰۃ دینے والا کامیاب لوگوں کی فہرست میں شامل ہو جاتا ہے۔
ربِ کریم ہمیں وقت پر زکوٰۃ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور نفس و شیطان کے وسوسوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!
رب کریم عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین
جواب دیںحذف کریں