عنوان: | ظالم کے ظلم سے نہیں، صابر کے صبر سے ڈرو! |
---|---|
تحریر: | سلمیٰ شاھین امجدی کردار فاطمی |
دنیا کی ہر تاریخ گواہ ہے کہ ظلم کے سامنے ظالم ہمیشہ کے لیے برقرار نہیں رہتا، ہاں! صابر کا نام ہر دور میں بلند رہا ہے۔ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ ہر فرعون کے مقابلے میں ایک موسیٰ ضرور کھڑا ہوا، ہر یزید کے مقابلے میں حسین پیدا ہوئے، اور ہر ظالم کے سامنے اس کے ظلم کا انجام ضرور آیا۔
کیوں کہ جو بھی ظلم کرتا ہے، اس کا انجام ہمیشہ عبرت ناک اور خطرناک ہوتا ہے۔
لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ظلم سے زیادہ خطرناک چیز صبر ہے۔ ظالم جتنا ظلم کرتا ہے، اگر صابر کا صبر بڑھتا جائے تو یہی صبر ایک وقت میں ایسا انقلاب برپا کرتا ہے کہ وہ رہتی دنیا تک محدود نہیں رہتا، بلکہ قیامت تک اس کی پہچان اس کے صبر سے ہوتی ہے۔
ظلم کی حقیقت:
ظلم کا معنی کسی چیز کو اس کے اصل مقام سے ہٹا دینا، کسی کا حق چھیننا، یا کسی پر زیادتی کرنا ہے۔ تاریخ میں کئی ظالم گزرے، جنہوں نے اپنی فرعونی طاقت کے ذریعے انسانوں کے حقوق کھا کر انہیں تکلیف میں مبتلا کیا۔ مگر ان سب کا انجام ہمیشہ ذلت و رسوائی رہا۔
ظالم کے پاس طاقت، ہتھیار اور اختیار ہوتا ہے، مگر وہ یہ بھول جاتا ہے کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔
صبر کی طاقت:
صبر بظاہر ایک کمزور لفظ لگتا ہے، مگر حقیقت میں یہ ایک عظیم طاقت ہے۔ صابر وہ ہوتا ہے جو ظلم سہہ کر بھی جلد بازی میں بدلہ لینے کے بجائے حکمت اور استقامت سے اپنی راہ کا تعین کرتا ہے۔ کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ جس طرح ہر رات کے بعد سحر ہوتی ہے، اسی طرح ہر ظلم کے بعد انصاف آتا ہے، اور صبر کا بدلہ ملتا ہے۔
تاریخ میں صبر کی مثالیں:
اسلامی تاریخ میں بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں، جہاں ظلم و ستم اپنی انتہا کو پہنچا، مگر صبر و استقامت کی روشنی اس سے کہیں زیادہ بلند ہوئی۔
امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے میدان کربلا میں ایسا صبر و استقامت دکھایا کہ دنیا آج تک اس کی مثال دینے سے قاصر ہے۔ یزیدی لشکر نے نہ صرف انہیں بلکہ ان کے پورے خاندان کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا، ان کے بچوں اور خواتین کو پیاسا رکھا، ان کے جانثاروں کو ایک ایک کر کے شہید کیا، مگر امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
جب ان کا چھ ماہ کا بیٹا علی اصغر پیاس سے تڑپ رہا تھا، جب ان کے بھائی حضرت عباس کے بازو قلم کر دیے گئے، تب بھی وہ حق پر قائم رہے۔
ظاہری طور پر یہ شکست تھی، مگر حقیقت میں یہ وہ کامیابی تھی، جس نے اسلام کو نئی زندگی بخشی۔ آج بھی امام حسین کا نام سربلند ہے اور یزید کا نام رسوائی کی علامت۔
حضرت بلال حبشی کو جب اسلام قبول کرنے کے جرم میں دہکتی ریت پر لٹایا گیا، سنگ دل دشمنوں نے ان کے جسم پر بھاری پتھر رکھے، تب بھی انہوں نے اَحد، اَحد کی صدا بلند کی۔ صبر کا یہی اجر تھا کہ اللہ نے انہیں نبی کریمﷺ کا مؤذن بنا دیا، اور ان کا نام رہتی دنیا تک روشن ہو گیا۔
حضرت خبیب بن عدی کو کفارِ مکہ نے قید کیا، ان کے جسم کو نیزوں سے چھیدا، سولی پر چڑھایا، مگر انہوں نے اسلام سے پھرنے سے انکار کر دیا۔ صبر کی انتہا دیکھیں کہ مرنے سے پہلے بھی فرمایا:
کاش!
میرے جسم کے ہر بال کے بدلے مجھے رسول اللہﷺ کا ساتھ دینے کی توفیق ملتی۔
حضرت سمیہ، اسلام کی پہلی شہیدہ، جنہوں نے اپنے شوہر یاسر اور بیٹے عمار کے ساتھ کفار کے ظلم و ستم کو برداشت کیا۔
ابوجہل نے ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے، مگر وہ ایمان سے نہ ہٹیں۔ آخر کار شہادت کو قبول کر لیا، مگر ایمان کا سودا نہ کیا۔
یہ تمام ہستیاں ہمیں سکھاتی ہیں کہ آزمائشیں آتی ہیں، ظالم ظلم کرتا ہے، مگر جو صبر کرتا ہے اور حق پر ثابت قدم رہتا ہے، اس کا نام ہمیشہ کے لیے تاریخ میں روشن ہو جاتا ہے۔
صبر ہی تھا جس نے امام حسین کو امیر کر دیا، حضرت بلال کو عزت دی، حضرت خبیب کو شرف بخشا، اور حضرت سمیہ کو دین کی پہلی شہیدہ کا مقام عطا کیا۔ ان کی زندگیاں ہمیں سبق دیتی ہیں کہ صبر کرنے والے کبھی ناکام نہیں ہوتے، بلکہ اللہ رب العزت انہیں دنیا و آخرت میں بلند مقام عطا کرتا ہے۔
ظلم وقتی طور پر طاقت ور لگتا ہے، مگر صبر ایک خاموش انقلاب ہے، جو ظالموں کا تخت الٹ دیتا ہے اور حق کو فتح سے کرتا ہے۔ تاریخ ہمیشہ گواہ رہی ہے کہ جب بھی ظلم کے خلاف صبر و استقامت کی چٹان کھڑی ہوئی، تو ظالم کا انجام خطرناک ہی ہوا ہے۔
لہٰذا، صبر کی طاقت کو کمزور نہ سمجھیں، بلکہ دینِ اسلام، ناموسِ رسالت، اور حق کی سربلندی کے لیے استقامت کے ساتھ کام کرتے رہیں۔ ظلم مٹ جاتا ہے، مگر صابر ہمیشہ کے لیے تاریخ میں زندہ رہتا ہے۔
اللہ رب ہم سب کو دین اسلام کے میدان میں صبر جمیل عطا فرمائے۔
مضمون نگار رضویہ اکیڈمی للبنات ابراہیم پور، ضلع اعظم گڑھ (یوپی) کی فاؤنڈر و صدر المعلمات اور خواتین اصلاح امت ٹیم کی صدر ہیں۔ {alertInfo}
آمین یارب العالمین
جواب دیںحذف کریںما شاء اللہ دل کو اطمینان ہوا پڑھ کر