عنوان: | سفرِ زندگی کی منزل موت ہے |
---|---|
تحریر: | بنت اسلم برکاتی |
انسان کے لیے پانچ عالَم ہیں۔ عالم ارواح، عالم دنیا، عالم برزخ عالم حشر، عالم آخرت۔ انسان کے ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقل ہونے کے اسباب مقرر ہیں۔
عالم ارواح سے دنیا میں آنے کا سبب والدین، عالم دنیا سے عالم برزخ میں جانے کا سبب موت، عالم ارواح سے عالم حشر میں پہنچنے کا سبب صور اسرافیل اور عالم حشر سے عالم آخرت میں منتقل ہونے کا سبب ایمان و کفر ہے۔
ان پانچ میں سے برزخ ایسا عالم ہے جس سے پہلے بھی دو، اور بعد میں بھی دو عالم ہیں۔ یہاں سے اس کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جیسا کہ بیچ والی ہونے کے سبب نمازِ عصر کی اہمیت ہے۔
مرنے کے بعد سے محشر میں اٹھنے تک درمیان کا عرصہ برزخ کہلاتا ہے اور انسان کو اس عالم میں موت ہی پہنچاتی ہے۔
دنیا میں ہر حقیقت کا کسی نہ کسی نے انکار کیا ہے مگر موت ایسی حقیقت ہے جس کا آج تک کوئی انکار نہیں کر سکا، کیوں کہ موت سے کسی طرح چھٹکارا ممکن نہیں۔ سفر چاہے کتنا ہی طویل ہو منزل ایک دن آہی جاتی ہے اور سفر زندگی کی منزل موت ہے۔
یہ کسی کو معاف نہیں کرتی، نہ غریب کی مفلسی پر اسے رحم آتا ہے،نہ امیر کی دولت اسے خرید سکتی ہے۔ اور نہ ہی طاقتور کی طاقت اس کا راستہ روک سکتی ہے۔ بڑے بڑے مال داروں کو، خدائی کے دعوے داروں کو، فرعون، قارون اور شداد جیسے غرور و تکبر کے پہاڑوں کو بھی اس نے تخت نشیں سے خاک نشین کر دیا۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْهُ فَاِنَّهٗ مُلٰقِیْكُمْ (جمعہ: 8)
ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو وہ تو ضرور تمہیں ملنی ہے۔
ایک مقام پر اور ارشاد فرماتا ہے:
اَیْنَ مَا تَكُوْنُوْا یُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَ لَوْ كُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَةٍؕ (نساء: 78)
ترجمہ کنز الایمان: تم جہاں کہیں ہو موت تمہیں آلے گی اگرچہ مضبوط قلعوں میں ہو۔
جس نے زندگی کا لطف اٹھایا اسے موت کا مزہ بھی چکھنا ہے۔ جو یہاں آیا ہے اسے ایک دن یہاں سے کوچ بھی کرنا ہے۔ اور جس نے اس عالم کے رنگ و بو کا نظارہ کیا ہے اُسے موت کا منظر بھی دیکھنا ہے۔
موت ایک جام ہے۔ جسے ہر ذی روح کو پینا ہے۔ اور ایک دروازہ ہے جس سے ہر زندہ کو گزرنا ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ (انبیاء: 35)
ترجمہ کنز الایمان: ہر جان کو موت کا مزہ چکھنا ہے.
موت کسی بھی جگہ، کسی بھی وقت اور کسی بھی حالت میں آ سکتی ہے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ کوئی تدبیر، طریقہ، دوا اور دعا موت سے چھٹکارا نہیں دلا سکتی ہے۔ تو ایک مسلمان کو موت سے ڈر کر بھاگنے کے بجائے ہر وقت اس کے لیے تیار رہنا چاہئے۔
موت کی تیاری یہ ہے کہ بندہ اپنی چند روز زندگی کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے محبوب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتوں کی اتباع میں گزرے۔
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ راضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
منِ ارْتَقَبَ الموتَ ساَرَعَ في الخَيْراتِ۔ (شعب الایمان، حدیث: 10623)
یعنی جو موت کو پیش نظر رکھتا ہے وہ نیک کاموں میں جلدی کرتا ہے۔
ایک بار کسی نے امام احمد رضا خان بریلوی سے عرض کی: ایک مرتبہ آپ کی جانب سے ارشاد عالی ہوا تھا کہ: مرنے کے لئے خوشی سے تیار رہے۔ حضور! جو مجرم یعنی گناہ گار ہے وہ کیسے خوش ہو سکتا ہے؟ تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: گناہ چھوڑ، توبہ کرے اور خوشی سے موت کے لیے تیار رہے، یہ مطلب نہیں کہ گناہ کرتا رہے اور موت کے لیے خوش رہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ (ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص: 370)
اللہ کریم ہمیں موت سے پہلے خوب نیک اعمال کرنے اور کثرت سے اپنی موت کو یاد کرنے کی، اور ایمان و شہادت والی موت عطا فرمائے۔ آمین یارب العالمین
رب کریم ایمان و سکون والی بہتر موت عطا فرمائے
جواب دیںحذف کریں