عنوان: | سوشل میڈیا اور اس کے اثرات |
---|---|
تحریر: | راغب حسین رضوی |
سوشل میڈیا دورِ حاضر کی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں۔ یہ دنیا کو ایک گلوبل ولیج میں تبدیل کر چکا ہے۔ ماضی میں پیغام رسانی کے لیے خط و کتابت اور قاصدوں کا سہارا لیا جاتا تھا، مگر آج ایک کلک پر دنیا کے کسی بھی کونے میں پیغام پہنچایا جا سکتا ہے۔ اس نے فاصلے کم کر دیے ہیں اور روابط کو آسان بنا دیا ہے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے علمی، سماجی، دینی اور تفریحی سرگرمیاں سہولت کے ساتھ انجام دی جا سکتی ہیں، لیکن اس کے فوائد کے ساتھ ساتھ اس کے نقصانات بھی کم نہیں۔ اگر اس کا درست اور مثبت استعمال کیا جائے تو یہ بے حد مفید ثابت ہو سکتا ہے، ورنہ اس کے منفی اثرات سماج اور انسان دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتے ہیں۔
سوشل میڈیا کے کئی مثبت پہلو ہیں۔ سب سے اہم یہ کہ اس نے علم اور آگاہی کے دروازے کھول دیے ہیں۔ آج ہر انسان مختلف علمی موضوعات پر تحقیق کر سکتا ہے اور آن لائن تعلیمی مواد سے استفادہ کر سکتا ہے۔ خاص طور پر دینی علوم کی ترویج کے لیے سوشل میڈیا نہایت مؤثر ثابت ہو رہا ہے۔
علما کرام اپنی تقاریر، دروس اور تحریریں عوام تک پہنچا رہے ہیں، جن کے ذریعے دینِ اسلام کی تعلیمات کو عام کیا جا رہا ہے اگر اس پلیٹ فارم کو حکمت اور بصیرت کے ساتھ استعمال کیا جائے تو یہ تبلیغِ دین کے لیے ایک بہترین ذریعہ بن سکتا ہے۔
سوشل میڈیا سماجی فلاح و بہبودی کے کاموں میں بھی معاون ثابت ہو رہا ہے۔ فلاحی تنظیمیں اور ادارے اپنی سرگرمیاں عام کر کے ضرورت مندوں کی مدد کے لیے عوام کو متحرک کرتے ہیں۔ کسی بیمار کے علاج کے لیے چندہ جمع کرنا ہو یا کسی قدرتی آفت کے متاثرین کی مدد کرنی ہو، سوشل میڈیا ایک مؤثر ذریعہ بن چکا ہے۔
سیاسی اور سماجی شعور کی بیداری میں بھی اس کا کردار اہم ہے۔ آج عوامی مسائل کو اجاگر کرنے، ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنے اور حکومتی پالیسیوں پر نظر رکھنے میں سوشل میڈیا کلیدی کردار ادا کر رہا ہے۔
جہاں سوشل میڈیا کے بے شمار فائدے ہیں، وہیں اس کے کئی منفی اثرات بھی سامنے آئے ہیں۔ سب سے بڑا نقصان وقت کا ضیاع ہے۔ بہت سے لوگ تفریح اور معلومات کے نام پر گھنٹوں تک موبائل اسکرین پر نظریں جمائے رکھتے ہیں اور انہیں اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ اپنا کتنا قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں۔
اگر یہی وقت کسی تعمیری کام میں صرف کیا جائے تو بے شمار مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
دوسرا بڑا نقصان نوجوان نسل پر پڑنے والے اثرات ہیں۔ غیر اخلاقی مواد اور بے ہودہ مشاغل نے نوجوانوں کو بے راہ روی کی طرف مشغول کر رہا ہے وہ نوجوان جو کسی قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں، سوشل میڈیا کے غلط استعمال کی وجہ سے بے مقصد زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
جھوٹی خبریں اور افواہیں بھی ایک سنگین مسئلہ ہیں۔ آج کسی بھی غلط معلومات کو پھیلانا انتہائی آسان ہو چکا ہے بغیر تحقیق کے کسی بھی پوسٹ یا ویڈیو کو شیئر کرنا ایک عام بات بن چکی ہے، جو کئی بار معاشرتی انتشار وانفشار اور بدامنی بدسکونی کا سبب بنتی ہے۔
اسلام تحقیق اور تصدیق کی تاکید کرتا ہے، مگر سوشل میڈیا پر اکثر لوگ بغیر تصدیق و تحقیق کے افواہیں پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا نے خاندانی نظام کو بھی متأثر کیا ہے۔
پہلے زمانے میں لوگ آپس میں بیٹھ کر بات چیت کرتے، ایک دوسرے کے مسائل سنتے اور آپس میں محبت و الفت کے رشتے مضبوط ہوتے، مگر آج ہر فرد اپنے موبائل میں مگن ہے۔ والدین بچوں سے دور ہو چکے ہیں، بہن بھائیوں کے درمیان محبت کم ہو گئی ہے اور خاندان کے افراد کے درمیان حقیقی روابط کمزور پڑ چکے ہیں۔
سوشل میڈیا کا درست استعمال کرنے کے لیے چند اصولوں پر عمل کرنا ضروری ہے غیر ضروری طور پر وقت ضائع کرنے کے بجائے اسے کسی دینی کام میں صرف کیا جائے اخلاقیات اور دینی اقدار کا خیال رکھا جائے اور ہر وہ چیز جو دین اور معاشرتی اقدار کے خلاف ہو، اس سے گریز کیا جائے۔
کسی بھی خبر یا معلومات کو شیئر کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کی جائے تاکہ کسی غلط فہمی یا انتشار کا سبب نہ بنے سوشل میڈیا کو دینی علوم کے فروغ و اشاعت، بحث و مباحثے، اور علمی ترقی کے لیے استعمال کیا جائے اور حقیقی زندگی میں اپنے گھر والوں اور خویش و اقارب کے ساتھ وقت گزارنے کو ترجیح دی جائے۔
اگر ان اصولوں کو اپنا لیا جائے تو سوشل میڈیا بے حد فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ ایک طاقتور ذریعہ ہے جو علم، تبلیغ اور فلاح کے لیے بہترین استعمال کیا جا سکتا ہے، مگر اس کا بے جا اور غیر محتاط استعمال ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔
سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کو فروغ دینا چاہیے اور اس کے منفی اثرات سے خود کو اور اپنے معاشرے کو محفوظ رکھنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سوشل میڈیا کو دین کی خدمت، اصلاحِ معاشرہ اور فلاحِ انسانیت کے لیے استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اس کے منفی اثرات سے بچنے کی ہمت عطا کرے۔ آمین بجاہ سید المرسلین
مضمون نگار جامعۃ الرضا بریلی شریف میں درجہ ثالثہ کے طالب علم ہیں۔ {alertInfo}