✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

علوم حدیث میں اعلیٰ حضرت کا مقام و مرتبہ

عنوان: علوم حدیث میں اعلیٰ حضرت کا مقام و مرتبہ
تحریر: عمران رضا عطاری مدنی بنارسی

نہایت افسوس کی بات ہے کہ علم حدیث کے دو حرف پڑھ کر کچھ نا فہم اور عقل سے پیدل لوگ امام اہل سنت کے علم حدیث پر انگشت نمائی کرتے نظر آرہے ہیں، حکم حدیث میں البانی، ابن باز وغیرہ کی تقلید جامد کرنے والے محض ان کے حکم پر اندھا اعتماد کرکے امام اہل سنت کے فتاوی رضویہ میں موجود احادیث پر کلام کررہے ہیں۔

وہ حدیث جو محققین محدثین کے نزدیک صحیح، حسن یا زیادہ سے زیادہ ضعیف قرار پاتی ہے، کسی ایک محدث نے اس کو موضوع کہہ دیا تو اس سے حدیث کا موضوع ہونا کب لازم آگیا؟

پہلے تو اس حدیث پر تحقیق کریں گے، متقدمین ائمہ نے جو حکم لگایا ہے اسے دیکھیں گے، ورنہ، ذرا امام ابن جوزی رحمۃ اللہ علیہ کی تحقیقات کو دیکھ لیں! کتنی ہی صحیح اور حسن احادیث کو انھوں نے موضوع قرار دے دیا۔

فقط ان کی کتب پر اعتماد کرکے دیگر محققین کے اقوال کو نظر انداز کردیں تو پھر امام اہل سنت رحمۃ اللہ علیہ کیا حافظ ابن حجر عسقلانی، حافظ شمس الدین سخاوی، حافظ جلال الدین سیوطی رحمہم اللہ کی کتب میں بھی کئی موضوعات نظر آئیں گے۔

اور اگر جناب البانی صاحب کی فاسد تحکیمِ حدیث کو دیکھیں اور اس پر اعتماد کرلیا جائے تو پھر امان ہی اٹھ جائے، جناب نے کتنی ہی صحیح احادیث کو ضعیف و منکر قرار دے دیا۔

بلکہ ایک حدیث کو چند صفحات قبل صحیح قرار دیا، بعدہ ضعیف یا موضوع تک کہہ ڈالا۔ ان کے مختلف احکام کے رد پر باقاعدہ علما نے کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان کتب میں تفصیل دیکھی جاسکتی ہے۔

رہی بات فتاویٰ رضویہ میں ضعیف احادیث کی! تو اس پر نقد کرنا خود اپنی کم علمی، نااہلی کی واضح دلیل ہے، جب محدثین نے فضائل اور ترغیب و ترہیب کے باب میں احادیث ضعاف کو قبول کیا تو اس پر جرح کرناچہ معنیٰ دارد۔

متقدمین سے متأخرین تک محدثین کا اتفاق ہے کہ باب عقائد اور احکام کے علاوہ ضعاف مقبول ہیں، اب امام نے فضائل وغیرہ میں ان کو درج کیا تو کیا بُرا کیا، ذرا اپنے گھر کی خبر لیں! ورنہ ہمیں بھی لکھنا اور بولنا آتا ہے۔

اور ہاں اگر آپ کا مطالعہ بہت محدود ہے، محدثین کے اس اتفاق کا علم نہیں تو ذرا، ان کتب پر نظر دوڑالیں!

الجامع لاخلاق الراوی و آداب السامع، الکفایہ فی علم روایہ،جامع بیان العلم و بیانہ، دلائل النبوۃ، مقدمہ علوم الحدیث وغیرہ۔

بہر حال! امام اہل سنت کے علم حدیث پر تبصرہ کرنے والوں کو چاہیے کہ پہلے علم حدیث سیکھیں، سمجھیں، پڑھیں، پڑھائیں، جب دو حرف آنے لگیں گے خود ہی معلوم ہو جائے گا کہ امام اہل سنت حدیث میں کس مرتبہ پر فائز تھے، چند ایک نظائز ملاحظہ فرمائیں!

مولانا وصی احمد محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ جن کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے 40 سال تک بخاری شریف کا درس دیا اور جن کو بخاری شریف زبانی یاد تھی اور وقت کے بڑے محدّث تھے۔

ان سے سوال کیا گیا کہ حدیث میں امام احمد رضا کا کیا مرتبہ ہے تو آپ نے ارشاد فرمایا: وہ اس وقت امیر المؤمنین فی الحدیث ہیں پھر فرمایا: صاحبزادے! اس کا مطلب سمجھا؟ یعنی اگر اس فن میں عمر بھر ان کا تلمّذ کروں تو بھی ان کے پاسنگ کو نہ پہونچوں، آپ نے کہا: سچ ہے۔ (جامع الأحاديث، مقدمہ، جلد: 1، صفحہ: 407)

امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اللہ علیہ سے ایک مرتبہ سوال ہوا کہ آپ نے حدیث شریف کی کون کون سی کتابیں پڑھی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:

مسند امام اعظم، مؤطا امام محمد، کتاب الآثار، کتاب الخراج، کتاب الحج، شرح معانی الآثار، مؤطا امام مالک، مسند امام شافعی، مسند امام احمد، سنن دارمی، بخاری، مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، نسائی، منتہی الجارود، علل متناہیہ، مشکاۃ، جامع کبیر، جامع صغیر، منتقی ابن تیمیہ ، بلوغ المرام، عمل الیوم واللیلہ،الترغیب والترہیب، خصائص کبری، الفرج بعد الشدۃ،کتاب الاسماء و الصفات، وغیرھم

پچاس سے زائد کتب حدیث میرے درس و تدریس اور مطالعہ میں رہیں۔

امام احمد رضا رحمۃ اللہ علیہ نے چند کتب شمار فرما کر پچاس سے زائد کی بات اجمالاً ذکر کر دی، یعنی آگے شمار کرنے کے لئے میری تصانیف کا مطالعہ کرو تو واضح ہو جائے گا کہ میں نے علم حدیث میں کن کن کتابوں کو پڑھا اور پڑھایا ہے۔

محترم قارئین! یہ بات کہنا آسان ہے۔ اس کی دشواریاں وہی سمجھ سکتا ہے جس نے کسی حدیث کی کتاب کا مکمل مطالعہ کیا ہوگا۔ مذکورہ کتب میں کئی ایسی کتابیں ہیں جو کئی کئی جلدوں پر مشتمل ہیں، اگر ہم مزید گہرائی میں جائیں اور پتا کریں کہ امیر المؤمنین فی الحدیث اعلی حضرت نے اپنی کتب میں احادیث کی کتنی کتابوں کا حوالہ دیا تو سنیں!

محدث دیار ھندیہ علامہ مفتی حنیف خان رضوی صاحب ارشاد فرماتے ہیں: اس سلسلہ میں جب راقم الحروف نے تلاش و جستجو شروع کی تو اب تک امام احمد رضا کی ساڑھے تین سو کتب و رسائل میں تقریباً چار سو ،کتابوں کے حوالے احادیث مبارکہ کے تعلق سے ملے۔ (جامع الأحاديث، مقدمہ، جلد: 1، صفحہ :409)

علوم حدیث پر تحقیقات:

اعلی حضرت علیہ الرحمہ کی علوم حدیث میں کمال دسترس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ آپ نے علم حدیث، اصول حدیث، شروح حدیث، متون حدیث پر کئی کئی تصانیف فرماکر امت پر احسان عظیم فرمایا۔

نام درج ذیل ہیں:

منیر العین فی تقبییل الابھامین، الھاد الکاف فی حکم الضعاف، مدارج طبقات الحدیث، الفضل الموھبی معنی اذا صح الحدیث فھو مذھبی، افاداتِ رضویہ فی اصول الحدیث، شرح نخبۃ الفکر، حاشیہ فتح المغيث، النجم الثواقب فی تخریج احادیث الکواکب، البحث الباحص، حاشیہ نصب الرایہ، الروض البھیج حاشیہ تقریب التھذیب، حاشیہ تھذیب التھذیب، حاشیہ تھذیب الکمال، حاشیہ میزان الاعتدال، حاشیہ تذكرة الحفاظ، حاشیہ الاصابہ، وغیرھم۔

کتب تو علوم حدیث میں ہے۔

اس کے علاوہ مفتی عبد المبین نعمانی حفظہ الله نے 35 سے زیادہ کتبِ احادیث کا نام گنایا ہے، جن پر اعلی حضرت علیہ الرحمہ نے حواشی و تعلیقات لکھی ہیں، چند کتب کے نام ملاحظہ فرمائیں:

حاشیہ صحیح بخاری ،حاشیہ جامع ترمذی، حاشیہ سنن نسائی، حاشیہ سنن ابن ماجہ حاشیہ تیسیر شرح جامع صغیر، حاشیہ مسند امام اعظم، حاشیہ کتاب الحج،حاشیہ کتاب الآثار، حاشیہ مسند امام احمد بن حنبل، حاشیہ شرح معانی الآثار للطحاوی، حاشیه سنن دارمی، حاشیہ الخصائص الکبری للسیوطی، حاشیہ کنز العمال، حاشیہ الترغیب والترہیب، حاشیہ القول البدیع، حاشیه المقاصد الحسنہ، حاشیہ عمدة القاری شرح بخاری، حاشیه فتح الباری شرح بخاری، حاشیه ارشاد الساری شرح بخاری، حاشیه جمع الوسائل فی شرح الشمائل، حاشیه فیض القدیر شرح جامع صغیر، حاشیه مرقاة المفاتیح شرح مشکوۃ المصابيح، حاشیه التعقبات على الموضوعات، حاشیہ اشعۃ اللمعات شرح مشکوة۔

اسےکے علاوہ کئی کتبِ احادیث پر سیدی اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے کام کیا ہے۔

محدث اعظم کچھوچھوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اعلیٰ حضرت کے علم حدیث کا اندازہ اس سے کیجئے کہ جتنی حدیثیں فقہ حنفی کی ماخذ ہیں ہر وقت پیش نظر، اور جن حدیثوں سے فقہ حنفی پر بظاہر زد پڑتی ہے، اس کی روایت و درایت کی خامیاں ہر وقت ازبر۔ علم حدیث میں سب سے نازک شعبہ علم اسماء الرجال کا ہے۔

اعلی حضرت کے سامنے کوئی سند پڑھی جاتی اور راویوں کے بارے میں دریافت کیا جاتا تو ہر راوی کی جرح و تعدیل کے جو الفاظ فرما دیتے، اٹھا کر دیکھا جاتا تو تقریب و تہذیب اور تذہیب میں وہی لفظ مل جاتے۔

اس کو کہتے ہیں علم راسخ اور علم سے شغف کامل اور علمی مطالعہ کی وسعت، حفظ حدیث اور علم حدیث میں مہارت تامہ کا مشاہدہ کرنا ہے تو آپ کی تصانیف کا مطالعہ کر کے اس کا اندازہ ہر ذی علم کر سکتا ہے۔

ورق ورق پر احادیث و آثار کی تابشیں نجوم و کواکب کی طرح درخشندہ وتابندہ ہیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں