عنوان: | عمر چھوٹی تجربہ پچاس سال کا! |
---|---|
تحریر: | عائشہ رضا عطاریہ |
ساس اور بہو کا رشتہ خاندانی نظام کا ایک اہم ستون ہے۔ یہ رشتہ محض دو خواتین کے درمیان نہیں، بلکہ دو نسلوں، دو رویوں، اور دو مختلف ذہنوں کے درمیان ہوتا ہے۔
اس رشتے میں عمر، تجربہ، روایات، اور وقت کے تقاضے آپس میں گُتھم گُتھا ہو جاتے ہیں۔ ساس ایک ماں، تجربہ کار خاتون، اور خاندان کی سربراہ ہوتی ہے، جبکہ بہو ایک نئی شادی شدہ لڑکی ہوتی ہے جو نئے ماحول میں قدم رکھتی ہے۔ دونوں کے درمیان توقعات اور ذمہ داریوں کا فرق اکثر اختلافات اور کھچاؤ کا باعث بنتا ہے۔
ساس اپنی زندگی کے تجربات کی بنیاد پر ایک مضبوط کردار ادا کرتی ہے۔ وہ اپنی بہو سے بھی یہی توقع رکھتی ہے کہ وہ کم عمری کے باوجود ویسی ہی عقل و فہم، حکمت و تدبر، اور سمجھداری کا مظاہرہ کرے جیسا کہ ساس خود پچاس سال کی عمر میں کر رہی ہوتی ہے۔
یہی وہ مقام ہے جہاں اختلافات جنم لیتے ہیں۔ بہو خود کو الجھن میں محسوس کرتی ہے کیونکہ اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ فوراً ایک پختہ کار، سمجھدار، اور تجربہ کار خاتون بن جائے۔
جب ایک لڑکی بہو بن کر نئے گھر میں آتی ہے، تو وہ محبت، عزت، اور اپنائیت کی امید لیے آتی ہے۔ لیکن جیسے ہی اس پر ذمہ داریوں کا بوجھ ڈالا جاتا ہے، وہ الجھن کا شکار ہو جاتی ہے۔ ایک لمحے میں وہ بیٹی ہوتی ہے، اور دوسرے لمحے بہو۔
ایک لمحے میں وہ لاڈ و پیار میں پلی بڑھی ہوتی ہے، اور اگلے ہی لمحے اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بردباری، تجربہ، اور عقل مندی کا ایسا مظاہرہ کرے جو پچاس سالہ خاتون کرتی ہے۔
یہ سوال بہو کے دل میں بار بار اٹھتا ہے کہ آخر وہ کیسے اتنی جلدی وہ تجربہ حاصل کر سکتی ہے جو ساس نے وقت کی ٹھوکریں کھا کر، زندگی کے سخت سبق سیکھ کر، اور برسوں کے مشاہدے سے حاصل کیا ہے۔ کیا کسی کتاب کے چند صفحات پلٹ کر کوئی دانشمند بن سکتا ہے؟ کیا چند مہینوں میں کوئی زندگی کی باریکیوں کو سمجھ سکتا ہے؟ کیا کوئی ناتجربہ کار شخص فوراً عقل و فہم میں پختہ ہو سکتا ہے؟ یقیناً نہیں!
ہمارے معاشرے میں بہو سے کچھ ایسی توقعات وابستہ کی جاتی ہیں جو غیر حقیقی ہوتی ہیں۔ مثلاً:
یہ سب توقعات بہو کے لیے دباؤ، پریشانی، اور الجھن کا باعث بنتی ہیں۔ وہ خود کو ساس کی توقعات پر پورا نہ اتار سکنے کی وجہ سے ناکام محسوس کرنے لگتی ہے۔ یہ دباؤ اکثر رشتے میں تلخی اور دوری پیدا کر دیتا ہے، اور یوں ایک ایسا رشتہ جو محبت، سمجھ بوجھ، اور تعاون کا متقاضی ہوتا ہے، غلط فہمیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔
اگر ساس اپنی بہو کو ایک طالب علم سمجھے اور خود کو ایک استاد، تو یہ رشتہ بہت آسان ہو سکتا ہے۔ ایک اچھا استاد اپنے شاگرد پر سختی کرنے کے بجائے اس کی رہنمائی کرتا ہے، اس کی غلطیوں کو نرمی سے سدھارتا ہے، اور اسے بہتر بننے کا موقع دیتا ہے۔
ساس کو یاد رکھنا چاہیے کہ جب وہ خود بہو بن کر آئی تھی، تو وہ بھی ناتجربہ کار تھی۔ اسے بھی وقت لگا تھا سمجھنے اور سنبھلنے میں۔ اگر وہ اس بات کو یاد رکھے تو وہ بہو سے غیر حقیقی توقعات وابستہ نہیں کرے گی بلکہ اسے وہ سپورٹ دے گی جس کی اسے ضرورت ہے۔
ساس اگر بہو پر نکتہ چینی کرنے کے بجائے اس کی رہنمائی کرے، اسے اعتماد دے، اور اپنی زندگی کے تجربات کو محبت کے ساتھ اس تک منتقل کرے، تو نہ صرف بہو جلدی سیکھے گی بلکہ یہ رشتہ محبت اور عزت کی بنیادوں پر مضبوط ہو جائے گا۔
بہو کو بھی چاہیے کہ وہ ساس کی نصیحتوں کو تجربے کی روشنی میں سمجھے اور خود کو بہتر بنانے کی کوشش کرے۔ اسے صبر اور سیکھنے کے عمل کو اپنانا چاہیے۔ زندگی کا تجربہ وقت کے ساتھ آتا ہے، نہ کہ زبردستی مسلط کرنے سے۔
ساس اور بہو کا رشتہ اگر محبت اور سمجھ بوجھ پر مبنی ہو، تو یہ کسی بھی عورت کے لیے آسان اور خوشگوار بن سکتا ہے۔ بہو کو وقت دینا، اس کی غلطیوں کو درگزر کرنا، اسے سیکھنے کا موقع دینا، اور اس کی حوصلہ افزائی کرنا ۔ہر وقت اس کے ساتھ پیار ومحبت کا برتاؤ کرنا ۔یہ وہ عوامل ہیں جو اس رشتے کو مضبوط کر سکتے ہیں۔
ساس اور بہو کو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کی حریف نہیں بلکہ ایک ہی خاندان کی دو اہم خواتین ہیں۔ اگر ساس بہو کو اپنی بیٹی کی طرح سمجھے، اور بہو ساس کو اپنی ماں کی طرح عزت دے، تو یہ رشتہ محبت کا خوبصورت نمونہ بن سکتا ہے۔
زندگی کا تجربہ وقت کے ساتھ آتا ہے، نہ کہ زبردستی مسلط کرنے سے۔ ساس اور بہو کے رشتے میں محبت، صبر، اور سمجھوتے کی جتنی اہمیت ہے، اتنی ہی اہمیت وقت اور سیکھنے کے عمل کی بھی ہے۔
اگر ساس اپنی بہو کو وقت دے، اس کی غلطیوں کو درگزر کرے، اور اسے محبت سے سکھانے کی کوشش کرے تو یہ رشتہ ایک حسین مثال بن سکتا ہے۔
قارئین! ساس اور بہو کا رشتہ محبت، صبر، اور سمجھداری سے ہی مضبوط ہو سکتا ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے کی ضروریات اور حدود کو سمجھنا چاہیے تاکہ یہ رشتہ خوشگوار اور پائیدار بن سکے۔
اگر دونوں طرف سے تھوڑی سی سمجھداری، صبر اور محبت کا مظاہرہ کیا جائے، تو ایک دن ضرور آئے گا جب بہو بھی وہی دانائی، سمجھداری اور تجربہ حاصل کر لے گی جو تجربہ ساس کو پچاس سال میں حاصل ہوا ۔ بس اسے وقت اور محبت کی ضرورت ہے۔
سچ فرمایا
جواب دیںحذف کریںاکثر گھرانے کا یہی المیہ ہے