عنوان: | انھیں دیکھنے کی جو لو لگی ۔۔۔ |
---|---|
تحریر: | مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا |
جنہیں اب گردش افلاک پیدا کر نہیں سکتی کچھ ایسی ہستیاں بھی دفن ہیں گور غریباں میں
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئقَةُ الْمَوْتِ
ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ تسلیم و انقیاد اور رضا بالقضا کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں، یہ دنیا فنا کے داغ سے داغدار ہے۔ انسان دنیا میں جتنی لمبی زندگی گزار لے، بالآخر ایک دن اسے راہیٔ عدم ہونا ہے۔
اجلِ مسمّی کا ہاتھ انسانیت کے دسترخوان سے قیمتی دانوں کو بتدریج اٹھاتا جا رہا ہے اور اب انسانیت کے ڈھیر میں خال خال شخصیتیں ایسی نظر آتی ہیں جو انسانیت کے اخلاقی جوہر کی امین ہوں اور جن کے سیرت و کردار کو دیکھ کر انسانی سیرت کی نوک پلک درست کی جائے۔
نظامِ ایزدی کے مطابق ایک دن میں ہزاروں لوگ پیدا ہوتے ہیں اور ہزاروں لوگ کوچ کر جاتے ہیں، مگر چنیدہ نفوس ہی ایسے ہوتے ہیں جو اپنی ذات میں انجمن، ایک محفل اور ایک ادارہ کی حیثیت رکھتے ہیں، بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ایسے نفوس اپنی ذات میں علم و عمل کا ایک جہان اور اخلاق و رشد کی ایک دنیا بسائے ہوئے ہوتے ہیں اور ایسے نفوس کے اٹھ جانے سے محض ایک فرد کی کمی نہیں ہوتی بلکہ پوری سبھا اجڑ جاتی ہے۔
ایسے افراد کی رحلت سیکڑوں، ہزاروں، بلکہ بعض اوقات لاکھوں انسانوں کے دنیا سے چلے جانے سے زیادہ باعثِ ضیاع و زیاں ہوتی ہے۔ چمکتا آفتاب کسی ایک کی ملکیت نہیں ہوتا، غروبِ شمس کا خسارہ فردِ واحد کا خسارہ نہیں ہوتا، بلکہ یہ چنیدہ نفوس پوری قوم کا سرمایہ و اثاثہ ہوتے ہیں۔
اُنہیں چنیدہ نفوس میں سے ایک عظیم الشان علمی شخصیت میری استانی (محترمہ مرحومہ نور عائشہ ضیائیہ) صاحبہ تھیں جن کی وفاتِ حسرت آیات کی المناک اور دلسوز و جاں گداز خبر نے دل کی دنیا پر بجلی گرا دی، جن کے حادثۂ ارتحال سے عقل و حواس سرد پڑ گئے، دل نے بے قراری سے بے خودی کی راہ اختیار کر لی، ایسی کیفیت پیدا ہوئی جو لبِ اظہار تک نہیں آسکتی۔
مرا رونا نہیں، رونا ہے یہ سارے گلستاں کا
آپ کی رحلت سانحۂ عظیم ہے اور یقینا موتُ العالم موتُ العالم کی مصداق ہے۔
اللہ رب العزت نے آپ کو غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ گوناگوں صفات کی مالک تھیں، کلیۃ البنات الامجدیہ کی فیض یافتہ اور اس مادرِ علمی کے فکر و مسلک کی ترجمان تھیں، کوہِ وقار و تمکنت، پیکرِ حلم و رزانت، مجسمۂ خمول و تواضع، اور صلاح و تقویٰ میں یگانۂ روزگار تھیں۔
آپ کا طرزِ بیان، اندازِ فکر، ندرتِ خیال، دلنشیں گفتار، سبک و نرم رفتار، جرأت و ہمت، سادگیٔ طبع بلاشبہ فی زمانہ اپنی مثال آپ تھیں۔ آپ نے نوری کرنوں کو ہر سو بکھیرا۔ آپ مایۂ ناز شخصیت کی حامل تھیں۔ آپ کی ذات خلوص و للّٰہیت کے رنگ میں رنگی ہوئی، عجز و خاکساری، وسیع القلبی و اعلیٰ ظرفی کی آئینہ دار تھی۔
تبحرِ علمی بے مثال تھا۔ سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ جو کام بھی شروع کیا، مستقل مزاجی کے ساتھ کیا اور عزیمت پر عمل کیا۔ تدریسی خدمات انجام دینے میں وہ کارنامے انجام دیے جو نئی نسل کے لیے مشعلِ راہ اور قابلِ تقلید نمونے ہیں۔ آپ کی تعلیمات کا یہ قوس و قزحی نمونہ تاقیامت بالخصوص آپ کی شاگرداؤں کے مشامِ جاں کو معطر کرتا رہے گا۔
اللہ رب العزت نے آپ کو جن صلاحیتوں سے نوازا تھا اس سطح کی دینی و علمی شخصیت کمیاب ہے۔ بلاشبہ آپ دین کا شمعِ فروزاں تھیں جن سے بے شمار دینی مشعلیں روشن ہوئیں۔
آپ کی شخصیت ہمہ گیر تھی اور آپ کی وفات سے وہ عظیم خلا پیدا ہوگیا ہے جس کے پُر ہونے کی امید کوسوں دور ہے۔ ایسے عظیم انفاس کے نقوش کے لیے بے شک انسانیت کو ایک عرصۂ طویل بلکہ صدیوں کی مسافت طے کرنا پڑے گی۔
کئی دماغوں کا ایک انساں میں سوچتی ہوں کہاں گیا ہے اتر گئے منزلوں کے چہرے امیر کیا؟ کارواں گیا ہے
جس طرح حیاتِ ظاہری میں آپ نے اپنے علومِ بے بہا سے مجھ ناکارہ کو فیض یاب کیا، امیدِ قوی ہے آپ کے روحانی فیض کی بارشیں سدا مجھ ناچیز پر برستی رہیں گی اور آپ کی روح کے قرب کی پاکیزہ خوشبو ہمیشہ میرے تپتے دل کی لَو دیتی رگوں میں برفیلی لمس کی شبنم انڈیلتی محسوس ہوگی۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
اُن لمحوں کا عکس میرے ذہن پر نقش ہے جب بسلسلۂ تدریس چھ ماہ آپ کی مصاحبت کے بعد میں نے گھر آنے کا عزم مصمم کیا اور رخت سفر باندھا، جب ملاقاتِ آخری کے لیے آپ کے سامنے آئی تو اشکوں کا سیل رواں جاری ہوگیا مانو ضبط کی حدیں بھول چکا تھا۔
میں انگلیوں سے اشکوں کو صاف کرتی رہی اور خشک لبوں پر بے ترتیب تبسم سجا کر آپ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا: آنسوں ہیں کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہے گویا کہنا چاہتے ہوں کہ_____!
لاکھ تم ضبط کرو میں تو ٹپک ہی جاؤں
شاید میرے اشکوں کو معلوم ہو گیا تھا کہ یہ ملاقات آخری ہے شاید ان آنکھوں نے جان لیا تھا کہ اب اس رخ زیبا کا دیدار کبھی میسر نہ ہوگا۔
کل اس کی آنکھ نے کیا زندہ گفتگو کی تھی گمان تک نہ ہوا وہ بچھڑنے والا ہے
اب تو فقط خامۂ شکستہ کے شہ رگ سے ٹپکتے ہوئے لہو کے بے ترتیب قطروں میں ہی آپ کا دُھندلا سا عکس نظر آسکتا ہے مگر یہ آنکھیں ہمیشہ آپ کی تمنائی رہیں گی۔
اُنھیں دیکھنے کی جو لو لگی تو نصیر دیکھ ہی لیں گے ہم وہ ہزار آنکھ سے دور ہوں وہ ہزار پردہ نشیں سہی سرِ طور ہو سرِ حشر ہو ہمیں انتظار قبول ہے وہ کبھی ملیں وہ کہیں ملیں وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی
آپ نے اپنی زندگی کو خدمتِ علومِ دین کے لیے وقف کر دیا تھا اور خاموشی کے ساتھ شب و روز تدریسِ علومِ دین میں مشغول رہیں کہ پھر آپ نے کسی دنیاوی غرض کے لیے کہیں کا رخ نہیں کیا، یہاں تک کہ علالت نے صاحبِ فراش بنا دیا۔
آپ دو سال بسترِ علالت پر رہیں۔ اس دور میں صبر و شکر و رضا بالقضا کے جو منازل طے کیے وہ لائقِ صد رشک ہیں۔
ایں سعادت بزورِ بازو نیست تا نہ بخشش خدائے بخشندہ
بالآخر 30 مئی بروز پنج شنبہ بوقتِ صبح تقریباً ساڑھے سات بجے اس خادمۂ علمِ دین، باغیرت و حمیت شخصیت نے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی۔
إِنَّ لِلَّهِ مَا أَخَذَ وَلَهُ مَا أَعْطَى وَكُلُّ شَيْءٍ عِنْدَهُ بِأَجَلٍ مُسَمًّى فَلْتَصْبِرْ وَلْتَحْتَسِبْ۔
افسوس! کہ اس نازک دور میں جب کہ امت کو ایسی علمی شخصیت کی بے حد ضرورت تھی، اس نعمت کا چھن جانا ایک بڑی مصیبت اور سانحۂ فاجعہ ہے۔
فما کان قیس ھلکہ ھلک واحد و لکنہ بنیان قوم تھدمھا
ذوق و وجدان، بصیرت و عرفان، علم و عمل، ورع و تقوی کی پیکر، ظرافت و شگفتگی کی مظہر اپنی باوقار شخصیت کے ساتھ اپنے احباب و اقرباء و مخلصین سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئیں۔
دعا ہے کہ اس پیکرصدق و وفا، سراپائے وقارو تمکنت کی روح پاکیزہ ابر رحمت کے فیض قدسی سے ہمیشہ سرشار و شاداب رہے اور ان کی لحد آفتاب کرم کی ضوفشانی سے ہمیشہ بقعۂ نور بنی رہے اور ان کا چہرۂ نورانی سراپا نور ہو۔آمین
موت التقی حیاۃ لا انقطاع لھا کم مات قوم و ھم فی الناس احیاء
جی چاہتا ہے کہ بہت کچھ لکھوں مگر۔۔ دامان نگہ تنگ و گل حسن تو بسیار
لہذا انہیں چند سطروں پر اکتفا کرتی ہوں۔
اللھم اغفرلھا وارحمھا، وعافھا واعف عنھا، واکرم نزلھا، ووسع مدخلھا، واغسلھا بالمآء والثلج والبرد، ونقھا من الذنوب والخطایا کما ینقی الثوب الابیض من الدنس، اللھم وانزل علی قبورھا ضیاء والنور، والفسحۃ والسرور حتی تکون فی قبورھا من المطمئنین، والی اعلی جنتک سابقین، یا ارحم الراحمین۔۔۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔
رب کریم مغفرت فرمائے آمین
جواب دیںحذف کریں