✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

وہ جو نہ تھے تو کچھ نا تھا

عنوان: وہ جو نہ تھے تو کچھ نا تھا
تحریر: بنت اسلم برکاتی

انسان کی تخلیق کا بنیادی مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت و اطاعت کرنا ہے۔ دنیا کی رونق اور نفس و شیطان کے دھوکے سے یہ مقصد انسان سے دور ہو جاتا ہے۔ اس مقصد کو یاد دلانے اور انسان کو سیدھی راہ پر چلانے کے لیے رب العالمین نے انبیاء کرام علیہم السلام بھیجے۔

انبیاء کرام انسان کو اس کے مقصد حقیقی کی پہچان کرواتے اور رہنمائی فرماتے ہیں۔ یہ انبیاء کرام مختلف زمانوں میں مخصوص قوموں اور ملکوں کی طرف بھیجے گئے۔ سب سے آخر میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا و مولیٰ حضور تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام کائنات کی طرف قیامت تک کے لئے نبی و رسول بنا کر بھیجا۔

رب تبارک و تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے مالا مال فرمایا۔ اس کی کن کن نعمتوں کا تذکرہ کیا جائے، آپ جدھر نگاہ اٹھا کر دیکھیں اسی کی نعمتوں کا جلوہ نظر آئے گا۔ انسانوں کی کیا مجال کی اس کی نعمتوں کا شمار کر سکے۔

اللہ تعالیٰ کا کرم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کو ان گنت نعمتوں سے نوازا مگر کسی نعمت پر احسان نہیں جتلایا۔

مگر جب بات آئی مدینے کے تاجدار کی تو پروردگار عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِم رَسُوْلًا (آل عمران: 164)

ترجمہ کنزالایمان: بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔

مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عظیم احسان فرمایا کہ اپنا سب سے عظیم رسول عطا فرمایا۔ کیسا عظیم رسول عطا فرمایا کہ اپنی ولادت مبارکہ سے لے کر وصال مبارک تک اور اس کے بعد کے تمام زمانہ میں اپنی امت پر مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہا رہے ہیں، بلکہ ہمارا تو وجود بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے سے ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تو کائنات اور اس میں بسنے والے بھی وجود میں نہ آتے۔

اعلیٰ حضرت کیا خوب فرماتے ہیں:

وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہو تو کچھ نہ ہو

جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے

قیامت کے دن سخت گرمی کے عالم میں شدید پیاس کے وقت رب قہار عز و جل کی بارگاہ میں ہمارے لیے سر سجدے میں رکھیں گے اور امت کی بخشش کی درخواست کریں گے۔ کہیں امتیوں کے نیکیوں کے پلڑے بھاری کریں گے، کہیں پل صراط سے سلامتی سے گزاریں گے، کہیں حوض کوثر سے سیراب کریں گے، خود غمگین ہوں گے ہمیں خوشیاں عطا فرمائیں گے، اپنے نورانی آنسوؤں سے امت کے گناہ دھوئیں گے اللہ اللہ۔

اس منظر کو حضور اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ نے یوں بیان فرمایا ہے:

پیش حق مزدہ شفاعت کا سناتے جائیں گے

آپ روتے جائیں گے ہم کو ہنساتے جائیں گے

رب تبارک و تعالیٰ کے آخری نبی حضور صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ انسانی کے سب سے جامع و اکمل انسان ہیں۔ اعلیٰ انسانیت کے تمام پہلو آپ ﷺ کے حیات طیبہ میں اپنے تمام تر کمال کے ساتھ جمع ہیں۔

آپ ﷺ نبی و رسول ہونے کے ساتھ ساتھ داعی، مصلح، مدبر، خطیب، مربی، استاد، قائد، مرشد ہیں۔ الغرض! زندگی اور معاشرے کے ہر پہلو کے اعتبار سے رہنما ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی حیات طیبہ میں انسانیت کے ہر پہلو کے اعتبار سے مکمل رہنمائی موجود ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ (سورہ القلم: 4)

ترجمہ کنزالایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔

آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال‏:‏ ”إنما بعثت لاتمم صالح الاخلاق‏.‏ (الأدب المفرد:273)

ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے ہی مبعوث کیا گیا۔

امیر المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، آپ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کریمہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے جواب میں فرمایا:

كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ (مسند أحمد:24601)

ترجمہ: قرآن ہی آپ کا اخلاق ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ستودہ کی وہ شان ہے کہ آپ کے مقام حقیقت کو رب کے سوا کوئی نہیں پہچان سکتا! جب حضور تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت ذات بے مثل و مثال ہے، تو آپ کے تمام اوصاف جمیلہ بھی بے مثل و مثال ہیں اور انہیں اوصاف میں آپ کے اخلاق کریمہ ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کی برابری کا دعویٰ کرنے والا نہ کوئی آج تک پیدا ہوا ہے اور نہ کبھی ہوگا۔

امام عشق و محبت بارگاہ رسالت ﷺ میں عرض کرتے ہیں:

تیرے خُلق کو رب نے عظیم کہا

تیری خَلق کو حق نے جمیل کیا

کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا

تیرے خالق حسن و ادا کی قسم

آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ سے متعلق ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں:

حضور تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کی سازش سے خیبر کے مقام میں بکری کی زہر آلود ران دینے والی یہودیہ زینب بنت حارث کو اور آپ ﷺ کو ضرر و نقصان پہنچانے کے فاسد ارادے سے آپ ﷺ پر جادو کرنے والے یہودی لبید بن الاعصم کو آپ ﷺ نے معاف فرما دیا۔ (مدرج النبوۃ، جلد: 1، ص:74)

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ہر لمحہ نوع انسان کے لئے اسوہ حسنہ ہے۔

رب العالمین قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ (سورۃ الاحزاب: 21)

ترجمہ کنزالایمان: بیشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے۔

اس آیت مبارکہ کا خلاصہ یہ ہے کہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ میں پیروی کے لیے بہترین طریقہ موجود ہے، جس کا حق یہ ہے کہ اس کی اقتدا اور پیروی کی جائے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر عمل پیرا ہونے کو اپنی زندگی کا اولین مقصد بنایا ہوا تھا اور ان کے نزدیک تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، افعال اور احوال کی پیروی کرنے سے زیادہ محبوب اور پسندیدہ چیز کوئی نہ تھی۔

اسی کے متعلق دو واقعہ ملاحظہ فرمائیں:

(1)۔۔۔ حضرت سیدنا نافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما حضور تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار شریفہ کو ہر جگہ سے تلاش کیا کرتے، اور وہاں نمازیں پڑھا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ حضور تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم جس درخت کے نیچے بیٹھے ہوتے، ان درختوں کو بھی یاد رکھتے اور ان درختوں کو پانی دیا کرتے تھے کہ کہیں یہ درخت خشک نہ ہو جائیں۔ (یہ امت بزدل نہیں ہے، ص: 201)

(2)۔۔۔ حضرت حمدان بن آبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، آپ نے پانی منگوا کر وضو کیا اور جب وضو کر کے فارغ ہوئے تو مسکرائے اور فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ میں کیوں مسکرایا؟ پھر (خود ہی جواب دیتے ہوئے) فرمایا جس طرح میں نے وضو کیا اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا تھا اور اس کے بعد مسکرائے تھے۔ (تفسیر صراط الجنان، ج: 7، ص: 587)

محبوب رب العالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں سرشار ہو کر انہوں نے دنیا کی کسی بھی چیز کی پرواہ نہیں کی۔ اپنے آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم پر مر مٹنے میں ہی انہوں نے اپنی حیات جانی۔

انوکھی وضع ہے، سارے زمانے سے نرالے ہیں

یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں

تاریخ گواہ ہے کہ جب تک مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر عمل پیرا رہے، تب تک دنیا میں حکومت کرتے رہے، ان کا سکہ چلتا رہا۔ ان کا رعب و دبدبہ ہی ایسا تھا کہ صرف نام سن کر ہی کافروں کے دل دہل جاتے تھے، ان کی ہوائیاں اڑ جاتی تھیں۔

اللہ پر توکل اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت میں سرشار ہو کر اکیلے ہی ہزاروں کے نرغے میں کود جاتے تھے۔ 18 سال کے حضرت محمد بن قاسم رضی اللہ عنہ نے سندھ فتح کر کے ہندوستان میں اسلام کا پرچم لہرایا، اور آج 18 سال کے نوجوان کی چھت پر اکیلے جانے پر ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔ الا ما شاء اللہ! مسلمان جب تک رب سے ڈرتے رہے، ساری دنیا ان سے ڈرتی رہی۔

مگر جب سے مسلمانوں کے اندر سے رب کا خوف نکل گیا، تب سے وہ ساری دنیا سے ڈرنے لگے ہیں۔ جب سے مسلمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر عمل کرنے سے دور ہوئے، دنیا کی رنگینیوں میں ڈوب گئے، مادیت پرستی کا شکار ہوئے اور مغربی کلچر کو اپنانے لگے، تب سے ان کو ناکامیاں ہی ناکامیاں ملنی شروع ہو گئیں ہیں۔ ہر جگہ ذلت و پستی کا شکار ہو رہے ہیں۔

ڈاکٹر اقبال نے اسی بات کو اپنی اشعار میں کہا تھا کہ

یہی درس دیتا ہے ہمیں ہر شام کا سورج

مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے

دوسروں کی طرف تو اس کو دیکھنا چاہتے جس کے پاس کچھ نہ ہو، جس کے ہاتھ خالی ہوں! حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تہذیب ہمیں عطا فرمائی ہے وہ تہذیب تسنن ہے۔ اس کو چھوڑ کر امت کو کہیں اور منہ مارنے کی ضرورت نہیں ہے۔

آج مسلمان رب و رب کے رسول ﷺ کے فرامین کو ہلکہ جاننے لگے ہیں۔ دنیا کی محبت میں اس قدر ڈوب گئے ہیں کہ آخرت کو ہی بھول بیٹھے ہیں۔ مادیت پر مرنے مٹنے لگے ہیں۔ ان کا کھانا غیروں کی طرح، ان کا پہناوا غیروں کر طرح، ان کے رسم و رواج بھی غیروں کے طرح۔ الغرض! مسلمان صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں۔ إلا ماشاء اللہ!

مسلمان اگر اپنا کھویا ہوا مقام و مرتبہ اور وقار حاصل کرنا چاہتے ہیں، تو ان کو اپنے آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو پڑھنا ہوگا، اور پختگی کے ساتھ آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال، اعمال اور احوال مبارکہ پر عمل کرنا ہوگا۔ اپنے کردار کو سنوارنے کی مکمل کوشش کرنی ہوگی۔ رب اور رب کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ مضبوط کرنا ہوگا۔ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے احکامات پر عمل کرنا ہوگا۔

اپنے ایمان کو پختہ اور کردار کو ستھرا کرنا ہوگا۔ ہر باطل ادیان سے نفرت اور اس کی مخالفت کرنی ہوگی۔ دوسروں کی کلچر سے مرعوب ہونا چھوڑنا ہوگا۔ حضور تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی جان، مال، آل و اولاد سے بڑھ کر محبت کرنی ہوگی۔ اپنے آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ پر عمل پیرا ہونے کی ہر ممکن کوشش کرنی ہوگی۔

جب مسلمان اپنے آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کرے گا، تو اس کے قدموں میں دنیا تو دنیا، لوح و قلم تک ہوں گے۔ بقول ڈاکٹر اقبال

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز کیا ہے لوح و قلم تیرے ہیں

تمام مخلوقات سے افضل انسان اور تمام انسانوں سے افضل میرے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور یہ ہماری خوش قسمتی کہ ہم ان کے امتی ہیں۔

رب تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم کو حضور تاجدار ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی و پکی محبت عطا فرمائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو پڑھنے کی اور اس پر پختگی کے ساتھ تا دم حیات عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اللہم آمین یارب العالمین!

1 تبصرے

  1. ما شاء اللہ سبحان اللہ
    بےشک
    وہ جو نہ تھے تو کچھ نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ نہ ہو
    جان ہیں وہ جہان کی جان ہے تو جہان ہے
    صلی اللہ علیہ وسلم

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں