✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

زیارت رسول اکرم ﷺ (آخری قسط)

عنوان: زیارت رسول اکرم ﷺ
تحریر: ابو تراب سرفراز احمد عطاری مصباحی

سفید کاٹن کے کرتے اور لنگی پہنے ہوئے، سر پر چپٹی ٹوپی۔ کوئی پاجامہ پہننے والا وہاں کے طلبہ واساتذہ میں نظر نہیں آیا، میں نے سوچا کہ کوئی تو اس کی وجہ ہوگی، معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ بھی عموما یہی انداز اختیار کرتے تھے، اور اس کی وجہ شاید یہ ہو کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پاجامہ پہننا باقاعدہ ثابت نہیں۔

ایک اور چیز جو عجیب بھی تھی اور زبردست بھی، وہ یہ کہ آپ جب مسجد جاتے ہوں گے تو کسی ایک جانب آپ کو ٹوپیاں رکھی ہوئی نظر آتی ہوں گی تاکہ نمازی حضرات میں سے کسی کے پاس اگر ٹوپی نہ ہوتو اس کو استعمال کرسکے، لیکن میرا جب وہاں مسجد کی طرف جانا ہوا تو مسجد میں ایک بھی ٹوپی رکھی نظر نہ آئی، بلکہ کم و بیش 50 سے زائد عمامے رکھے نظر آئے، تاکہ جو بھی آئے وہ عمامہ کے ساتھ نماز پڑھ کر 70 رکعت کا ثواب حاصل کرے۔

وہ عمامے کسی کے لیے خاص نہیں تھے بلکہ ہر ایک کو اجازت تھی کہ کوئی بھی کوئی سا عمامہ باندھ سکتا ہے، سنت کی تبلیغ اور اس پر عمل پیرا کرانے کا یہ ایک انوکھا انداز دیکھا، اللہ پاک ہمیں بھی سنتوں کا عاشق بنائے۔

اب انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے لگی تھیں، وہاں کے مدرس آئے اور حضور حبیب ملت کی باہر تشریف آوری کا مژدہ سنایا، ہم سب دست بستہ کھڑے ہوکر حضرت کا انتظار کرنے لگے، کچھ ہی لمحوں میں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اپنے روم سے حضرت باہر تشریف لائے۔

لمبا قد، پتلا دبلا بدن، پیشانی اثر سجود کے نور سے منور، سر پر چپٹی ٹوپی، سفید دھاری دار لنگی اور کاٹن کا کلی دار ڈھیلا ڈھالا کرتا، نگاہیں زمین کی جانب جھکی ہوئی۔ ایک ایک ادا سے بزرگی نمایاں تھی۔

بالخصوص آنکھیوں کی رنگت کچھ الگ ہی طرح کی تھی، بڑی بڑی پر جلال و وقار آنکھیں، ہلکا گلابی رنگ ان میں محسوس ہورہا تھا، اس طرح کی آنکھیں پہلے کبھی نہ دیکھی۔ وہاں کے مدرس نے اشارہ کیا کہ ابھی حضرت کو مسجد جانا ہے، صرف ملاقات کرلیں، ہم نے آگے بڑھ کو دست بوسی کی سعادت حاصل کی۔

ایک ایک سے حضرت نے شفقتانہ انداز میں تعارف حاصل کیا، مجھ سے فرمانے لگے:

کہاں سے فارغ ہو؟

عرض: جامعہ اشرفیہ مبارکپور سے۔

حبیب ملت: ماشاءاللہ، آبائی وطن کہاں کا ہے؟

عرض: مرادآباد۔

حبیب ملت: ارے واہ مرادآباد! کیا بات ہے، جامعہ نعیمیہ تو میرا مادر علمی ہے، مرادآباد میں کہاں رہتے ہو؟

عرض: دیار حافظ ملت بھوجپور۔

حبیب ملت: ماشاءاللہ، میں وہاں کے کثیر علاقوں کو جانتا ہوں، کیوں کہ وہاں ایک عرصہ رہنا ہوا ہے۔

مرید کس کے ہو؟

عرض: امیر اہل سنت علامہ الیاس عطار قادری ضیائی سے۔

حبیب ملت: ان سے کیسے مرید ہوئے؟ ان سے تو ملاقات بھی نہیں ہوئی ہوگی۔

عرض: بذریعہ خط و کتابت۔

حبیب ملت: اچھا ماشاءاللہ براہ راست بھی مرید ہوتے تو اور زیادہ بہتر ہوتا۔ اچھا بیٹا ابھی میرے معمولات کا وقت ہے، میں ابھی زیادہ دیر ملاقات نہیں کرسکتا، میں معذرت خواہ ہوں، بیٹا آپ رمضان بعد آئیں تسلی سے بیٹھ کر گفتگو کریں گے، بیٹا میں پھر معذرت خواہ ہوں، میرا عذر قبول کریں۔

قارئین! میرے لیے یہ کیا کم تھا کہ حضرت کی زیارت سے فیضیاب ہوا، عرصے کی مراد پوری ہوئی، اس پر حضرت کی اس قدر عاجزی کے انداز نے مجھے بہت متاثر کیا۔

میں نے عرض کی: حضور اس میں معذرت کی کوئی بات نہیں، آپ سے بس ملاقات ہوگئی، ہمارے لیے یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ پھر حضرت نے میری مزید دلجوئی فرماتے ہوئے اپنے مدرسے کے مدرس صاحب سے فرمایا: کہ مولانا کو کتاب تحفے میں پیش کرو۔ اور مجھ سے پھر فرمایا کہ دوبارہ آئیں پھر تسلی سے ملاقات ہوگی۔

ایک بار پھر مزید دست بوسی کی سعادت حاصل ہوئی پھر حضرت مسجد میں جاکر تلاوت میں مشغول ہوگئے۔ الحمد للہ رب العٰلمین

اللہ کا کرم کہ اس نے یہ سعادت دی کہ ان کو دکھایا جنھوں نے حضور پاک صلی علیہ وآلہ وسلم کو براہ راست حالت بیداری میں دیکھا۔ آج اپنی قمست پر رشک آرہا تھا، اور یہ بھی خیال آرہا تھا کہ بہتوں کو حضرت کے بارے میں معلوم ہی نہیں۔ اسی وقت سوچا تھا کہ ایک تحریر لکھوں گا اور دوسروں کو بھی حضرت والا سے سناشائی کراؤں گا۔

لاک ڈاون سے قبل حضرت ہند بھر میں جا جاکر تبلیغ دین میں مصروف رہا کرتے تھے، اس کے بعد سے اپنے گھر میں گوشہ نشینی اختیار کے تحریری و تصنیفی کام میں مصروف ہوگیے ہیں۔

آپ غور کریں کہ 90 سال سے زائد عمر، اور خدمت دین کا جذبہ۔ اللہ ہمیں بھی صدقہ عطا کرے۔

اور بہت سی باتیں ہیں، بس مضمون کو چند آپ کی خصوصیات پر ختم کرتا ہوں عاشق اعلی حضرت، یاد گار اسلاف، حبیب مجاھد ملت، محبوب ضیاء الدین مدنی، اعلی مفتی، صاحب حکمت مبلغ، بانی مدارس و مساجد کثیرہ، استاذ العلماء۔ اللہ آپ کا فیضان اور عام فرمائے اور آپ کی برکات سے ہمیں بھی حصہ عطا فرمائے۔

قارئین! اب میں آپ عرض کرنا چاہوں گا کہ کیا آپ بھی چاہیں گے کہ ایسی عظیم ہستی اور بزرگ شخصیت سے ملاقات کریں، اور بالکل کرنی چاہیے، یہ واقعی ان علماء سے ہیں جن کو ہم اللہ کا ولی کہیں تو بالکل بجا ہے، جن کا دیدار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ہے۔

پھر دیر نہ کریں معلومات حاصل کریں اور ملاقات کا وقت نکال کر حاضری کی سعادت پائیں۔ کہیں ایسا نہ کہ پھر دیر ہوجائے، اور ہاں پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی۔

مضمون نگار جامعۃ المدینہ فیضان مخدوم لاہوری، موڈاسا کے استاذ ہیں۔ {alertInfo}

2 تبصرے

  1. ما شاء اللہ تعالیٰ
    ایک عجیب کیفیت محسوس ہوئی
    بہت لطف آیا
    رب کریم آپ کو مذید برکتیں عطا فرمائے
    ہمیں بھی خوش نصیبوں میں شامل فرمائے
    ہمیں بھی کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے دیارِ لاک کی حاضری نصیب فرمائے آمین
    جزاک اللہ خیرا کثیرا

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں