✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

زندگی کی معراج

عنوان: زندگی کی معراج
تحریر: مفتی شریف الحق امجدی رحمہ اللہ تعالیٰ
پیش کردہ: مولانا عظیم شیخ عطاری

مکہ معظمہ میں نو دن قیام کے بعد دسویں دن مدینہ طیبہ کے لیے گورنمنٹ کی بس سے 11:20 منٹ پر چلے، اور ساڑھے سات بجے مدینہ طیبہ حاضر ہوئے۔ بس اسٹینڈ سے سامان لکڑی کے ٹھیلے پر لدوا کر مسجد اقدس کے قریب جانب شرق ایک گلی کے نکڑ پر سامان رکھا گیا مولانا خلیل احمد خاں صاحب مکان کی تلاش میں نکلے۔

اسی اثنا میں عشا کی نماز بھی ہوگئی، قریب ہی شارع رومیہ میں دار طیبہ نام کی بلڈنگ میں دو کمرے چھتیں سو ریال میں لیے گئے۔ ایک میں مردوں نے قیام کیا دوسرے میں عورتوں نے۔

مکان پہنچے کے بعد جب اطمینان ہوا تو مسجد اقدس کے دروازے بند ہو چکے تھے اس لیے اس وقت حاضری نہ ہو سکی، ارادہ یہی تھا کہ رات کے پچھلے پہر نہا دھو کر کپڑے بدل کر بارگاہ اقدس میں حاضری دیں گے۔

اس اثنا میں کہیں سے گنبد خضری کی بھی زیارت نہ ہو سکی لیکن ہوا یہ کہ مجھے شدید نزلہ کی شکایت تھی۔ کسی چائے کی دکان کی تلاش میں میں نکلا۔ گلی میں سیدھے جنوب کی طرف چلا گیا، اس گلی کے باہر وہ وسیع میدان ہے جو مسجد اقدس اور جنت البقیع کے درمیان ہے۔

پڑا روتا جاتا میں اس میدان میں نکل گیا، جب داہنی طرف مڑا نظر اٹھائی تو سامنے گنبد خضری اپنی پوری زیبائیوں اور عظمتوں کے ساتھ جلوہ فرما تھا، نظر پڑتے ہی میں پہلے ہکا بکا رہ گیا، اور صلوۃ وسلام بھی نہ عرض کر سکا۔

کچھ دیر تک سکتے و خود فراموشی کا عالم رہا، بدن کا نپتا رہا۔ کچھ دیر کے بعد ہوش آیا تو میں نے دست بستہ صلوٰۃ و سلام عرض کرنا شروع کیا، انتہائی خوشی میں آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امنڈ پڑا۔ روتا جاتا صلوۃ و سلام عرض کیے جاتا۔ اس وقت کی کیفیت ایسی تھی کہ نہ وہاں سے قدم آگے بڑھانے کی جرات ہوتی تھی، اور نہ پیچھے ہٹانے کو جی چاہتا تھا۔

میں شاید یونہی رہ جاتا کہ ایرانی غول بیابانی کی طرح میرے قریب سے گزرے اور ان وحشیوں نے مجھے اتنی زور سے دھکا دیا کہ میں گرتے گرتے بچا، اور وہ سلسلہ ٹوٹ گیا۔ ان ناپاکوں کے ساتھ جسم کے مس ہونے کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس سے قبل والا رابطہ اس وقت پیدا نہ ہو سکا۔ کچھ دیر کے بعد میں چائے کی تلاش میں چلا گیا۔

چائے پی کر قیام گاہ پر آیا، اور سونے کے لیے لیٹا، اس کے باوجود کہ سفر کی تھکان تھی، بس اسٹینڈ سے قیام گاہ تک پیدل آنے کا بھی اثر تھا، مگر نیند کوسوں دور تھی، کبھی اپنی اس فیروز بختی پر خوشی کی لہر آتی کہ کہاں میں، اور کہاں یہ ارض پاک!۔

کبھی یہ خیال کہ اپنا یہ سیاہ منہ داغدار دامن لے کر سر کار کی بارگاہ میں کیسے حاضر ہوں، انتہائی ندامت سے پسینے میں شرابور ہو گیا، کبھی ان کی رحمت بے پناہ کا تصور کر کے اپنی ہراش و ندامت کو دور کرتا۔ اس حال میں، میں کب تک رہا یاد نہیں۔

پھر نیند آ گئی دو بجے آنکھ کھلی سب ساتھی بے خبر سو رہےتھے، میں اٹھا اور کپڑے نکالے خوب اچھی طرح غسل کیا پھر پورے جسم پر خوشبو ملی کپڑے پہنے، کپڑوں پر بھی جہاں تک ہو سکا خوشبو ملی، ایک نیا جوڑا خاص اس وقت کے لیے اٹھا رکھا تھا، اسے پہنا اوپر سے شیروانی پہنی۔

شیروانی پہنتے وقت خیال یہ آیا کہ کاش میں اپنے ہمراہ جبہ لایا ہوتا، اور بجائے شیروانی کے جبہ پہنتا اس لیے کہ جبہ حضور اقدس کا لباس تھا، اور شیروانی تو ماضی قریب کی ہندیوں کی ایجاد ہے، پھر سفید رنگ کا وہ عمامہ جو نور چشم ڈاکٹر محب الحق سلمہ نے ساتھ کر دیا تھا، باندھا۔

میں جب نہا کر غسل خانے سے نکلا تو حضرت حسنین میاں صاحب بھی بیدار ہو چکے تھے، انہوں نے بھی غسل کیا کپڑے بدلے اور ہم دونوں ساتھ ساتھ بارگاہ اقدس میں حاضری کے لیے چلے۔ باب جبریل سے داخل ہوئے تہجد کی اذان ہو چکی تھی، پوری مسجد اقدس آدمیوں سے بھر چکی تھی۔

ہم لوگ دو صفوں کے بیچ میں ہو کر باب ابو بکر صدیق تک چلے گئے کہیں کوئی گنجائش نظر نہیں آئی، مجبورا باہر نکل کر چاروں طرف نظر دوڑائی، قریب ہی تھوڑی سی جگہ نظر آئی ہم دونوں وہاں پہنچے پہلے نوافل پڑھی پھر نماز فجر کی اذان کا انتظار کرتے رہے۔

اذان کے بعد ہم دونوں نے اپنی نماز الگ پڑی، ہم ابھی فرض سے فارغ بھی نہیں ہوئے تھے کہ جماعت ہونے لگی ہم لوگ نماز سے فارغ ہو کر اورادو وظائف میں مشغول رہے جب جماعت ہو چکی اور بھیڑ کم ہوئی تو ہم لوگ باب السلام سے مسجد اقدس میں داخل ہوئے۔

بھیڑ اب بھی بہت تھی دبتے دھکے کھاتے ہم لوگ مواجہہ اقدس کی طرف چلے تقریبا 15 منٹ میں مواجہ اقدس تک پہنچے مگر پیچھے لوگوں نے اتنے زور سے دھکے دیے کہ ہم لوگ وہاں کھڑے نہ رہ سکے دل مسوس کر رہ گئے اور پیچھے سے جو ریلا مسلسل چلا آ رہا تھا اس کے دباؤ سے ہم لوگ بلا قصد و اختیار باب جبریل تک پہنچ آئے۔

سوچا کہ اب پھر واپس چلیں لیکن لوگوں کے اژدحام کی وجہ سے ہم لوگ واپس نہ ہو سکے باہر نکلے تو دیکھا سیہ پوش ایرانی مرد و عورت کچھ کھڑے کچھ بیٹھے پورے میدان پر قابض ہیں، زور سے سلام پڑھ رہے ہیں ایک شور برپا تھا بہر حال کچھ دور جا کر ہم لوگوں کو کھڑے ہونے کی جگہ ملی وہیں سے سلام عرض کیا گیا۔

مگر معلوم نہیں کیا بات تھی کہ رات والا کیف و سرور حاصل نہ ہو سکا ہمارے چاروں طرف ایرانیوں کا غول بیابانی تھا قریب ہی سر پر سیاہ پگڑی رکھے ان کا کوئی مجتہد تھا جو انہیں بلند آواز سے سلام پڑھوارہا تھا ابتداء تو اس کی طرف دھیان نہیں گیا مگر جب ہم لوگ صلوۃ و سلام سے فارغ ہو گئے تو میں نے سنا وہ مجتہد حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا پر سلام پڑھوا رہا تھا۔

جس میں اور بہت سے کلمات کے ساتھ خاص طریقے سے یہ دو کلے بھی تھے۔ السلام وعليك ايتها المظلومة، السلام عليك ايتها الشهيدة.

رافضیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کو دروازے میں دبا دیا تھا، اس وقت وہ امید سے تھیں دبنے سے اسقاط ہو گیا، اور اسی میں حضرت سیدہ کا وصال ہو گیا۔

اپنے اسی جھوٹے اعتقاد کے مطابق وہ حضرت سیدہ کو مظلومہ اور شہیدہ بھی کہہ رہا تھا، یہ حقیقت میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر تبرا ہے، صرف اسی ایک موقع پر نہیں بلکہ میں نے بارہا ایرانی رافضیوں کے منہ سے یہ تبرا سنا ہے۔

یہ نجدی حکومت کی حق پرستی کہ رافضی علانیہ مسلسل تبرا بکیں تو ان سے کوئی پرشش نہیں لیکن اگر کوئی سنی وارفتہ شوق ہو کر جالیوں کو بو سے دے دے یا منبر اقدس کو بوسہ دے دے تو اسے جھڑکتے بھی ہیں، دھکے بھی دیتے ہیں، اور مار بھی دیتے ہیں۔

میں نے تو حرمین طیبین جا کر یہ محسوس کیا کہ وہاں ماثر و مزارات کو ہاتھ لگانے اور بوسے دینے کے سوا اور کوئی چیز جرم نہیں، داڑھی منڈواؤ فلم دیکھو، گھروں میں ٹیلی ویزن لگاؤ، اس پر عریاں بخش مخرب اخلاق سین دیکھو، گانے سنو، تصویریں کھنچواؤ، تصویریں بیچو خرید و کوئی چیز جرم نہیں۔

میں نے معلمین کے آفسوں میں دیکھا کہ ٹیلی ویزن لگے ہوئے ہیں، دن رات فلمیں چلتی رہتی ہیں، بازاروں میں علانیہ مصر کی مشہور مغلیہ ام کلثوم اور دنیا کے مشہور گانے والے، گانے والیوں کے پاکستانی فلمی گانوں کے کیسٹ بجتے ہیں، ان پر کوئی پابندی نہیں۔

میں نجدی حکومت کے طرف داروں سے سوال کرتا ہوں کہ کیا یہ سب چیزیں جائز ہیں، قرآن مجید کی جو بے حرمتی وہاں آنکھوں سے دیکھی وہ کسی چیز کی نہیں دیکھی۔

حجاج بہترین سے بہترین قرآن مجید خرید کر دونوں حرم میں رکھ دیتے ہیں، جب ان کی تعداد زیادہ ہو جاتی ہے، تو بعد عشا کوڑا پھینکنے والے ٹرکوں میں دروازوں کے باہر پڑے ہوئے چپلوں کے ساتھ قرآن مجید کی جلدوں کو بھی ٹرک میں اس طرح بھرتے ہیں جیسے کوڑا بھرا جاتا ہے۔

قرآن مجید کی جلدوں کو بوروں میں کس کر گھسیٹ کر لے جاتے ہیں اور اٹھا کر ٹرک میں پھینک دیتے ہیں، پھر انہیں قرآن مجید پر ٹرک میں بیٹھتے ہیں اور لے جا کر کہیں پھینک آتے ہیں۔ حجاج میں بھی ایسے ایسے گنواروں کو دیکھا کہ قرآن مجید کا تکیہ لگائے ہوئے سور ہے ہیں مگر کسی نجدی سپاہی یا مطوع کو توفیق نہیں ہوئی کہ ان گنواروں کو ٹوکتا۔

حجاج بیٹھے تلاوت کر رہے ہیں اور گنوار قرآن کی طرف پاؤں کر کے سورہے ہیں، مگر انہیں کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں، میں نے کئی حاجیوں کو اس پر ٹو کا کچھ تو مان گئے، کچھ جھگڑے پر آمادہ آ ہو گئے نجدی حکومت میں یہ سب نا کردنیاں ہوتی ہیں مگر نجدیوں کے وظیفہ خوار اس پر چوں تک نہیں کرتے ماثر و مزارات کے ہاتھ لگانے و بوسہ دینے پر نجدیوں کے بے جا تشدد پر عمل درآمد کرانے کی شب و روز کوشش کرتے رہتے ہیں۔

بہر حال ایرانیوں کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ جو چاہیں کریں حتی کہ انہیں تبرا بکنے کی بھی اجازت ہے۔ ایک بار ایسا ہوا کہ میں نے جالیوں میں دیکھنا شروع کیا کہ حظیره اقدس جالیوں سے کتنے فاصلے پر ہے، اور اس کی شناخت کیسی ہے کہ مجھے نجدی سپاہی نے شرک شرک حرام حرام کہہ کے دھکا دے دیا۔

حالاں کہ میں نے جالیوں کو ہاتھ بھی نہیں لگایا تھا، اپنے اسلاف کی ہدایت کے مطابق اپنے ہاتھوں کو ہرگز اس لائق نہیں سمجھتا کہ ان مقدس جالیوں کو مس کریں مجھے بہت ہی غصہ آیا میں نے اس بد بخت سے کہا: النظر الى داخل الشباب شرک حرام؟

تو درندے نے دونوں ہاتھوں سے میرے مونڈھوں کو پوری طاقت سے پکڑا، اور اتنے زور سے دھکا دیا کہ اگر وہاں زائرین کھڑے نہ ہوتے تو میں گر پڑتا، جی میں تو آیا کہ اس ظالم سے دو دو ہاتھ کر لو اگر چہ جانتا تھا کہ میرا کیا حال ہوگا مگر سرکار اپنے چشمان مبارک سے دیکھ تو لیتے کہ کفار قریش کے جانشین ان کے غلاموں کے ساتھ ان کے دربار عالی جاہ میں ان کے رو بروکتنا ستم ڈھاتے ہیں، اور پھر میں جھوم جھوم کر یہ عرض کرتا۔

بہ جرم عشق توام، می کشند و غوغایی است

تو نیز بر لب بام آ، کہ خوش تماشایی است

مگر پھر خیال آیا کہ یہاں جنگ و جدال اور غوغہ حرام ہے، اس لیے خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا، میں کھڑا ہو کر غصہ بھری ہوئی آنکھوں سے اس موذی کو گھور رہا تھا، اور وہ مجھے گھور رہا تھا۔

اسے اتنی تاب کہاں پھر وہ لپک کر میری طرف بڑھا اور میرا ہاتھ پکڑ کر کچھ دور گھسیٹ کر لے گیا پھر پیچھے سے دھکا دے کر اپنی جگہ واپس آگیا میں نے بڑی حسرت سے بارگاہ عرش جاہ میں عرض کیا:

علمک بحالی کفانی عن سوالی

اس کے بر خلاف ایک دن دیکھا کہ بیت فاطمہ کے پاس ایک ایرانی سر پر پگڑی رکھے بیت فاطمہ میں جالیاں پکڑے ہوئے جھانک رہا تھا اور نجدی سپاہی کھڑا دیکھ رہا تھا اسے ڈانٹنا پھٹکارا میں نے بھی موقعہ سے فائدہ اٹھایا اور جی بھر کے بیت فاطمہ کی زیارت کی۔

آٹھ بجے صبح کا وقت تھا، اچھی خاصی اندر روشنی تھی، اندر کا سارا منظر صاف نظر آرہا تھا، آخر اس کی کیا تو جیہ ہو سکتی ہے، سوائے اس کے کہ الکفر ملة واحدة نجدی اپنے ایرانی بھائیوں کے ساتھ برادرانہ سلوک نہ کریں تو رشتہ اخوت کی تو ہین زمین ہے۔

یہ مضمون ”مقالات شارح بخاری،ص: 421 تا 426 مطبوعہ مکتبہ برکات المدینہ کراچی“ سے ماخوذ ہے {alertInfo}

1 تبصرے

  1. ما شاء اللہ تعالیٰ 🥹
    رب کریم ہمیں بھی در جاناں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری نصیب فرمائے آمین

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں