عنوان: | زندگی کی شام |
---|---|
تحریر: | ابو تراب سرفراز احمد عطاری مصباحی |
راوی کہتا ہے کہ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں مدینہ منورہ میں برکات مدینہ حاصل کررہا تھا اور گنبد خضریٰ کے سامنے قادری چوک میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایک شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا: حضرت! میرے لیے دعا کر دیجیے۔
میں نے اس کی حالت دیکھی، وہ بوسیدہ لباس میں ملبوس تھا، لیکن چہرے پر تازگی تھی۔ وہ ایک دیہاتی شخص لگ رہا تھا۔ اس کے سوال نے مجھے چونکا دیا۔
اس نے دوبارہ کہا:
حضرت! میرے لیے دعا کریں۔ میں نے کہا: بھائی آپ میرے لیے دعا کر دیں۔ لیکن وہ بضد تھا اور بولا: نہیں، آپ ہی میرے لیے دعا کریں۔ یوں گفتگو کا سلسلہ چلتا رہا، اور بالآخر مجھے اس کے لیے دعا کرنے کے لیے ہاتھ اٹھانا پڑا۔
پھر وہ مجھ سے کہنے لگا: کیا آپ میری کہانی سنیں گے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، بالکل، آپ سنائیے۔
اس نے کہا: میری کہانی طویل ہے، لیکن میں مختصر کر کے سناتا ہوں۔
اس نے کہا: میں پہلے مکہ شریف میں رہتا تھا۔ میرے پاس بہت ساری گاڑیاں تھیں، جن کے ذریعے میرا کاروبار چلتا تھا۔ ایک دن میری والدہ کا فون آیا، انہوں نے کہا: بیٹا، میرا دل کہتا ہے کہ میرا آخری وقت قریب ہے، تم فوراً گھر آجاؤ اور میری خدمت کرو۔ اس کے بعد پھر واپس حرم چلے جانا۔
والدہ کی بات سن کر میں پریشان ہو گیا حالات کچھ ایسے بنے کہ مجھے اپنی گاڑیاں بیچنی پڑیں، بیچ کر فوراً اپنے وطن لوٹ آیا۔ جب میں وطن پہنچا تو واقعی میری والدہ کی طبیعت بہت خراب تھی۔
انہوں نے کہا: بیٹا، اچھا ہوا تم آگئے، کیونکہ اب میری طبیعت ایسی ہو گئی ہے کہ شاید میں زندہ نہ رہ سکوں، تو میری خدمت کر۔ لیکن میری وصیت ہے کہ میرے انتقال کے بعد تم یہاں نہ روکنا، مدینہ پاک واپس چلے جانا اور وہیں اپنی زندگی بسر کرنا۔
میں نے والدہ کی خدمت کی، اور کچھ مہینے بعد انہوں نے دنیا سے رخصت کر گئی۔ ان کے انتقال کے بعد، میرے پاس کوئی سہارا نہ رہا۔ مکہ میں جو گاڑیاں تھیں، وہ سب بیچ چکا تھا۔ روزگار کے لیے جانور چَرانا شروع کیا، جس سے گزر بسر ہونے لگی۔ لیکن اب میرے پاس مدینہ جانے کے لیے وسائل نہیں تھے۔ اسی طرح سالوں گزر گئے۔
ایک دن جب میں جانور چرا رہا تھا، مدینہ پاک کی یاد نے مجھے بے چین کر دیا۔ مجھ سے رہا نہ گیا اور بے ساختہ کہہ اٹھا: میں مدینہ جا رہا ہوں۔
میرے ایک ساتھی نے یہ سنا، تو حیران ہو کر بولا: تم کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے کہا: بھائی، میں مدینہ جانا چاہتا ہوں اور ضرور جاؤں گا۔ اس نے کہا: تم جانور چرانے والے، تمہارے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے کہ تم مدینہ جا سکو؟ میں نے جواب دیا: مجھے یقین ہے کہ میرے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مدینہ ضرور بلائیں گے۔ اس نے میری بات کو مذاق سمجھا اور بات کو ٹالنے کی کوشش کی۔
کچھ ہی وقت گزرا کہ اللہ پاک نے مجھ پر ایسا کرم کیا کہ مدینہ جانے کا انتظام ہو گیا۔ اور لیجیے، میں اب آپ کے سامنے حاضر ہوں، مدینہ پاک میں۔
اب میری یہی تمنا ہے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں موت آ جائے، اور میں اسی انتظار میں یہاں رکا ہوا ہوں۔
میرے پاس اب کچھ نہیں، نہ گھر بار اور نہ ہی والدہ زندہ ہیں بس حضور پاک کا در ہے اور میں ہوں۔
اگلے دن وہی شخص دوبارہ آیا اور مجھ سے دعا کی درخواست کی۔ میں نے کہا: اس بار آپ میرے لیے دعا کریں۔ لیکن پھر بھی ان کے اصرار کے آگے مجھے ہی دعا کرنی پڑی۔ میں نے ان سے کہا: آپ دعا کریں کہ مجھے بھی مدینہ پاک نصیب ہو جائے۔
میں ان کی مدینہ پاک سے محبت اور اس کے لیے ہر چیز قربان کرنے کے جذبے سے بہت متاثر ہوا۔
راوی کہتا ہے کہ یہ صرف ایک واقعہ نہیں ہے۔ مدینہ پاک میں ایسے کئی واقعات ہیں، جہاں لوگوں کو صرف اسی تمنا کے ساتھ دیکھا کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں موت نصیب ہو اور اپنے آپ کو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں قربان کر دیں۔
اسی سوچ کے ساتھ مجھے ایک شعر یاد آتا ہے، انہی واقعات کی ترجمانی کرتے ہوئے کسی شاعر نے کہا ہے:
پھر مجھے موت کا کوئی خطرہ نہ ہو
موت کیا، زندگی کی بھی پرواہ نہ ہو
کاش سرکار ایک بار مجھ سے کہیں
اب تیرا جینا مرنا مدینے میں ہے
پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ ہمارے اندر شوقِ مدینہ کس قدر ہے؟
ہم مدینہ کی یاد میں کتنا تڑپتے ہیں؟ مدینہ کے حصول کے لیے کتنا ترستے ہیں؟
بعض اوقات ہم کہتے تو ہیں کہ ہمیں مدینہ پاک جانا ہے، لیکن اگر سنجیدگی سے دیکھا جائے تو یہ صرف شوق ہوتا ہے۔ ہمیں سچی نیت کرنی چاہیے اور مدینہ پاک کی تیاری کرنی چاہیے۔ پھر دیکھیں، ان شاء اللہ آپ کو بلایا جائے گا۔
اور پھر آپ بھی کہیں گے:
کیا بتاؤں کہ کیا مدینہ ہے
بس میرا مدعا مدینہ ہے
مضمون نگار کئی کتابوں کے مصنف اورجامعۃ المدینہ فیضان مخدوم لاہوری، موڈاسا کے استاذ ہیں۔ {alertInfo}
رب کریم ہر طلبگار کو در حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی حاضری نصیب فرمائے
جواب دیںحذف کریںمزید حاضری کی تڑپ پیدا ہو گئی اس مضمون سے 🥹