✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

زیارت رسول اکرم ﷺ (قسط دوم)

عنوان: زیارت رسول اکرم ﷺ
تحریر: ابو تراب سرفراز احمد عطاری مصباحی

محترم قارئین!

جب یہ واقعہ میں نے سنا تو ضمیر نے پکار اٹھا کہ کس قدر خوش نصیب ہیں سرپرست دعوت اسلامی مفتی عبد الحلیم صاحب کہ انھوں ان کو دیکھا جنھوں نے حالت بیداری میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، دل میں شوق و ولولہ پیدا ہوا کہ کاش یہ سعادتیں ہمیں بھی میسر ہوتیں۔

احساس ہے کہ اس لائق نہیں کہ حضور پاک صلی علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کرسکیں، بلکہ اس کے بھی لائق نہیں کہ ان کی زیارت کرنے والوں کو بھی دیکھ سکیں۔ لیکن شوق تو رکھ ہی سکتے ہیں اس امید پر کہ ان کی نظر سے ہی ہم بدوں کا بھلا ہوسکتا ہے۔

اسی شوق کے تحت مفتی عبد الحلیم صاحب قبلہ علیہ الرحمہ کی محبوب مرید جناب اشرف حلیمی سے پوچھا: حضور مجاہد ملت علیہ الرحمہ کی زیارت سے تو محروم رہے، ان کے ساتھ میں زیارت سے فیضیاب ہونے والے دونوں بزرگوں میں سے کوئی باحیات ہے یا نہیں؟

اشرف بھائی نے کہا کہ مجھے معلومات نہیں شاید ان کا بھی انتقال ہوچکا ہے۔ انتقال کا لفظ سنتے ہی امید کی کلی مرجہانے لگی۔

پھر کافی وقت گزر گیا، لاک ڈاون کے ایام میں وقتی طور پر تدریس کے لیے جامعۃ المدینہ فیضان خطیب حسن چشتی دھولقہ گجرات جانا ہوا، بارہویں شریف کے چھٹیوں کے وقت وہاں سے گھر روانگی کے وقت اچانک برادر صغیر حافظ نیاز احمد عطاری کی طبعیت کافی بگڑ گئی، شدید پیٹ میں درد، وہاں سے احمدآباد آئے، چیک اپ کرایا تو اپینڈکس نکلا، ڈاکٹر نے ہاتھوں ہاتھ آپریشن کا کہا، اللہ کا کرم ہوا کہ دعوت اسلامی کے تعلیمی آن لائن ادارے غریب نواز آن لائن اکیڈمی کے اسٹوڈنٹ ڈاکٹر نے فی سبیل اللہ آپریشن کیا حتی کہ دوائی کا ایک روپیہ بھی نہ لیا۔

اللہ پاک ان کو آخرت میں اس کا بہترین بدلہ عطا فرمائے، اسی دوران ہاسپٹل سے ڈسچارج کرنے کے بعد کچھ دن احمدآباد ہی رکنا پڑا وہاں ایک حافظ صاحب سے ملاقات ہوئی، ابتدائی گفتگو کے بعد میں نے مصروفیت دریافت کی تو انھوں نے بتایا کہ میں یہیں احمدآباد میں ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیتا ہوں، انھیں حافظ صاحب کے گھر کے پاس ایک مدرسہ نظر آیا، میں نے سوچا کہ کچھ اس حوالے سے بھی معلومات حاصل کرتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ یہ مدرسہ مفتی عبد التواب صاحب قبلہ کا قائم کردہ ہے، مفتی عبد التواب صاحب قبلہ کا نام سنتے ہی میں کچھ دیر کے لیے سکتے میں آگیا، اور سوچنے لگا کہ یہ نام تو سنا سنا لگتا ہے۔

اس وقت اتنی توجہ نہیں دی کہ یہ وہی بزرگ کا نام تو نہیں جنھوں نے حضور مجاہد ملت کے ساتھ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے۔

اس وقت گھر کی جانب نکلنا تھا تو جلد بازی کی وجہ سے اس طرف زیادہ توجہ نہیں دے پایا اور گھر کی جانب روانہ ہو گیا۔

رمضان 1445ھ میں کانپور جانا ہوا، بچے (محمد صادق) کے نانا سے ملاقات ہوئی، اچانک یاد آیا کہ ان سے مفتی عبد التواب صاحب کے بارے میں دریافت کرتا ہوں، در اصل احمدآباد میں جن حافظ صاحب سے ملاقات ہوئی تھی وہ انھیں (بچے کے نانا) ہی کے گاؤں کے تھے۔

ان سے معلوم کیا تو انھوں نے بتایا: ہاں میں ان کو اچھی طرح جانتا ہوں اور انھوں نے ہماری مسجد کی سنگ بنیاد بھی رکھی ہے، جمعہ بھی انھوں نے ہی قائم فرمایا، اور احمدآباد والے حافظ صاحب جن سے آپ کی ملاقات ہوئی تھی وہ انھیں کے شاگرد ہیں۔

یہ سننے کے بعد زائر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے شوق کی کرن پھر چمک اٹھی، میں نے کہا: کیا وہ باحیات ہیں؟

انھوں نے سر سر ہلاکر کہا: ہاں، ان کا سر کیا ہلانا تھا دل کے غنچے چٹک اٹھے، امید کی کرن چمکنے لگی۔

میں نے فورا عرض کیا کہ ان سے ملاقات کی کیا صورت ہوگی، جلدی بتائیں اب بس مجھے ان سے ملاقات کرنا ہے، ہاتھوں ہاتھ بچے کے نانا نے انھیں حافظ صاحب کو کال کرکے معلومات لی، پتہ چلا کہ حضرت اس وقت اپنے آبائی وطن ”پک سراواں“ میں موجود ہیں، ملاقات ہوسکتی ہے۔

پک سراواں اتر پردیش کے ضلع رائے بریلی سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ میں ملاقات کے لیے پر عزم ہوچکا تو ساتھ ہی مولانا ثقلین مدنی، عبید رضا و محمد تعظیم (طالب علم جامعۃ المدینہ) بھی تیار ہوگئے، گاڑی بک کرکے روانہ ہوگئے،

ہماری روانگی کی خبر کسی طرح پک سراواں کے رہائشی شیخ جنید (طالب علم جامعۃ المدینہ) کو ہوگئی، ان کی کال آئی کہ میں اس وقت رائے بریلی میں ہوں، اپ رائے بریلی آئیں، آپ کے ساتھ میں بھی ہو جاؤں گا اور ان شاءاللہ ملاقات کی سعادت حاصل کرلیں گے۔ ہمارا یہ پنچتنی قافلہ پک سراواں پہنچ گیا، گاڑی ایک مسجد کے کنارے جاکر روکی گئی، شیخ جنید نے بتایا کہ حضرت حبیب ملت اسی مسجد میں نماز ادا فرماتے ہیں۔

مفتی عبد التواب صاحب قبلہ حضور مجاہد ملت سے بہت ہی والہانہ عشق رکھتے ہیں، ان کی ہر ادا کو ادا کرنا اپ کا شیوہ وطیرہ ہے۔ اسی وجہ آپ کو آپ کے وابستگان حبیب ملت کے لقب سے یاد کرتے ہیں۔

مسجد سے متصل ایک خوبصورت مدرسہ دکھائی دیا، جو اپنی وسعت و بلند عمارت کے ذریعے علم و عمل کی وسعت پر دلالت کررہا تھا۔

وہاں کے ایک مدرس صاحب تشریف لائے، سلام و مصافحہ کے بعد انھوں نے فرمایا: حبیب ملت رمضان میں کسی سے ملاقات نہیں فرماتے، لیکن آپ لوگ اتنی دور سے آئے ہیں تو حضرت کی بارگاہ میں عرض کردیتا ہوں، گر قبول افتد زہے عز وشرف۔

ہم تھوڑا پریشان سے ہوئے، کہ پتہ نہیں ملاقات ہوپاے گی بھی یا نہیں، پھر یوں خود کو تسلی دی کہ چلیں ملاقات اگر نہ بھی ہو کم از کم زیارت تو ہو جائے گی، یہ بھی کیا کم ہے کہ ان کو دیکھنے کی سعادت مل جائے جنھوں نے حالت بیداری میں حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہو۔

ابھی ہم یہ گفتگو کر ہی رہے تھے کہ کہ وہ مدرس صاحب تشریف لائے، انھوں نے بتایا: حضرت اپنے جدول کے بہت پابند ہیں، ابھی حضرت آرام کررہے ہیں، کچھ دیر کے بعد بیدار ہوں گے، پھر وضو کرکے مسجد چلے جائیں گے۔ مسجد جانے کے دوران ہی بس ملاقات ہوسکتی ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ فجر کے بعد سے لے کر اشراق و چاشت تک حضرت اوراد و وظائف میں مشغول رہتے ہیں پھر کچھ دیر آرام کرتے ہیں، 12 سے قبل مسجد جاکر تلاوت میں مشغول ہو جاتے ہیں۔

اس کے بعد سے لے ظہر کے بعد تک عبادت میں مصروفیت پھر آرام کا وقفہ اور عصر بعد تصنیفی کام۔ یہاں ایک اور بہت اہم بات جو ناقابل فراموش ہے وہ یہ کہ حضرت مکمل تراویح کھڑے ہوکر با جماعت ادا فرماتے ہیں، جب کہ عمر 90 سے زائد عمر ہوچکی ہے۔

میں سن کر بڑا حیران ہوا، پھر بزرگوں کا وہ قول یاد آیا کہ جوانی میں عبادت بڑھاپے میں بھی مضبوط رکھتی ہے۔ پھر بھی آپ غور کریں کہ آج کل 50 ہوجائے تو لوگ کرسی پکڑ لیتے ہیں۔

اور بھی بہت ساری باتیں انھوں نے بتائیں، ہم تقریباً 10:30 بجے وہاں پہنچے تھے، حضرت سے متعلق باتیں سن کر بڑا لطف آرہا تھا، اور یوں وقت بڑی تیزی سے گزرتا جارہا تھا۔

یہ بھی بتاتا چلوں کہ حضرت تقریباً دو درجن مدارس کے بانی اور پچاسوں مساجد کے قیام کے ساتھ مختلف علاقوں میں افراد تیار کرکے تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیتے رہتے ہیں، ہند کے دور دراز علاقوں میں آپ کی خدمات کا فیضان جاری ہے۔

اسی انتظار کے دوران وہاں کے کچھ طلبہ پر نظر پڑی ایک الگ منظر تھا۔

مضمون نگار جامعۃ المدینہ فیضان مخدوم لاہوری، موڈاسا کے استاذ ہیں۔ {alertInfo}

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں