عنوان: | زیارت رسول اکرم ﷺ |
---|---|
تحریر: | ابو تراب سرفراز احمد عطاری مصباحی |
عنوان سے تو آپ کو لگ رہا ہوگا کہ میں خواب میں زیارتِ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق خامہ فرسائی کرنے لگا ہوں، یا اگر حالتِ بیداری میں زیارتِ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مراد ہے تو پھر امامِ اہلِ سنت، مجددِ دین و ملت، عاشقِ ماہِ رسالت، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن کے براہِ راست حالتِ بیداری میں دیدار سے فیض یاب ہونے کا تذکرہ ہوگا۔
آپ کا گمان بالکل درست ہے۔ ظاہر ہے کہ خواب میں حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت پانے کو بندے کی معراج کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، لیکن میری مراد براہِ راست حالتِ بیداری میں دیدار کی سعادت ہے۔
امامِ اہلِ سنت اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنے کا جو پہلو آپ نے سمجھا، وہ بھی اپنی جگہ بالکل درست ہے، کیونکہ آپ کو بارگاہِ رسالت میں ایک عظیم مقام حاصل ہے۔ لیکن آج میں ایک اور عظیم شخصیت کی بات کرنے لگا ہوں۔ اس شخصیت کو رئیسِ اعظم اڑیسہ، حضور مجاہدِ ملت علامہ حبیب الرحمٰن رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ آپ کا مزار فائض الانوار مشرقی ہند کے صوبے اڑیسہ کے شہر دھام نگر شریف میں برکتیں لٹا رہا ہے۔
حضور مجاہدِ ملت کے خلیفہ، سرپرستِ دعوتِ اسلامی فقیہ الاسلام مفتی عبد الحلیم صاحب قبلہ رحمۃ اللہ علیہ کی زبانی، یا مفتی صاحب کے خلیفہ مفتی وسیم اکرم رضوی مصباحی دامت برکاتہم العالیہ کی زبانی یہ واقعہ سنا تھا کہ ایک بار جب حضور مجاہدِ ملت علیہ الرحمہ حج پر تشریف لے گئے اور آپ نے وہاں بد مذہب امام کے پیچھے نماز نہ پڑھی، تو آپ کو سعودی حکومت نے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا۔
پھر وہاں کے قاضی نے بحث و مباحثہ میں لاجواب ہونے کی وجہ سے یہ حکم جاری کر دیا کہ انہیں سعودی عرب سے باہر کر دیا جائے اور آئندہ کبھی نہ آنے دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ حضور مجاہدِ ملت علیہ الرحمہ کے پاسپورٹ کی تصاویر لے کر آئندہ آمد پر پابندی کا حکم نامہ ایم بی سی کو بھیج دیا گیا۔ عین حج کے دن آپ کو حج کرنے کے بجائے اٹھا کر ہند واپس کر دیا گیا۔
اس سانحہ کی وجہ سے حضور مجاہدِ ملت بہت دل برداشتہ ہوئے۔ پھر عاشقِ مدینہ کو اگر درِ رسول سے دور کر دیا جائے تو اس پر کیا گزرے گی، یہ خوب ظاہر ہے۔ آپ یادِ مدینہ میں تڑپتے، گریہ و زاری کرتے، حتیٰ کہ کچھ سال بعد آپ نے اپنے دو خلیفہ، مفتی عبد التواب صاحب قبلہ دامت برکاتہم العالیہ اور مولانا اسمعیل برکاتی صاحب قبلہ سے عزمِ حرمین شریفین کا اظہار کیا اور فرمایا، اس بار آپ دونوں میرے ساتھ چلو۔
آپ جانتے تھے کہ آپ کی آمد پر پابندی لگی ہوئی ہے، لیکن پھر بھی شوقِ مدینہ نے آپ کو رکنے نہ دیا اور آپ اپنے دونوں خلفاء کے ساتھ روانہ ہوگئے۔
یہ آپ کی کرامت کہوں یا حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ کہوں، بلکہ دونوں کہوں کہ جب عرب شریف میں آپ وہاں پہنچے جہاں پاسپورٹ وغیرہ چیک کیا جاتا ہے اور تصویر سے تصویر کو ملایا جاتا ہے، تو کیا ہوا!
ہوا یہ کہ کسی نے آپ کی طرف نگاہ اٹھا کر ہی نہ دیکھا اور نہ ہی پاسپورٹ پر غور کیا کہ یہ اسی کا پاسپورٹ ہے جس کے آنے پر حکومتی طور پر پابندی ہے۔ خیر، جب آقا صلی اللہ علیہ وسلم خود غلام کو اپنے در پر بلائیں تو کس کی مجال ہے کہ روک سکے! حج کرنے کے بعد آپ عشقِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں سرشار سوئے مدینہ منورہ روانہ ہوگئے۔ یاد رہے، مدینہ پاک تو بہت لوگ جاتے ہیں، پر عاشقِ مدینہ کا جانا کچھ اور ہی انداز میں ہوتا ہے۔
جب حضور مجاہدِ ملت مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفاً و تعظیماً میں کمرے پر پہنچے تو آپ نے اپنے دونوں خلیفہ سے فرمایا: آپ لوگ بارگاہِ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں جائیں، میں نہیں جاؤں گا۔
انہوں نے عرض کی حضور! آپ بھی چلیں، ہند سے سفر کرکے اتنی دور آئے ہیں۔
آپ نے فرمایا: آپ جائیں، میں نہیں جاؤں گا۔
تین دن یوں گزر گئے، وہ دونوں صاحب جاتے، درِ رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری دیتے۔ چوتھے دن یا تیسرے دن ہی جب دونوں حضرات جانے لگے تو حضور مجاہدِ ملت علیہ الرحمہ نے فرمایا: چلو، میں بھی چلتا ہوں۔
صاحبان کچھ حیران بھی ہوئے اور خوش بھی کہ حضرت کے ساتھ حاضری کی سعادت ملے گی۔ اب تینوں حضرات سنہری جالیوں کے روبرو حاضر ہوگئے۔ دائیں طرف مفتی عبد التواب صاحب قبلہ، بائیں طرف مولانا اسمعیل برکاتی صاحب، اور درمیان میں حضور مجاہدِ ملت۔ آنکھوں سے سیلابِ اشکاں رواں، دل عجز و نیاز سے درِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جھکا ہوا، سر خم، دست بستہ، با ادب، لب خاموش۔
سامنے سنہری جالیاں جنت کا مژدہ سنا رہی ہیں، سر پر ہریالہ گنبد سایہ فگن ہے۔ اچانک مفتی عبد التواب صاحب قبلہ کی نظر سامنے سنہری جالیوں کی طرف جاتی ہے تو کیا دیکھتے ہیں کہ سنہری جالیاں کھل گئیں اور اندر سے مرکزِ عشاق، بے کسوں کے کس، بے بسوں کے بس، شفیع الامم، سید الانبیاء، ختم الرسل صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم تشریف لا رہے ہیں۔
مفتی عبد التواب صاحب قبلہ کا بیان ہے: یہ کوئی خواب نہیں تھا بلکہ آنکھوں دیکھی حقیقت تھی۔
حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم آگے تشریف لاتے ہیں اور حضور مجاہدِ ملت کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرماتے ہیں: حبیب الرحمن! کچھ سال پہلے تم کو حج کرنے نہ دیا گیا، بلکہ واپس بھیج دیا گیا۔ دیکھو، اس بار ہم نے بلایا ہے اور جب ہم بلاتے ہیں تو کوئی نہیں روک سکتا۔ سر اٹھاؤ، دیکھو، میں تمہاری دل جوئی کے لیے خود سنہری جالیوں سے باہر آگیا ہوں۔
اللہ اللہ! کیا منظر ہوگا! اس واقعے کے تصور پر ہی دل قربان ہونا چاہتا ہے۔ کاش، کاش! ان کے غلاموں کے قدموں کی دھول بن جاؤں۔ (جاری)
مضمون نگار جامعۃ المدینہ فیضان مخدوم لاہوری، موڈاسا کے استاذ ہیں۔ {alertInfo}
اللہ والوں کی محبت کے سامنے یہ دینا کی ساری سختیاں بیکار ہے
جواب دیںحذف کریںآپ حضرات تینوں تحریروں کا بالاستیعاب مطالعہ فرمائیں
ما شاء اللہ تعالیٰ
جواب دیںحذف کریںکیا نصیبہ ہے 🥹