✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

ظلم و بربریت کی چشم دید گواہی

عنوان: ظلم و بربریت کی چشم دید گواہی
تحریر: محمد عارف مصباحی الخیرآبادی

صبح کی پوتر کرنیں نمودار ہوئیں، مؤذن کی صدا فضاؤں میں گونجی اور ہم نے نماز فجر کے ساتھ دن کا آغاز کیا۔ تلاوت قرآن اور دیگر اذکار سے فراغت کے بعد سبھی اپنی روزمرہ کی مصروفیات میں مشغول ہوگئے۔

خواتین ناشتہ تیار کرنے لگیں، بچے اسکول جانے کی تیاری کرنے لگے، والد صاحب دکان کے لیے اور بڑے بھائی دفتر کے لیے نکل چکے تھے۔ چھوٹے بہن بھائی اپنے تعلیمی مستقبل پر غور و فکر کر رہے تھے۔ ہر سو سکون تھا، چہروں پر مسکراہٹیں تھیں، کوئی یہ گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ خوشیاں بس لمحوں کی مہمان ہیں۔

جب نفرت کے طوفان نے سب کچھ بہا دیا، کسے معلوم تھا کہ ایک قیامت دروازے پر دستک دے رہی ہے؟ ایک ایسا طوفان جو پل بھر میں سب کچھ مٹی میں ملا دے گا! ایک ایسا سیلاب جو امیدوں، خوابوں اور گھروں کو بہا لے جائے گا!

یکایک وحشت اور بربریت کا کھیل شروع ہوا۔ ایک بے رحم بھیڑ جو نفرت اور تعصب کے زہر میں ڈوبی تھی گلیوں میں امڈ آئی۔ نعرے لگائے جا رہے تھے، دروازے پیٹے جا رہے تھے، گھروں پر پتھر برسائے جا رہے تھے۔ اس وحشی ہجوم کی پشت پناہی وقت کے ظالم حکمرانوں کے ہاتھ میں تھی اور ان کی بے رحمی کی انتہا یہ تھی کہ نہ کسی بوڑھے پر رحم آیا، نہ کسی معصوم پر ترس کھایا گیا۔

دکانوں کو لوٹا گیا، گھروں کو آگ کے حوالے کر دیا گیا، مسجدوں کی بے حرمتی کی گئی، سبز پرچم کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ وہ ظالم جنہوں نے کل تک انہی گلیوں میں ہم سے خریداریاں کی تھیں آج ہمارے کاروبار کو جلا کر راکھ کر رہے تھے۔ جو کل تک ہمارے ساتھ ہنستے بولتے تھے آج وہی سفاک ہاتھوں میں آگ اور نفرت لیے ہمارے ہی خون کے پیاسے تھے۔

ہماری گلی میں بھی وہ بھیڑ بار بار آتی رہی۔ دروازے پر لاتیں مار کر دھمکیاں دے رہی تھی، نعرے لگا رہی تھی۔ ہمارے گھر میں سب لوگ خوف سے ایک دوسرے سے لپٹ گئے۔ والدہ نے اپنے جگر کے ٹکڑوں کو اپنے آنچل میں چھپا لیا، والد صاحب مسلسل فون پر بھائیوں سے کہہ رہے تھے کہاں ہو؟ خیریت سے ہو؟ جہاں ہو وہیں رک جاؤ! کسی قیمت پر گھر مت آنا!

پھر وہ بھیانک لمحہ آیا جب وہ درندے ہمارے دروازے کے سامنے جمع ہو گئے۔ کوئی چیخ رہا تھا اس گھر کو آگ لگا دو!

دروازہ توڑو اور سب کو ختم کر دو! یہ الفاظ سن کر کلیجے کانپ گئے، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا، دل خوف اور بے بسی کی شدت سے لرزنے لگے۔ کوئی درود شریف کا ورد کر رہا تھا، کوئی آیت کریمہ پڑھ کر اللہ کی بارگاہ میں فریاد کر رہا تھا، کوئی آقائے دو جہاں ﷺ کو مدد کے لیے پکار رہا تھا۔

اچانک بھیڑ میں سے کسی کی آواز گونجی رکو! یہ تو اپنے لوگ ہیں! یہ وہ ہیں جو کئی خداؤں کے سامنے جھکتے ہیں!

یہ جملہ گویا زندگی اور موت کے درمیان ایک پل تھا۔ سانسیں تھم گئیں، آنکھوں میں آنسو تھے مگر زبان پر ایک ہی صدا تھی:

فریاد امتی جو کرے حال زار میں

ممکن نہیں کہ خیر البشر کو خبر نہ ہو

ظلم کی آگ سب کو جلا دیتی ہے یہ محض ایک داستان نہیں بلکہ ایک خونچکاں حقیقت ہے۔ یہ ظالموں کے چہروں سے نقاب نوچنے والی شہادت ہے۔ یہ انسانیت کے اجتماعی ضمیر پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔

آج اگر یہ آگ ہمارے گھروں کو جلا رہی ہے تو کل یہی شعلے ان لوگوں کے آشیانوں تک بھی پہنچیں گے جو آج ہماری بربادی پر جشن منا رہے ہیں۔ تاریخ ہمیشہ پلٹ کر آتی ہے، ظالم کا انجام ہمیشہ عبرتناک ہوتا ہے۔ جو لوگ جلتے ہوئے گھروں کے دھوئیں کو دیکھ کر مسکرا رہے ہیں انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ

لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں

یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے!

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں