عنوان: | سفر شوق: در مخدوم پر ایک رات کی لافانی سرگزشت |
---|---|
تحریر: | محمد عارف مصباحی الخیرآبادی |
یہ کوئی عام سفر نہیں تھا، بلکہ ایک دل تڑپتی روح کا اپنے مرکزِ عشق کی طرف کھنچ جانے کا سفر تھا۔ یہ وہ سفر تھا جہاں جسم تو مسافت طے کر رہا تھا، مگر روح کسی اور ہی دنیا میں پرواز کر رہی تھی۔ یہ ایک ایسی حاضری تھی جس کے لیے صدیوں کے منتظر لمحے ایک ساعت میں سمٹ آئے تھے۔
حضور مخدوم سمنا، سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وہ ذاتِ والا، جن کے در پر دنیا جھکتی ہے، جہاں سے فیض کی بارش کبھی نہیں رکتی، جہاں خاک کے ذرے بھی روشنی بانٹتے ہیں۔ وہی در، وہی مقدس بارگاہ، جہاں دلوں کی دنیا بدل جاتی ہے، جہاں تمنائیں اپنی تکمیل پاتی ہیں، اور جہاں آنکھوں کے آنسو عبادت بن جاتے ہیں۔
یہ رات عام راتوں جیسی نہیں تھی۔ یہ رات ایک اضطراب کی رات تھی، ایک بے قراری کی رات، جب دل میں درِ مخدوم پر حاضری کی تڑپ جاگی اور قرار جاتا رہا۔
100 کلومیٹر کی مسافت، مگر محسوس ہو رہا تھا جیسے ہر لمحہ صدیاں بن کر گزر رہا ہے۔ قدم تیز تھے، دل بے قرار تھا، اور آنکھیں بس اس ایک لمحے کی منتظر تھیں جب نظر دربارِ اشرفی پر پڑے گی۔ پھر وہ لمحہ آیا—
اللہ اللہ! وہ پہلی جھلک، وہ نور کی چمک، وہ دل کا بے خود ہو کر جھوم اٹھنا! یوں لگا جیسے روشنی کی ایک لہر سینے میں اتر گئی ہو، جیسے کسی نے روح پر کرم کی چادر ڈال دی ہو، جیسے میرے وجود کا ہر ذرہ صدیوں کے بعد اپنی اصل کو پا رہا ہو۔
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے ایسا لگ رہا تھا جیسے گناہوں کے بوجھ اتر رہے ہوں، جیسے ہر قدم مجھے مزید پاکیزگی کی طرف لے جا رہا ہو۔ جب پہلی بار نظر روضہ مبارکہ پر پڑی، تو ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ میں بے اختیار جھک گیا، میرے آنسوؤں نے وہ سب کہہ دیا جو زبان کہنے سے قاصر تھی۔
مسجد میں حاضری دی، اوراد و وظائف میں مشغول ہوا، مغرب کی اذان ہوئی، نماز ادا کی، اور ایک بار پھر روضہ مبارکہ کی طرف بڑھا۔ مگر اچانک خدام نے اعلان کیا: ”حاضری کا وقت ختم ہو چکا ہے، زائرین باہر تشریف لے جائیں!“
ایک لمحے میں دل ٹوٹ گیا، روح بے چین ہو گئی—کاش! کچھ لمحے اور! لیکن عشق میں اگر سچی تڑپ ہو، تو دربارِ اشرفی سے خالی ہاتھ واپسی نہیں ہوتی!
عرس قریب تھا، روضہ مبارکہ کی تزئین و آرائش جاری تھی، مزدوروں کو رات بھر کام کی اجازت تھی۔ میں نے بھی خود کو ان میں شامل کر لیا، اور پھر—
اللہ اللہ! ایک بار پھر سیڑھیاں طے ہوئیں، اور آج درِ اشرف بالکل خالی تھا! بس میں تھا، میرا مخدوم تھا، اور کرم کی رات تھی!
آج کوئی ہجوم نہیں، کوئی شور نہیں، بس سکون، بس کرم، بس رحمت! میں نے قدم آگے بڑھائے، آنکھیں اشک بار تھیں، دل کی دھڑکن بے قابو تھی۔ آج یہ سعادت میرے نصیب میں لکھی جا چکی تھی کہ میں تنہائی میں روضہ مبارکہ کی دہلیز پر جھکوں، دل کی فریاد بیان کروں، اپنے رب کے ولی سے وہ سب مانگوں جو روح کی طلب تھی۔
رات کے سناٹے میں چاندنی چھٹکی ہوئی تھی، آسمان پر ستارے دمک رہے تھے، اور بارش کی ہلکی ہلکی بوندیں گویا درِ مخدوم سے برستی رحمت کی علامت تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ آسمان سے فرشتے نازل ہو رہے ہیں، کہ اولیاء کرام کی ارواح دربارِ اشرفی پر سلامی پیش کر رہی ہیں، کہ ہر چیز مجھے پکار رہی ہے:
”اے مسافرِ درِ اشرف! جو مانگنا ہے مانگ لے، آج درِ کرم کھلا ہے!“
وہ لمحے، وہ ساعتیں، وہ مناجات—یہ سب میری زندگی کا حاصل تھیں، میری بے قراری کا اختتام تھیں۔ میں نے جو کچھ پایا، وہ الفاظ میں نہیں سمو سکتا۔ بس اتنا کہہ سکتا ہوں کہ آج میری دعائیں سنی گئیں، آج میرے اشرف نے اپنے دامنِ کرم میں جگہ دے دی، آج میں سچ میں سکون پا گیا۔
فجر کی نماز کے بعد جب میں واپسی کے لیے نکلا، تو قدم تو بڑھ رہے تھے، مگر دل وہیں چھوڑ آیا تھا—روضہ مبارکہ کی دہلیز پر، جہاں میری حقیقت بدل چکی تھی، جہاں میرے نصیب سنور چکے تھے۔
اس سفر میں، محب محترم مولانا احتشام مصباحی صاحب نے قدم قدم پر ساتھ دیا، محبتوں سے نوازا، اور حقِ رفاقت ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ ان کے علم و عمل میں برکت عطا فرمائے اور ہم سب پر مخدومِ پاک کے فیوض و برکات ہمیشہ نازل فرمائے۔
یہ سفر ختم نہیں ہوا—یہ ایک نئی راہ کا آغاز تھا، وہ راہ جو ہمیشہ درِ مخدوم کی طرف جاتی ہے، جہاں روشنی ہے، جہاں برکت ہے، جہاں عشق کی معراج ہے،جہاں سے ہمیں تقوی، پارسائی، خدا اور عشق رسول کا درس ملتا ہے!
ما شاء اللہ تعالیٰ رب کریم مزید برکتیں عطا فرمائے آمین
جواب دیںحذف کریں