✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

واہ! کیا زندگی ہے!

عنوان: واہ! کیا زندگی ہے!
تحریر: الفت ریاض سندیلوی

زندگی کیا ہے؟ ایک گلزار، ایک نعمت، ایک معمہ، ایک کہانی، ایک داستان، ایک حسین خواب، ایک خوبصورت خیال، ایک سہانا سفر، ایک جنگ، ایک حقیقت، ایک تماشا یا محض ایک سراب۔

زندگی کیا ہے؟ یہ صرف ایک بار ہی کیوں ملتی ہے؟ یہ سوال اور ایسے ہی نہ جانے کتنے سوالات ہوتے ہیں جو زندگی کو لے کر ہمارے ذہنوں میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی ایسا لگتا ہے جیسے زندگی بہت خوبصورت ہے، مگر کبھی کبھی بہت خوفناک لگنے لگتی ہے۔ کبھی تو یہ ایک خوبصورت حقیقت کی طرح معلوم ہوتی ہے تو کبھی ایک بھیانک خواب۔ کبھی زندگی میں صرف اور صرف مشکلات اور پریشانیاں ہی نظر آتی ہیں، مگر کبھی امید کے چراغ بھی روشن ہوتے ہیں۔

بہرحال، جو بھی ہو، لیکن ایک بات جو میں نے سیکھی ہے وہ یہ ہے کہ زندگی ایک ایسی لیبارٹری (تجربہ گاہ) ہے جہاں ہم نت نئے تجربے کرتے ہیں اور ان تجربات سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا اسکول ہے جہاں ہمیں روز ایک نیا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا باغیچہ ہے جہاں ہر روز نئے نئے پھول کھلتے ہیں۔

زندگی ایک لفظ ہے جو متعدد معنوں اور تجربات کے ساتھ آتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ زندگی محض ایک وجود کے بارے میں نہیں، بلکہ ایک شخص اپنے وجود کی تعریف کیسے کرتا ہے، یہی زندگی ہے۔ لہٰذا زندگی کو صرف ایک نقطۂ نظر سے دیکھنا درست نہیں۔

ہم جب سے اس دنیا میں آتے ہیں اس وقت سے لے کر ہمارے اس دنیا سے جانے تک کے دورانیے کو زندگی کا نام دیا جاتا ہے، جس کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے: ماضی، حال اور مستقبل۔ ماضی ایک تجربہ ہے جس سے انسان بہت کچھ سیکھتا ہے۔

گزرا ہوا وقت دوبارہ پلٹ کر نہیں آتا، لیکن وہ یادوں کی صورت ذہن کے گوشے میں محفوظ رہتا ہے۔ آنے والا وقت مستقبل ہے، جس کے بارے میں ہمیں علم نہیں ہوتا۔ حال وقت کی ایک اہم کڑی ہے، جو لمحۂ موجود کا سچ ہے۔ جو سامنے ہے، وہ حقیقت ہے۔ مستقبل کا پودا ہی حال میں پنپتا ہے۔ گویا کہ حال ماضی اور مستقبل سے کسی صورت علیحدہ نہیں ہوسکتا، لیکن حال کی اپنی الگ اہمیت ہے۔

دیکھا گیا ہے کہ ہم حال میں رہتے ہوئے بھی غیر موجود رہتے ہیں۔ کبھی ہم یادِ ماضی کی بھول بھلیوں میں بھٹکتے رہتے ہیں تو کبھی مستقبل کی منصوبہ بندی اور بے جا اندیشوں میں اپنے حال کو ضائع کر رہے ہوتے ہیں، جبکہ حال ہی میں زندگی رواں دواں ہے۔

جو لوگ حال میں رہ کر لمحۂ موجود کو جیتے ہیں وہ زندگی کو زیادہ بہتر انداز میں گزارتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم سیانے انسان کو حال میں جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں، کیونکہ جب ہم اپنے حال میں موجود ہوں گے تو زندگی کے ہر لمحے کا لطف اٹھا سکیں گے اور پھر ہمیں یہ گلہ نہیں ہوگا کہ ہمیں زندگی کو برتنے کے لیے کم وقت ملا۔

ایک کامیاب انسان، جس نے اپنی زندگی میں بہت کچھ حاصل کیا ہو، وہ زندگی کو الگ ڈھنگ سے دیکھتا ہے۔ اس کے بالکل برعکس اگر ہم کسی ناکام اور ناکارہ انسان سے زندگی کے بارے میں پوچھیں تو اس کا نظریہ الگ ہوگا۔

یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ ہر ایک شخص کی زندگی میں کسی نہ کسی چیز کا فقدان ضرور ہوتا ہے، لیکن اس کو محسوس کرتے ہوئے ان چیزوں کی طرف دھیان نہ دینا جو ہمارے پاس موجود ہیں، سراسر بے وقوفی ہے۔ ہماری سب سے بڑی بھول یہ ہوتی ہے کہ جو چیز ہمیں میسر ہوتی ہے، ہم اس کی قدر نہیں کرتے اور جو ہمیں میسر نہیں ہوتی، اس کی آگ میں جلتے رہتے ہیں۔

سب کو سب کچھ نہیں ملتا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جس چیز کے ہم خواہش مند ہوں، وہ دوسروں کو بآسانی دستیاب ہو، اور ایسا بھی ممکن ہے کہ جس کے لیے دوسرے دعائیں کرتے ہوں، وہ چیزیں ہمارے پاس ہوتے ہوئے بھی ہمارے نزدیک ان کی کوئی اہمیت نہ ہو۔

اصل میں انسان کی فطرت ہی ایسی ہے کہ وہ ہمیشہ ان چیزوں کا رونا روتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتیں۔ اگر انسان لاحاصل چیزوں کے لیے رونا چھوڑ کر ان چیزوں کو قبول کرنا سیکھ جائے جو اس کو ملی ہیں، تو زندگی اس قدر دشوار نہ لگے جتنا کہ ہم نے اس کو تسلیم کر رکھا ہے۔

زندگی ایک ایسی ٹرین ہے جو بغیر رکے اپنی پٹری پر رواں رہتی ہے۔ یہ ہر اس مقام پر کچھ وقت کے لیے ٹھہرتی ہے جو دورانِ سفر اس کی راہ میں آتے ہیں۔ کس مقام پر اترنا ہے اور کہاں نہیں، یہ ان مسافروں پر منحصر ہوتا ہے جو ٹرین میں سوار ہوتے ہیں۔

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی مسافر غلط اسٹیشن پر اتر جاتا ہے اور پھر اسے وہیں کھڑے رہنا پڑتا ہے جب تک اگلی ٹرین نہیں آتی، اور ایسا نہیں ہوتا کیونکہ زندگی کی ٹرین ایک دفعہ جس اسٹیشن سے گزرتی ہے دوبارہ اس مقام پر لوٹ کر نہیں آتی۔

وہ بس مسلسل آگے کی طرف گامزن رہتی ہے، اور جو لوگ پیچھے چھوٹ جاتے ہیں، وہ یا تو وہیں رہ جاتے ہیں جہاں ٹرین نے انہیں چھوڑا ہوتا ہے، یا پھر انہیں پیدل ہی اپنا سفر طے کرنا پڑتا ہے، جو کہ بہت دشوار ہوتا ہے۔

مگر عقل مند وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں پتا ہوتا ہے کہ ان کی منزل مقصود کیا ہے اور انہیں کس مقام پر ٹھہرنا ہے۔ کچھ بیچارے مسافر ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو اپنی منزل کا ہی پتا نہیں ہوتا۔ وہ بس ٹرین میں بیٹھے رہتے ہیں اور جہاں جہاں ٹرین انہیں لے جاتی ہے، وہاں وہاں وہ بھی چلے جاتے ہیں، بالکل اس پتنگ کی طرح جو ڈور سے الگ ہو جانے کے بعد ہوا کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔ جس سمت ہوا کا رخ ہوتا ہے، اسی سمت وہ بھی چلتی جاتی ہے، اور اسی طرح لہراتے، ٹھوکر کھاتے آخر میں کسی نامعلوم مقام پر گرتی ہے، اور پھر کوئی بچہ، جو اس کے گرنے کا انتظار کر رہا ہوتا ہے، آتا ہے اور خوشی خوشی اس کٹی پتنگ کو اٹھا لے جاتا ہے۔

اب زندگی میں ہماری حیثیت بھی اسی طرح ہے۔ جب تک ہمیں اپنی منزل کا پتا نہیں ہوگا، ہم اسی طرح لہراتے، ٹھوکریں کھاتے، ادھر اُدھر بھٹکتے رہیں گے، اور آخر میں کسی کی نظر ہو جائیں گے۔ اس لیے یہ ہم کو طے کرنا ہے کہ ہمیں کیا بننا ہے: ایک کٹی پتنگ، جس کے نصیب میں ٹھوکریں ہیں، یا اس پتنگ کی طرح، جو آسمان کی بلندیوں پر پہنچ جاتی ہے اور ایک کٹی ہوئی پتنگ اسے دور سے حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتی رہ جاتی ہے۔

زندگی ایک بہت ہی دلچسپ کتاب ہے۔ اس کتاب کے کچھ صفحات پہلے سے لکھے ہوئے ہوتے ہیں اور کچھ کو ہمیں لکھنا ہوتا ہے۔ لکھے ہوئے صفحات میں تبدیلی کرنے کی قدرت تو ہم نہیں رکھتے، لیکن اس کے علاوہ تمام بقیہ صفحات کو تحریر کرنے کا مکمل اختیار ہمیں حاصل ہوتا ہے۔

ان سب باتوں سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ زندگی کو مکمل خوش دلی اور توجہ کے ساتھ جینا چاہیے۔ جو گزر گیا، اس پر افسوس نہیں کرنا چاہیے، بلکہ اس سے تجربہ حاصل کرنا چاہیے اور آگے کی زندگی کو خوشگوار اور خوبصورت بنانا چاہیے۔

زندگی کے دن ہر کوئی کاٹ لیتا ہے، لیکن زندگی کو بامقصد طریقے سے جینا کمال کی بات ہوتی ہے۔ تاکہ جب آپ کی کتاب کا آخری باب ختم ہو، تو آپ افسوس کرنے کے بجائے رشک کریں، اور جب کوئی آپ کی اس کتاب کو پڑھے، یعنی کہ آپ کی زندگی کا تجزیہ کرے، تو اس کی زبان سے بے ساختہ نکلے:

"واہ! کیا زندگی ہے!"

1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں