✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

تجارت: تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں

عنوان: تجارت: تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں
تحریر: محمد علاء الدین قادری مصباحی بلرام پور

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ [الأحزاب: ۲۱]

ترجمہ کنز الایمان: بے شک تمھیں رسول کی پیروی بہتر ہے۔

جب ہم سیرتِ نبوی کا مطالعہ کرتے ہیں؛ تو یہ بات آفتابِ نیم روز کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ سیرت نبوی انسانی زندگی کے تمام شعبوں مثلاً سیاسی، سماجی، معاشی اور ازدواجی زندگی میں مکمل رہنمائی کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ آپ کی زندگی ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔

ایک کامیاب زندگی گزارنے کی تمام رموز و اسرار آپ کی حیات طیبہ میں پنہاں ہیں۔ جس پر عمل پیرا ہونا دارین میں یقیناً کامیابی کی دلیل ہے۔

جب ہم احادیث کریمہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو تعلیمات نبوی میں تجارت کے حوالے سے ایسے رہنما اصول نظر آتے ہیں جن پر عمل فریقین کے لیے سودمند اور ایک تاجر کے لیے قابل تقلید ہے۔ حصول رزق کے یوں تو بے شمار ذرائع ہیں لیکن ان میں تجارت کا پیشہ بہترین ذریعہ ہے۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خود حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے حصول رزق کا یہ ذریعہ اختیار کیا اور آپ فرماتے ہیں کہ رزق کے دس حصے ہیں اور نو حصے تجارت میں ہیں۔

تجارت کا میدان یوں تو بہت وسیع ہے۔ جس کے ہرہر پہلو پر فقہ و حدیث کی کتابوں میں مکمل گفتگو کی گئی، اور احادیث کی روشنی میں تجارت کے پیچیدہ سے پیچیدہ تر مسائل پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ یہاں ان کا احاطہ مقصود تو نہیں ہے لیکن برحکم امتثال تجارت کی چند بنیادی چیزیں احادیث کریمہ کی روشنی میں ہدیۂ قارئین ہیں۔ تفصیل کے لیے کتب حدیث و فقہ کا مطالعہ ناگزیر ہے۔

(۱)- ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں:

مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُسْتَجْمِعًا قَطُّ ضَاحِكًا حَتَّى أَرَى مِنْهُ لَهَوَاتِهِ، إِنَّمَا كَانَ يَتَبَسَّمُ۔ [بخاری، کتاب الأدب، باب التبسم والضحک، رقم الحدیث: ۶۰۹۲]

ترجمہ: میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پورا ہنستے نہ دیکھا حتی کہ میں آپ کے انتہائی تالو دیکھ لیتی، آپ مسکرایا کرتے تھے۔

ایک تاجر کا خوش مزاج اور ہنس مکھ ہونا انتہائی ضروری ہےپ۔ آنے والے گاہک سے خندہ روئی کے ساتھ پیش آنا اور اس کی مطلوبہ چیز دکھانے میں بالکل بھی ماتھے پر شکن نہ آئے بلکہ مکمل اطمینان کے ساتھ اسے دکھائیں؛ باوجود اس کے اگر اسے پسند نہ آئے اور وہ کچھ لىے بغیر چلا جائے اس وقت بھی صبر و تحمل سے کام لیں۔

ایسا کرنے سے وہ ضرور متأثر ہوگا اور آئندہ اگر اسے کسی چیز کی ضرورت پڑی تو وہ ضرور آپ کے پاس آئے گا اور اس طرح آپ کامیاب ہوتے چلے جائیں گے۔ اس کے بر خلاف اگر ترش روئی اور بداخلاقی کا مظاہرہ کیا جائے تو ناکامی اور بدقسمتی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

(۲)- حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:

ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ. قُلْنَا: مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَقَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا؟ فَقَالَ الْمَنَّانُ، وَالْمُسْبِلُ إِزَارَهُ، وَالْمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالْحَلِفِ الْكَاذِبِ۔ [جامع الترمذي، أبواب البیوع، باب من حلف على سلعة كاذبا، ج: ۱، ص: ۱۴۵]

ترجمہ: تین ایسے شخص ہیں جن کی طرف اللہ تعالیٰ نظر رحمت نہیں فرمائے گا اور نہ ہی ان کو پاکیزہ کرئے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ہم نے عرض کیا کہ یارسول اللہ! وہ کون ہیں؟ ناکام ہوئے اور نقصان سے دوچار ہوئے ۔آپ نے فرمایا: اپنا کپڑا (ٹخنوں سے) نیچے لٹکانےوالا، احسان جتانے والا اور جھوٹی قسم سے اپنے سامان کی مانگ بڑھانے والا۔

ایک تاجر کا راست باز اور امانت دار ہونا ضروری ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر تاجر جھوٹ اور دھوکہ دہی سے کام لےگا تو وقتی طور پر وہ ایک کامیاب انسان تو ہوسکتا ہے؛ لیکن وہ ایک کامیاب تاجر نہیں ہوسکتاہے۔

کیوں کہ جھوٹ اور دھوکہ دہی کا جلد یا بدیر راز افشا ہوجائے گا اور رفتہ رفتہ بد امانتی کی وجہ لوگ وہاں جانا ترک کردیں گے اور مارکیٹ میں ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ تو دنیاوی ذلت و رسوائی ہے اور آخرت کا خسارہ اس پر مستزاد ہے۔

اسی کے ساتھ اللہ کے رسول صلیٰ اللہ تعالی علیہ وسلم نے ایک راست باز اور امانت دار تاجر کی تعریف و توصیف اور اس کا مقام و مرتبہ اور اس کی جدوجہد کو سراہتے ہوئے ایک دوسرے مقام پر یوں ارشاد فرماتے ہیں:

التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ، وَالصِّدِّيقِينَ، وَالشُّهَدَاءِ۔ [جامع الترمذي، أبواب البیوع، ج: ۱، ص: ۱۴۵]

ترجمہ: سچا اور امانت دار تاجر پیغمبروں صدیقوں اور شہیدوں کے ساتھ ہو گا۔

ذہن کے پردے پر یہ سوال ابھر کے آتا ہے کہ بازار میں حصولِ معاش کے لیے کوشاں شخص کیسے قیامت کے دن انبیا، صدیقین اور شہدا کے ہمراہ ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تاجر کا ایک خوبصورت اور کامیاب معاشرہ کی تشکیل میں نہایت ہی اہم کردار ہے‌۔

(۳)- حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

لَا تَشْتَرُوا السَّمَكَ فِي الْمَاءِ فَإِنَّهُ غَرَرٌ۔ [بلوغ المرام، کتاب البیوع، حدیث: ۸۴۲، ص: ۱۶۹]

ترجمہ: مچھلی کی خرید وفروخت پانی کے اندر نہ کرو کیوں کہ اس میں دھوکہ ہے۔

حدیثِ مذکورہ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جن چیزوں میں دھوکہ ہو یعنی مبیع نامعلوم اور غیر متعین ہو تو اس کی بیع جائز نہیں ہے کیوں کہ مبیع مجہول اور غیر متعین ہے جو باعثِ نزع ہے۔ آپ ذرا غور کریں کہ حضور صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ فرمان کتنا واضح اور شاندار ہے۔

(۴)- حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

لَعَنَ رسولُ اللہ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُوكِلَهُ، وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَیْهُ، وَ قالَ: ھُمْ سَواءٌ۔ [بلوغ المرام، کتاب البیوع، رقم الحدیث: ۸۴۹، ص:۱۶۹]

ترجمہ: اللہ کے رسول صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ربا کھانے، کھلانے، اس کو لکھنے والے اور اس پر گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ یہ سب برابر ہیں۔

ہم اور آپ جس معاشرہ میں زندگی گزاررہے ہیں اس میں جہاں بے شمار خرابیاں موجود ہیں وہیں سود جیسے لعنتی گناہ کا بھی بازار گرم ہے۔ ہمارے معاشرہ کی ناکامی اور بدقسمتی میں اس کا بہت اہم کردار ہے۔ پوری پوری قوم اس کی نحوست کا شکار ہے۔ جس سے کوئی ناعاقبت اندیش ہی انکار کرسکتا ہے۔

حضور صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ نے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال پہلے ہی سودی کاروبار حرام کردیا اور ان کے کھانے، کھلانے، لکھنے اور گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی۔

(۵)- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّ عَلَى صُبْرَةٍ مِنْ طَعَامٍ، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِيهَا، فَنَالَتْ أَصَابِعُهُ بَلَلًا، فَقَالَ: يَا صَاحِبَ الطَّعَامِ، مَا هَذَا؟ قَالَ: أَصَابَتْهُ السَّمَاءُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ:أَفَلَا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعَامِ حَتَّى يَرَاهُ النَّاسُ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ غَشَّ فَلَيْسَ مِنَّا۔ [الترمذي، جامع الترمذي، أبواب البیوع، ج: ۱، ص: ۱۵۷]

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا غلہ کے ایک ڈھیر کے پاس سے گزرہوا تو آپ نے اپنا دست مبارک اس میں داخل کیا تو آپ کی انگشت مبارک تر ہو گئی آپ نے فرمایا: غلہ والے! یہ کیا ہے؟ اس نے عرض کیا کہ حضور بارش کے سبب بھیگ گیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ تو نے اسے اوپر کیوں نہیں کیا تاکہ لوگ اسے دیکھ سکیں۔ پھر آپ نے فرمایا: جو دھوکہ دے ہم میں سے نہیں ہے۔

سبحان اللہ! حضور کی باریک بینی اور دور اندیشی کی کیا بات ہے۔ آج بھی لوگ گاہکوں کو اس طرح دھوکہ دیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ اصول تجارت ہی گے منافی ہے کہ دکھائیں کچھ اور دیں کچھ؛ حضور نے فرمایا کہ جو دھوکہ دے وہ ہم سے نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے وہ ہمارے طریقۂ کار پر نہیں ہے۔

(۶)- حضرت انس ابن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ گناہ کبیرہ کے بارے میں حضور سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

الشِّرْكُ بِاللَّهِ، وَعُقُوقُ الْوَالِدَيْنِ، وَقَتْلُ النَّفْسِ، وَقَوْلُ الزُّورِ۔ [جامع ترمذی، أبواب البیوع، ج: ۱، ص: ۱۵۷]

ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، ناجائز طور پر کسی کو قتل کرنا اور جھوٹی بات کہنا (یہ سب گناہ کبیرہ ہیں)۔

آج بھی ایسے لوگ ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ جھوٹ نہ بولیں تو کام نہیں چلتا ہے۔ جھوٹ بولنا ہی پڑتا ہے اور اسے اپنی مجبوری بتاتے ہیں۔

یاد رہے رزق حلال کا حصول فرض ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ رزق حلال طلب کرو اب اگر کوئی اسے اللہ کا حکم سمجھ کر رزق حلال کے طلب میں مشغول ہے تو یہ بھی رضاے الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اور حصول رزق کے ساتھ ساتھ رضاے الٰہی کا حصول یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کیوں کہ بندہ تو بظاہر دنیاداری کررہا ہے۔ لیکن اگر وہ خرید و فرخت میں جھوٹ بول رہا ہے، تو یہ عین رضائے مولیٰ کے خلاف ہے؛ ‌یوں تو جھوٹ کی مذمت میں قرآن و حدیث میں بے شمار آیات و روایات وارد ہیں لیکن بطور خاص خرید و فرخت کے وقت جھوٹ بولنا اس کی سخت ترین وعید آئی ہے، جیسا کہ مذکورہ حدیث میں ہے۔

(۷)- ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں حضور کو فرماتے سنا کہ آپ نے فرمایا:

إِذَا سَبَّبَ اللَّهُ لِأَحَدِكُمْ رِزْقًا مِنْ وَجْهٍ، فَلَا يَدَعْهُ حَتَّى يَتَغَيَّرَ لَهُ، أَوْ يَتَنَكَّرَ لَهُ۔ [سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، حدیث: ۲۱۴۷]

ترجمہ: جب اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کے لیے ایک جہت سے کوئی رزق کھول دے تو اس رزق کو چھوڑے نہیں، یہاں تک کہ اس کے حق میں وہ بدل جائے۔

اس حدیث پاک سے یہ درس ملتا ہے کہ روزی دینے والی اللہ ہی کے ذات ہے۔ بندہ چاہے کتنا ہی ہاتھ پیر مارے، رزق اسی وقت ملے گا اور اسی جگہ سے ملے گا جہاں اللہ تعالیٰ نے مقدر فرمادیا ہے۔ اس لیے اگر ایک جگہ رزق مل رہا ہے تو اسے ٹھکرانا نہیں چاہیے، بلکہ صبر و شکر کا دامن تھامے رہنا چاہیے، اور اللہ تعالیٰ سے بہتری کی دعا کرنی چاہیے۔ لوگوں کو دیکھا گیاہے کہ وہ حرص و طمع کی وجہ سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتے ہیں پھر یہاں بھی ناکامی ہاتھ آتی ہے۔

دعا گو ہوں کہ مولیٰ تعالیٰ ہمیں تعلیماتِ نبوی کا مطالعہ کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیقِ رقیق عطا فرمائے۔

آمین یارب العالمین بجاہ النبي الأمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں