✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

القابات اور علمی مقامات

عنوان: القابات اور علمی مقامات
تحریر: سلمیٰ شاھین امجدی کردار فاطمی

انسانی معاشرے میں علمی اور فکری حیثیت کو نمایاں کرنے کے لیے مختلف القابات استعمال کیے جاتے ہیں۔

یہ القابات کسی کی علمی قابلیت، مہارت، اور تجربے کی علامت ہوتے ہیں، جیسے قاری، قاریہ، مفتی، مفتیہ، عالم، عالمہ، فاضل، فاضلہ وغیرہ۔

تاہم، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ القابات محض نام کے ساتھ لگانے سے حقیقی علم اور مہارت کا ثبوت بن جاتے ہیں یا اصلی علم عملی میدان میں ثابت قدمی اور مہارت سے ظاہر ہوتا ہے؟

القابات کا استعمال اور ان کی حدود

ہر وہ شخص جو کسی خاص علمی یا فقہی مقام پر فائز ہو، وہ اپنے نام کے ساتھ وہ لقب ضرور لگا سکتا ہے/لگا سکتی ہے جو اس کے مرتبے کی ترجمانی کرے۔

ایک قاری یا قاریہ وہ کہلاتا ہے جو تجوید و قراءت میں مہارت رکھتا ہو، مفتی وہ ہوتا ہے جو شرعی مسائل میں اجتہادی بصیرت رکھتا ہو، اور عالم و عالمہ وہ ہوتے ہیں جو علومِ دینیہ میں گہری سمجھ بوجھ حاصل کر چکے ہوں۔

اگر کوئی شخص واقعی ان میں مہارت رکھتا ہے تو اس کے لیے ان القابات کو استعمال کرنا جائز ہی نہیں، بلکہ بعض مواقع پر ضروری بھی ہو سکتا ہے تاکہ لوگ ان کی علمی حیثیت سے واقف ہو سکیں اور ان سے صحیح رہنمائی حاصل کر سکیں۔

لیکن کیا ہر وہ شخص جو ایک خاص دینی تعلیم حاصل کر لیتا ہے، وہ فوراً اپنے نام کے ساتھ یہ القابات لگا لے؟

یہی وہ سوال ہے جس پر ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

القابات اور حقیقی مہارت میں فرق

میرا ذاتی رجحان اس حوالے سے یہ ہے کہ جب تک کوئی شخص کسی فن میں مہارتِ تامہ حاصل نہ کر لے، اسے ان القابات کے استعمال میں محتاط رہنا چاہیے۔

مجھے یاد ہے کہ میری ایک استاذہ، جو عرب دنیا سے تعلق رکھتی ہیں، جن کا نام رانیا الحلبیہ ہے، انہوں نے ایک بار مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ قاریہ ہیں؟

میں نے اثبات میں جواب دیا اور بتایا کہ میں نے ایک سے ڈیڑھ سال کے اندر قراءت مکمل کر لی تھی۔

اس پر انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ سترہ سال سے علمِ قراءت کا مطالعہ کر رہی ہیں، عربی زبان ان کی مادری زبان ہے، اور اس کے باوجود ان کے اساتذہ نے انہیں تاحال "قاریہ" کا لقب دینے سے گریز کیا ہے۔

یہ واقعہ میرے لیے ایک لمحۂ فکریہ بنا۔ میں نے محسوس کیا کہ ہمارے یہاں القابات کو صرف نصاب مکمل کرنے کا نتیجہ سمجھ لیا گیا ہے، جبکہ اصل معیار کسی فن میں کمال حاصل کرنا ہوتا ہے۔

نبی کریم ﷺ کے زمانے میں "قاری" اس شخص کو کہا جاتا تھا جو قرآن کریم کے الفاظ کے ساتھ اس کے معانی، شانِ نزول، اور مضامین پر بھی مکمل عبور رکھتا ہو۔

آج اگر ہم اس معیار کو دیکھیں تو شاید ہم میں سے بہت کم لوگ اس لقب کے صحیح مستحق ہوں گے۔

عملی نمونہ زیادہ مؤثر ہے

میرا نظریہ یہ ہے کہ اگر ہم واقعی کسی علمی درجے پر پہنچ چکے ہیں تو ہمیں اسے اپنے عمل سے ثابت کرنا چاہیے، نہ کہ محض القابات کے ذریعے۔

ایک بہترین معلم، معلمہ، فقیہ، فقہیہ یا قاری، قاریہ وہ ہوتے ہیں جن کے عمل سے ان کے علم کی گواہی ملے، نہ کہ صرف ان کے نام کے ساتھ لکھے گئے کسی لقب سے۔

بے شک، بعض مواقع ایسے ہوتے ہیں جہاں اپنے علمی مقام کو ظاہر کرنا ضروری ہو، جیسے کسی تحقیقی مقالے، فتویٰ، یا علمی مجلس میں۔

لیکن عام طور پر، القابات کو حد سے زیادہ نمایاں کرنا بعض اوقات علم کی حقیقی روح کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے اور محض دکھاوے کا سبب بن جاتا ہے۔

اس لیے دکھاوے سے بچتے ہوئے سنجیدگی سے دینی کام پر توجہ دیں، نہ کہ القابات کی دنیا میں مگن ہو کر حقیقی علم سے بے خبر رہیں۔

اور اپنے امام کا یہ شعر ہمیشہ اپنی نگاہ کے سامنے رکھیں:

بے نشانوں کا نشان مٹتا نہیں

مٹتے مٹتے نام ہو ہی جائے گا

علم ایک امانت ہے، اور اس کی نسبت وہی لوگ اپنے نام کے ساتھ کر سکتے ہیں جو اس کے صحیح حق دار ہوں۔

جو لوگ القابات کو اپنی علمی حیثیت کے اظہار کے لیے استعمال کرتے ہیں، وہ بھی درست عمل کر رہے ہیں، لیکن میں ذاتی طور پر اس بات کو زیادہ پسند کرتی ہوں کہ علم کا اظہار عمل اور مہارت کے ذریعے ہو۔

میرے نزدیک، کسی بھی لقب کو اختیار کرنے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم اپنی علمی ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھائیں، تاکہ معاشرہ ہمارے علم سے حقیقی طور پر مستفید ہو سکے اور ہمیں اپنی علمی حیثیت ثابت کرنے کے لیے کسی اضافی اعلان کی ضرورت نہ پڑے۔

کیوں کہ علم کو ظاہر کرنے کے بجائے اسے عمل میں لانا ہی اصل کامیابی ہے۔

اللہ رب العزت ہم سب کو اس علم کو مکمل ذمہ داری اور امانت داری سے دوسروں تک پہنچانے والے بندوں میں شامل کرے۔

مضمون نگار رضویہ اکیڈمی للبنات ابراہیم پور، ضلع اعظم گڑھ (یوپی) کی فاؤنڈر و صدر المعلمات اور خواتین اصلاح امت ٹیم کی صدر ہیں۔ {alertInfo}

2 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں