✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریاں

عنوان: ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریاں
تحریر: عبد السبحان مصباحی رامپور

مؤمن نہیں مناتے گناہ و بدی کی یاد
ایمان والے کرتے ہیں پاکیزگی کی یاد

اظہارِ عشق کر چکے اپنے نبیﷺ سے جو
کرتے نہیں وہ عشق میں آوارگی کی یاد

تہذیبِ نو ہے جسم و نظر کی برہنگی
جو بے حیا کرتے ہیں بے پردگی کی یاد

دن لَہْو میں کھونا تجھے، شب صبح تک سونا تجھے
شرمِ نبی، خوفِ خدا یہ بھی نہیں، وہ بھی نہیں

ویلنٹائن ڈے کے نام پر بے شمار دوشیزائیں، ماڈرن لڑکیاں اور مغربی کلچر کی دلدادہ عورتیں اپنی عزت و آبرو کا جنازہ نکالنے کی ہمہ تن کوشش و تیاریاں کر رہی ہیں۔ اور یوں اپنے ماں باپ، بھائی، خاندان اور مذہب کی عزت کو تار تار کرنے کا پختہ عزم و ارادہ کر چکی ہیں۔ اس کے تعلق سے ایک چشم کشا تحریر کا ساغر اخلاص آپ کی بارگاہِ محبت میں حاضر ہے۔

اس وقت پوری دنیا میں ویلنٹائن ڈے ایک تہوار کی صورت اختیار کر چکا ہے، جو ہر سال ۱۴ فروری کو بڑی دھوم اور تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔ اس دن شادی شدہ و غیر شادی شدہ جوڑے ایک دوسرے کو پھول اور تحائف دے کر اپنی جھوٹی محبت کا اظہار کرتے ہیں، جس کی غرض و غایت بے حیائی، بے شرمائی، بے پردگی، رقص و سرور اور زنا جیسے خطرناک جرائم کو فروغ دینا ہے۔

اسے ستم ظریفی کہیے کہ ویلنٹائن ڈے کی نحوست میں مسلم لڑکے اور لڑکیاں بھی گرفتار ہو چکی ہیں۔ خاص طور پر کالج و یونیورسٹی میں آزادانہ زندگی گزارنے والے طلبہ و طالبات (اسٹوڈنٹس) اور مغربی تہذیب و تمدن کے دلدادہ ایسے مواقع پر پیش پیش رہتے ہیں۔ ہمیں اغیار سے کیا شکوہ؟ وہ تو قومِ مسلم کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں۔

ہم اپنی اس تحریر کے ذریعے خاص طور پر ویلنٹائن ڈے کے شوقین اپنے مسلمان بھائی بہنوں کو اس کی تباہ کاریوں سے روشناس کرانا چاہتے ہیں۔

تاریخی پس منظر:

ویلنٹائن ڈے ایک ویلنٹائن نامی پوپ سے منسوب ہے، جسے 14 فروری 270 عیسوی کو پھانسی کا حکم دیا گیا تھا۔ عیسائی ابھی بھی اس دن جشن مناتے، برائی و بے حیائی عام کرتے ہیں۔

اس دن پوری دنیا میں سر پھرے عاشق و معشوق (Valentine Day) مناتے ہوئے سرخ پھولوں کا تبادلہ کرتے ہیں۔

اس دوران سرخ لباس زیب تن کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارک باد بھی دیتے ہیں۔ کچھ سرخ رنگ کی مٹھائیوں پر سرخ رنگ کے دل بنا کر پیش کرتے ہیں۔ بے حیائی، بے شرمائی، آوارگی، بدچلنی، زنا کاری، بدکاری، فحاشی، شراب نوشی، رقص اور نغمہ سنجی وغیرہ بے شمار ناجائز و حرام کام خود تو کرتے ہی ہیں، دوسروں کو بھی ان کی ترغیب دیتے ہیں۔

حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ (النور: 19)

ترجمہ کنزالایمان: وہ جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں برا چرچا پھیلے، اُن کے لیے دردناک عذاب ہے دنیا اور آخرت میں۔

تفسیر صراط الجنان میں آیت مذکورہ بالا کے تحت ہے کہ: اشاعت سے مراد تشہیر کرنا اور ظاہر کرنا ہے، جبکہ فاحشہ سے وہ تمام اقوال و افعال مراد ہیں جن کی قباحت بہت زیادہ ہے، اور یہاں آیت میں اصل مراد زنا ہے۔ (روح البیان، النور، تحت الآیۃ: 19، ۶/130، ملخصاً)

البتہ یہ یاد رہے کہ اشاعتِ فاحشہ کے اصل معنیٰ میں بہت وسعت ہے۔ چنانچہ اشاعتِ فاحشہ میں جو چیزیں داخل ہیں، ان میں سے بعض یہ ہیں:

(1)۔۔۔ فحش تصاویر اور ویڈیوز بنانا، بیچنا اور انہیں دیکھنے کے ذرائع مہیا کرنا۔

(2)۔۔۔ ایسے اشتہارات اور سائن بورڈ وغیرہ بنانا اور بنوا کر لگانا، جن میں جنسی عریانی کا سہارا لیا گیا ہو۔

(3)۔۔۔ حیا سوز مناظر پر مشتمل فلمیں اور ڈرامے بنانا، ان کی تشہیر کرنا اور انہیں دیکھنے کی ترغیب دینا۔

(4)۔۔۔ فیشن شو کے نام پر عورت اور حیا سے عاری لباسوں کی نمائش کرکے بے حیائی پھیلانا۔

(5)۔۔۔ ۔زنا کاری کے اڈے چلانا وغیرہ۔

ان تمام کاموں میں مبتلا حضرات کو چاہیے کہ خدارا! اپنے طرزِ عمل پر غور فرمائیں۔ بلکہ بطورِ خاص ان حضرات کو زیادہ غور کرنا چاہیے جو فحاشی و عریانی اور اسلامی روایات و اقدار سے جدا کلچر کو عام کر کے مسلمانوں کے اخلاق اور کردار میں بگاڑ پیدا کر رہے ہیں، اور بے حیائی، فحاشی و عریانی کے خلاف اسلام نے نفرت کی جو دیوار قائم کی ہے، اسے گرانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

زنا کا نیا نام ویلنٹائن ڈے ہے:

ویلنٹائن ڈے ایک غیر اسلامی، ناقابلِ قبول، حیا سوز، آوارگی، زنا کاری، بدکاری، عیاشی و فحاشی اور بے شمار جرائم پر مشتمل ایک گھناؤنا عمل ہے۔ اس دن ہر وہ کام ہوتا ہے جس سے انسانیت بھی شرمسار ہو جائے۔ ویلنٹائن ڈے میں فحاشی کا ایک سمندر نوجوانوں کے دلوں میں ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے۔ اس میں بڑے سے بڑا گناہ کیا جاتا ہے۔

چند سالوں سے اس دن بے پردگی، آوارگی (اخبارات کے ذریعے) عام طور پر دیکھنے، سننے میں آئی ہے۔ بلکہ اس میں وہ سب کچھ ہوتا ہے جو اللہ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت ناپسند ہے۔ حالانکہ اسلام میں جو پردے کا حکم نازل کیا، وہ دراصل گناہوں، بے حیائی اور بد نگاہی سے بچنے کا اہم ذریعہ ہے۔

کیوں کہ بد نگاہی سے بچنا اصل کامیابی ہے۔ زیادہ تر گناہ بد نگاہی کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اس لیے اپنے معاشرے کو ہر قسم کی برائیوں سے، بطورِ خاص زنا کاری و بدکاری سے دور رکھا جائے، تب حیا کا کلچر عام ہوگا۔

عنْ أَبِي أُمَامَةَ البَاهِلِيِّ: أَنَّ فَتًى مِنْ قُرَيْشٍ أَتَى النَّبِيَّ ﷺ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! ائْذَنْ لِي فِي الزِّنَا۔ فَأَقْبَلَ القَوْمُ عَلَيْهِ وَزَجَرُوهُ، فَقَالُوا: مَهْ مَهْ۔ فَقَالَ: ادْنُهْ۔ فَدَنَا مِنْهُ قَرِيبًا۔ فَقَالَ: أَتُحِبُّهُ لِأُمِّكَ؟ قَالَ: لَا وَاللَّهِ، جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ۔ قَالَ: وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِأُمَّهَاتِهِمْ۔ قَالَ: أَفَتُحِبُّهُ لِابْنَتِكَ؟ قَالَ: لَا وَاللَّهِ، يَا رَسُولَ اللَّهِ! جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ۔ قَالَ: وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِبَنَاتِهِمْ۔ قَالَ: أَفَتُحِبُّهُ لِأُخْتِكَ؟ قَالَ: لَا وَاللَّهِ، يَا رَسُولَ اللَّهِ! جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ۔ قَالَ: وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِأَخَوَاتِهِمْ۔ قَالَ: أَتُحِبُّهُ لِعَمَّتِكَ؟ قَالَ: لَا وَاللَّهِ، يَا رَسُولَ اللَّهِ! جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ۔ قَالَ: وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِعَمَّاتِهِمْ۔ قَالَ: أَتُحِبُّهُ لِخَالَتِكَ؟ قَالَ: لَا وَاللَّهِ، يَا رَسُولَ اللَّهِ! جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاكَ۔ قَالَ: وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِخَالَاتِهِمْ۔ قَالَ (أَبُو أُمَامَةَ البَاهِلِيُّ): فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِ، وَقَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَهُ، وَطَهِّرْ قَلْبَهُ، وَحَصِّنْ فَرْجَهُ۔ قَالَ: فَلَمْ يَكُنْ بَعْدَ ذَلِكَ الفَتَى يَلْتَفِتُ إِلَى شَيْءٍ۔ (مجمع الزوائد: 1\135)

ترجمہ: سیدنا امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک قریشی شخص رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر عرض گزار ہوا: اے اللہ کے رسول! مجھے زنا کی اجازت دے دیجیے لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اسے ڈانٹ ڈپٹ کر کہا: رُک جاؤ، رک جاؤ، خاموش ہو جاؤ۔

رسول اکرم ﷺ نے دل آویز تبسّم کے ساتھ ارشاد فرمایا: ذرا قریب آ جاؤ۔ وہ شخص آپ کے قریب آکر بیٹھ گیا۔ محسنِ انسانیت ﷺ نے اس سے فرمایا: کیا تم اس چیز (یعنی زنا کو) اپنی ماں کے لیے پسند کرتے ہو؟ اس نے کہا: مجھے اللہ عزوجل آپ پر قربان کرے، نہیں اللہ کی قسم (میں اپنی ماں کے لیے یہ چیز پسند نہیں کرتا)۔ معراج کے دولہا نے فرمایا: لوگ بھی اپنی ماؤں کے لیے اس (زنا کی گندگی) کو پسند نہیں کرتے۔

پھر فرمایا: کیا تم اپنی بیٹی کے لیے پسند کرو گے؟ اس نے کہا: مجھے اللہ عزوجل آپ پر قربان کرے، نہیں اللہ کی قسم میں اپنی بیٹی کے لیے یہ خباثت پسند نہیں کروں گا۔ سرکارِ کائنات نے فرمایا: اسی طرح لوگ بھی اپنی بیٹیوں کے لیے اس چیز کو ناپسند کرتے ہیں۔ چلو یہ بتاؤ کہ کیا تم اسے اپنی بہن کے لیے پسند کرو گے؟

اس نے کہا: اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کر دے، نہیں بالکل بھی نہیں، اللہ کی قسم نہیں۔ نبی کونین ﷺ نے فرمایا: لوگ بھی اس چیز کو اپنی بہنوں کے لیے ناپسند کرتے ہیں۔

اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تم اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند کرو گے؟ اس نے کہا: میں آپ پر قربان جاؤں، نہیں خدا کی قسم نہیں۔ آپ نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی پھوپھیوں کے لیے ناپسند کرتے ہیں۔ (اچھا یہ بتاؤ کہ) کیا تم اسے اپنی خالہ کے لیے پسند کرو گے؟ اس نے کہا: میں آپ پر قربان جاؤں، نہیں (خدا کی قسم) نہیں۔

آپ نے فرمایا: لوگ بھی اس چیز کو اپنی خالاؤں کے لیے ناپسند کرتے ہیں۔ پھر رسول اکرم ﷺ نے اس نو جوان پر اپنا دستِ مبارک رکھا اور یہ دعا فرمائی کہ: اے اللہ تعالیٰ! اس کے گناہ بخش دے، اور اس کے دل کو پاک و صاف کر، اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما۔ حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد وہ نو جوان کسی ایسی چیز کی طرف مائل و متوجہ نہیں ہوتا تھا۔ (مجمع الزوائد، امام ہیثمی)

ویلنٹائن ڈے اور زناکاری و بدکاری:

رسول اکرم ﷺ نے زنا کاری و بدکاری کے نقصانات سے امت کو آگاہ فرمایا اور کثرتِ اموات، عام عذابِ الٰہی اور طاعون جیسی مہلک بیماریوں کا سبب زنا کو بتایا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا:

(1)۔۔۔ لا تزالُ أمَّتي بخيرٍ ما لم يفْشِ فيه الزِّنا، فإذا فشا فيهم الزِّنا فأوشك أن يعُمَّهم اللهُ بعذابٍ (الزواجر للهيتمی: 2/134)

بروایت انس بن مالک رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت ہمیشہ بھلائی پر قائم رہے گی جب تک اس میں زنا عام نہ ہو۔ جب زنا عام ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عام عذاب میں مبتلا کردے گا۔

(2)۔۔۔ ولا فَشا الزِّنا في قومٍ قطُّ إلّا كثُرَ فيهمُ الموتُ (فتح الباري لابن حجر: 10/20)

جب کسی قوم میں زنا عام ہو جاتا ہے تو ان میں مَوت کی کثرت ہو جاتی ہے۔

(3)۔۔۔ لم تَظْهرِ الفاحِشةُ في قومٍ قطُّ حتى يُعلِنُوا بِها؛ إلا فَشا فِيهمُ الطاعونُ والأَوجاعُ التِي لم تكنْ مَضتْ في أسلافِهم الَّذين مَضَوا (سنن ابن ماجه: كِتَابُ الْفِتَنِ، بابٌ: الْعُقُوبَاتُ، حدیث نمبر: 4019)

جس قوم میں زناکاری، بدکاری پھیل جاتی ہے اور بلا روک ٹوک ہونے لگتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو طاعون کی مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے اور ایسے دکھ درد میں مبتلا کر دیتا ہے جس سے ان کے اسلاف نا آشنا تھے۔ انہیں ایسی بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے جو گزشتہ لوگوں کو نہیں ہوئیں۔

(4)۔۔۔ تَبِيتُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى أَكْلٍ وَشُرْبٍ، وَلَهْوٍ وَلَعِبٍ، ثُمَّ يُصْبِحُونَ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ، وَيُبْعَثُ عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ أَحْيَائِهِمْ رِيحٌ، فَتَنْسِفُهُمْ كَمَا نَسَفَتْ مَنْ كَانَ قَبْلَهُمْ ؛ بِاسْتِحْلَالِهِمُ الْخُمُورَ، وَضَرْبِهِمْ بِالدُّفُوفِ، وَاتِّخَاذِهِمُ الْقَيْنَاتِ“ (مسند أحمد: مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ: حَدِيثُ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، حدیث نمبر: 22231)

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ میری امت کے ایک گروہ کی رات کھانے پینے اور کھیل کود میں گزرے گی اور وہ صبح کو بندر اور خنزیر (سور) ہو جائیں گے۔ اور ان کے زندہ رہنے والوں پر ایک ہوا بھیجی جائے گی تو وہ انہیں جڑ سے اکھاڑ پھینکے گی جیسے ان سے پہلے لوگوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے شراب کو حلال ٹھہرایا، طبلہ بازی کی اور گانے والی عورتوں کے ساتھ راتیں رنگین کیں۔

دن لَہْو میں کھونا تجھے، شب صبح تک سونا تجھے

شرمِ نبی، خوفِ خدا، یہ بھی نہیں، وہ بھی نہیں

حضرت سلیمان بن یسار رحمہ اللہ مشہور و معروف محدثِ جلیل ہیں۔ ایک مرتبہ حج کے سفر پر روانہ ہوئے تو جنگل میں ایک جگہ پڑاؤ ڈالا۔ آپ کے ساتھی کسی کام سے شہر گئے تو آپ اپنے خیمے میں اکیلے تھے۔ اتنے میں ایک خوبصورت عورت آپ کے خیمے میں آئی اور کچھ مانگنے کا اشارہ کیا۔ آپ نے اس کو کچھ کھانا دینا چاہا تو اس نے برملا کہا: میں آپ سے وہ چاہتی ہوں جو جوان عورت ایک مرد سے چاہتی ہے۔

حضرت سلیمان بن یسار رحمہ اللہ نے یہ سنا تو سمجھ گئے کہ شیطان نے میری عمر بھر کی محنت ضائع کرنے کے لیے اس عورت کو بھیجا ہے۔ وہ خوفِ خداوندی سے اتنا روئے، اتنا روئے کہ وہ عورت شرمندہ ہو کر چلی گئی۔ حضرت سلیمان بن یسار نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس مصیبت سے جان چھوٹی۔ رات کو سوئے تو حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام کی خواب میں زیارت ہوئی۔ حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا: مبارکباد ہو! تم نے ولی ہو کر وہ کام کر دکھایا جو ایک نبی نے کیا تھا۔ (حیاء اور پاکدامنی، ص: 30)

ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریوں پر ایک نظر

یہ وہ دن ہے جس میں دنیا کا سب سے بُرا نشہ کیا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جس میں کھلم کھلا زنا کے اڈے سجائے جاتے ہیں۔ یہی وہ دن ہے جس میں پہلی بار بہت سے نوجوان شرابی، چرسی اور زانی تک بن جاتے ہیں۔

یہ وہی دن ہے جس میں بہت سی لڑکیوں، دوشیزاؤں کی عزتوں سے کھیلا جاتا ہے۔ اس دن بے حیائی کھلے عام کی جاتی ہے۔ یہ وہی دن ہے جس میں ہر وہ گناہ کیا جاتا ہے جسے اسلام نے منع کیا ہے۔

اس دن نائٹ کلبوں میں فاحشہ و بدکار عورتوں کے پیروں تَلے بہت سے شریفوں کی پگڑی پڑی ہوتی ہے۔

اس دن بہت سی باپردہ عورتوں، لڑکیوں کو بے پردہ کیا جاتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے کی تباہ کاریاں بے شمار ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب مسلمانوں کو اسلامی اقدار و روایات کی سمجھ عطا فرمائے اور شریعتِ طاہرہ پر بحسن و خوبی زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین بجاہِ حبیبہِ النبی الأمین الکریم، و بجاہِ آلہِ الکرام و أصحابہِ العظام، لاسیما الخلفاء الراشدین المہدیین، علیہ و علیہم أفضل الصلوٰۃ و أکرم التسلیم۔

مضمون نگار جامعہ صمدیہ دارالخیر پھپھوند شریف کے استاد ہیں۔ {alertInfo}

1 تبصرے

  1. ما شاء بہترین انداز میں قرآن و حدیث کی روشنی میں بے حیائی کی حرمت بیان کی گئی ہے ۔

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں