عنوان: | والدین کے لیے ایصال ثواب |
---|---|
تحریر: | مفتی ضمیم احمد مصباحی |
ماں باپ کے لئے دسواں، بیسواں، چالیسواں کرنا، سالانہ فاتحہ کا اہتمام کرنا اور ایصال ثواب کے رائج اور مشہور طریقے اپنانا کار خیر اور امر مستحسن ہے کہ وہ اللہ ورسول جل وعلا وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کے بعد ہمارے سب سے بڑے محسن اور خیر خواہ ہیں۔
لیکن کیا اتنا ہی کرنا ہمیں کفایت کرے گا تو جواب یہ ہے کہ نہیں اور ہرگز نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ ہے جو ہمارے لئے ضروری ہے، اور حسب بیان علمائے ربانیین وہ امور یہ ہیں۔
طاقت بھر صدقہ وخیرات اور اعمال صالحہ کا ثواب انہیں پہنچاتے رہنا، اپنی نماز کے ساتھ ان کے لئے نمازیں پڑھنا، اپنے روزوں کے ساتھ ان کے لئے بھی روزے رکھنا بلکہ جو بھی نیک کام کرے سب کا ثواب انہیں پہنچاناکہ انہیں ثواب پہنچے گا اور اس کے ثواب میں کمی نہیں ہوگی، بلکہ بہت ترقیاں پائے گا۔
ان پر کوئی قرض رہ گیا ہو تو اسے ادا کرنے کے لئے خود کوشش کرنا اور خود سے نہ ہوسکے تو اپنے عزیزوں، رشتہ داروں اور دوستوں سے مدد لینا۔
ان پر نماز ، روزہ ، حج وزکوۃ وغیرہ کا مطالبہ رہ گیا ہو تو ان کی طرف سے ادا کرنا یا کفارہ دینا۔
ان کی جائز وصیت شرعیہ کو نافذ کرنے کی کوشش کرنا بلکہ جس کی ادائیگی شرعاً لازم نہ ہو اگرچہ نفس پر بار ہو مثلاً وہ اپنے کسی عزیز غیر وارث یا کسی اجنبی کے لئے نصف جائیداد کی وصیت کر گئے تو اگرچہ شرعاً تہائی مال سے زیادہ کی وصیت بے اجازت وارثان نافذ نہیں مگر اولاد کے لئے مناسب یہی ہے کہ ان کی وصیت مانیں اور ان کی خوشی پوری کرنے کو اپنی خوشی اور خواہش پر مقدم جانیں۔
ہر جمعہ کو زیارت قبور کے لئے جانا وہاں یسین شریف اتنی آواز سے پڑھنا کہ وہ سنیں اور اس کا ثواب ان کی روح کو پہنچانا، آنے جانے میں ان کی قبریں پڑیں تو بے سلام وفاتحہ نہ گزرنا۔
ایک خاص بات جدھر شاید ہماری توجہ نہیں ہو پاتی وہ یہ ہے کہ تقریری یا تحریری طور پر کبھی کسی کے ماں باپ کو برا بھلا کہہ کر جواب میں انہیں برا بھلا نہ کہلوانا، ہاں بات دشمن خدا ومصطفی عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلّم کی ہو تو ان پر اپنی اور اپنے آباؤاجداد کی عزتیں قربان کردینا۔
اور سب سے بڑا، سب سے سخت، سب سے عام اور ہمیشہ جاری اور ساری رہنے والا حق یہ ہے کہ کبھی کوئی گناہ کرکے انہیں قبر میں رنج نہ پہنچاناکہ اولاد کے سب اچھے برے اعمال کی خبر ماں باپ کو پہنچتی ہے۔
جب وہ نیکیاں دیکھتے ہیں تو خوش ہوتے ہیں اور ان کے چہرے خوشی اور مسرت سے دمکنے لگتے ہیں اور جب برائیاں دیکھتے ہیں تو رنجیدہ ہوتے ہیں، ان کے قلب پر صدمہ پہنچتا ہے، ماں باپ کا حق یہ نہیں ہے کہ قبر میں بھی انہیں رنجیدہ کیا جائے۔
اللہ عزوجل غفور و رحیم عزیزوکریم اپنے حبیب رؤف ورحیم علیہ وعلیٰ آلہ افضل الصلاۃ والتسلیم کے صدقہ وطفیل ہم سب مسلمانوں کو نیکیوں کی توفیق بخشے گناہوں سے بچائے ،ہمارے بڑوں کی قبروں میں ہمیشہ نور وسرور پہنچائے کہ وہ قادر ہے اور ہم عاجز، وہ غنی ہے۔
حسبنا اللہ ونعم الوکیل ونعم المولیٰ ونعم النصیر ولاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم وصلی اللہ تعالیٰ علی الشفیع الغفور الکریم الرؤف الرحیم سیدنا محمد وآلہ وصحبہ اجمعین آمین والحمدللہ رب العالمین۔
اِن شاء اللہ تعالیٰ
جواب دیںحذف کریں