✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

عقیدہ ختم نبوت ﷺ کی حساسیت

image by munna graphics
عنوان: عقیدہ ختم نبوت ﷺ کی حساسیت
تحریر: زرنین آرزو قادریہ

ختمِ نبوت قرآن و حدیث کی روشنی میں:

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ وَ كَانَ اللّٰہُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا (الأحزاب، 40)

ترجمہ کنز الایمان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے، اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

أَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ لَا نَبِیَّ بَعْدِی [الترمذي، جامع الترمذي رقم الحديث: 226]

ترجمہ: میں آخری نبی ہوں، میرے بعد کوئی نہیں۔

فتحِ بابِ نبوت پہ بے حد درود

ختمِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام

عقیدہ ختمِ نبوت:

جس طرح اللہ رب العزت خالق و مالک ہونے میں یکتا ہے، اسی طرح حضور تاجدارِ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہونے میں یکتا ہیں۔

حضور آقا صلی اللہ علیہ وسلم خلقت کے اعتبار سے اوّل اور بعثت کے اعتبار سے آخر ہیں، بس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوّت کا سلسلہ جو حضرت آدم علیہ السلام سے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہم السلام تک چلتا آ رہا تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو چکا۔ اب نبوّت کا دروازہ بند ہو چکا، اب کوئی نبی نہیں آئے گا۔

عقیدہ ختمِ نبوت کی اہمیت:

عقیدہ ختمِ نبوت دین اسلام کا بہت اہم اور حساس مسئلہ ہے۔ اس کی حساسیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم میں اس عقیدہ کے متعلق تقریباً 100 آیاتِ کریمہ نازل ہوئیں اور تقریباً 210 احادیث مبارکہ سے عقیدہ ختمِ نبوت ثابت ہے۔ (تحریکِ تحفّظ ختمِ نبوّت ،ص 74، ترتیب و تحقیق محمد احمد ترازی)

عقیدہ ختمِ نبوت اسلامی عقائد میں مرکزی اور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ عقیدہ ضروریات دین میں سے ہے۔ اگر کوئی شخص اسلام کے تمام عقائد کو مانتا ہو، نماز روزہ کا پابند ہو لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ختمِ نبوت میں ذرہ بھر بھی شک و شبہ رکھے، تو وہ ہرگز ہرگز مسلمان نہیں ہو سکتا۔ 1400 سال کی تاریخ میں آج تک پوری اُمّت اس مسئلے میں متّفق رہی ہے۔

اس عقیدے میں کبھی کوئی اختلاف نہیں ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ اب کسی بھی نئے نبی کے آنے کو کوئی شخص گمان بھی کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے اور کوئی جھوٹی نبوّت کا دعویٰ کرے تو وہ کافر ہے، زندیق ہے، کذاب ہے، دجال ہے۔

نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ کوئی نیا نبی آئے گا، بلکہ وہ بھی دین اسلام کی تبلیغ کے لیے تشریف لائیں گے۔

صحابہ کرام علیہم اجمعین نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانا ہے اور ہم بھی مانتے اور جانتے ہیں۔ اب اگر کوئی شخص اس مفہوم کا انکار کرے یا اس میں کسی بھی طرح کی کوئی تحریف کرے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

ختمِ نبوت اور اقوالِ اولیاء

امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

اگر کوئی شخص کسی جھوٹے مدّعی ختمِ نبوت سے نشانی مانگے تو وہ کافر ہو جائے گا کیونکہ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں کو جھٹلا دیا ہے۔ (خیرات الاحسان، الفصل امام الحادی، ص 119)

امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نبوّت ملنے کا قائل ہو، وہ کافر و مرتد ہے۔ (اعلیٰ حضرت، فتاویٰ رضویہ، ج 5، ص 336)

امام زین الدین رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

اگر کوئی شخص نہ پہچانے کہ حضور تاجدارِ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم انبیاء کرام علیہم السلام میں آخری نبی ہیں، تو وہ شخص مسلمان نہیں، کیونکہ یہ مسئلہ ضروریات دین سے ہے۔ (مفتی ضیاء احمد قادری، اذان یمامہ، ص 111، صراط پبلیکیشنز)

ہمارے اسلاف کے مندرجہ بالا تمام اقوال سے ثابت ہوتا ہے کہ عقیدہ ختمِ نبوت کتنا حساس مسئلہ ہے اور اس کی دین اسلام میں کتنی اہمیت و ضرورت ہے۔

یہ مسئلہ اتنا اہم کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کی بات آئی اور مسیلمہ کذاب 20 ہزار کا لشکر لے کر آیا، تو اس وقت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے وعظ و نصیحت نہیں فرمایا، بلکہ اس وقت اپنا بنایا ہوا قانون کہ بدری صحابہ کرام جنگ میں شامل نہیں ہوں گے خود توڑا اور فرمایا بدری ہوں یا غیر بدری، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کے لیے سب جنگِ یمامہ چلیں۔ پھر تمام صحابہ کرام علیہم اجمعین نے سیدنا خالد بن ولید کی قیادت میں جنگ میں شرکت فرمائی، اور مسیلمہ کذاب سمیت اس کے ۲۸ہزار پیروکار کو جہنم واصل کیا اور 1200 صحابہ کرام علیہم اجمعین نے جامِ شہادت نوش فرمایا، جس میں 700 حافظ قرآن تھے۔ (تحریکِ تحفّظ ختمِ نبوّت ،ص ۷۷، ترتیب و تحقیق محمد احمد ترازی)

اتنی قربانیاں کسی مسئلے میں نہیں دی گئیں جتنی تحفظ ختمِ نبوت کے لیے ہمارے اسلاف نے دی ہیں۔ اس سے اس کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ دین اسلام میں اتنی شہادت اور کسی جنگ میں نہیں ہوئی جتنی جنگِ یمامہ میں ہوئی۔

عقیدہ ختمِ نبوت دین کی روح ہے، اُمّت کا اتحاد اسی عقیدہ پر قائم ہے۔

یہ عقیدہ اتنا اہم و ضروری اور حساس ہے کہ اس کی گواہی خود رب العالمین اللہ تعالیٰ، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، زمین و آسمان کے تمام فرشتے، حتیٰ کہ ہر شے نے اس کی گواہی اپنی اپنی زبان میں دی ہے۔

عقیدہ ختمِ نبوت کے سب سے پہلے محافظ افضل البشر بعد الانبیاء سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور اُن کے ساتھی صحابہ کرام علیہم اجمعین ہیں۔

یہ عقیدہ بہت اہم و ضروری ہے، اسی پر دین اسلام کی بنیاد کھڑی ہے۔ اگر یہ عقیدہ محفوظ ہے تو دین محفوظ ہے، ورنہ اس کے بغیر دین نہ تو محفوظ ہے اور نہ ہی مکمل۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کے مقابلے میں کسی کی کوئی حیثیت نہیں۔ مرزا قادیانی کافر ہے، زندیق ہے، کذاب ہے اور اس کے ماننے والے بھی کافر ہیں، اور ان تمام کے کفر میں شک کرنے والے ان سب کو مسلمان ماننے والے سب کافر ہیں، دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔ (منکرِ ختمِ نبوت فتاویٰ رضویہ کی روشنی میں ،ص 33،دار الرضا)

کرنے زندہ یمامہ کے پیغام کو

ہم مچائیں گے ختمِ نبوت کی دھوم

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں