عنوان: | اسلامی تشخص اور داعیانِ حق نشانے پر! |
---|---|
تحریر: | محمد عارف مصباحی الخیرآبادی |
دو معصوم طلبہ کے ساتھ جو افسوسناک حادثہ پیش آیا، اس پر ابھی تک کسی بھی تنظیم یا ادارے کی طرف سے کوئی مؤثر کارروائی دیکھنے یا سننے میں نہیں آئی۔ اس کے برعکس، مختلف شخصیات اور علمائے کرام کی جانب سے لباس اور مذہبی تشخص کو بدلنے کی تجاویز ضرور نظروں سے گزریں۔
یہ حادثہ کئی پہلوؤں سے قابلِ غور ہے۔
پہلا امکان: یہ کہ گاڑی کا ڈرائیور شراب کے نشے میں دھت تھا اور نشے کی حالت میں حادثہ رونما ہوا۔ لیکن اس مفروضے کی کم ہی گنجائش ہے، کیونکہ اگر ڈرائیور نشے میں ہوتا تو گاڑی بےقابو ہو جاتی، کسی اور سمت جا سکتی تھی، یا حادثے کے بعد بے ترتیب طریقے سے آگے بڑھتی۔ لیکن یہاں معاملہ مختلف ہے گاڑی تھوڑی دیر کے لیے رکی، اپنی پوزیشن سنبھالی اور پھر آگے بڑھ گئی۔
دوسرا امکان: یہ کہ گاڑی کی بریک فیل ہو گئی ہو اور ڈرائیور کنٹرول نہ کر پایا ہو۔ یہ بھی بعید از قیاس ہے، کیونکہ اگر بریک فیل ہوتی تو گاڑی کسی اور طرف بھی جا سکتی تھی، اور حادثے کے بعد اس کا خود کسی اور رکاوٹ سے ٹکرا جانا زیادہ متوقع تھا۔
لیکن یہاں ڈرائیور حادثے کے بعد گاڑی کی رفتار دھیمی کرتا ہے، پھر سنبھل کر آگے بڑھ جاتا ہے۔ یہ تمام پہلو واضح کرتے ہیں کہ معاملہ کسی عام ٹریفک حادثے کا نہیں، بلکہ جان بوجھ کر کیا گیا ایک عمل ہے، جسے CCTV کیمروں کی مدد سے باآسانی ثابت کیا جا سکتا ہے۔
حادثہ یا سوچی سمجھی شرارت؟ وڈیو شواہد دیکھنے کے بعد یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ ڈرائیور نے جان بوجھ کر ایسا کیا۔ عملی طور پر، اکثر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ڈرائیور بعض اوقات کرایہ طے نہ ہونے، یا مخصوص مسافروں کو نہ بٹھانے پر مشتعل ہو جاتے ہیں اور انتقامی کارروائی پر اتر آتے ہیں۔ اگر اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے، وکلاء کی ایک مضبوط ٹیم جائے وقوعہ کا دورہ کرے اور قانونی چارہ جوئی کے تمام مراحل مکمل کیے جائیں، تو یقیناً ان معصوم طلبہ کو انصاف مل سکتا ہے۔
لباس پر بحث:
اصل مسئلہ کیا ہے؟ اس حادثے کے بعد سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع پر مختلف تجاویز سامنے آرہی ہیں، جن میں سے کچھ اہم شخصیات کا کہنا ہے کہ سفر کے دوران اسلامی لباس تبدیل کر لینا چاہیے تاکہ یہ ظاہر نہ ہو کہ آپ دین کے داعی ہیں۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر آج ہم اپنے لباس سے دستبردار ہو جائیں گے، تو کل کن چیزوں سے دستبردار ہوں گے؟
کیا واقعی ان لوگوں کو ہمارا لباس کھٹک رہا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے نزدیک اصل مسئلہ ہمارا لباس نہیں، بلکہ ہمارا عبداللہ ہونا ہے!
یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیں ہر میدان میں نشانہ بنا رہے ہیں: لباس پر اعتراض، اسلامی لباس، داڑھی، ٹوپی، حجاب اور برقعے پر تنقید، لاؤڈ اسپیکر پر اذان دینے پر شکایات۔ نماز پر اعتراض، سڑکوں یا عوامی مقامات پر نماز ادا کرنے پر اعتراض۔ مدارس پر اعتراض، نصابِ تعلیم، اردو زبان اور مدارس کے وجود پر سوالات۔
روزے پر اعتراض، ملازمتوں اور امتحانات کے دوران روزہ رکھنے پر تکلیف۔ نئی مساجد کی تعمیر پر رکاوٹیں اور قدیم مساجد پر قبضے کی کوششیں۔ قربانی پر اعتراض، بقر عید پر جانوروں کی قربانی کو ماحولیات یا جانوروں کے حقوق سے جوڑنا۔
اسلامی ناموں پر اعتراض، عبداللہ، محمد، فاطمہ جیسے ناموں پر طنز و تعصب۔ اسلامی تہواروں پر اعتراض، عید و دیگر اسلامی مواقع پر خوشیوں کے اظہار کو شدت پسندی سے جوڑنا۔
نکاح و طلاق پر اعتراض، اسلامی نکاح و طلاق کے قوانین کو نشانہ بنانا۔ سیاسی و سماجی سرگرمیوں پر اعتراض، مسلمانوں کی قیادت، سیاسی شعور اور ترقی میں شمولیت کو محدود کرنے کی کوشش۔ تجارتی سرگرمیوں پر اعتراض، مسلم تاجروں، دکانداروں اور کاروباروں کے بائیکاٹ کی مہمیں۔
تعلیمی ترقی پر اعتراض، مسلم طلبہ کو اسکالرشپ، مخصوص نشستوں اور تعلیمی سہولیات سے محروم کرنے کی کوشش۔ سفر پر اعتراض، مسلم مسافروں کی شناخت پر سوال، ہوائی سفر اور دیگر سفری سہولیات میں تفریق۔ قومی و سماجی امور میں شرکت پر اعتراض، کسی بھی اجتماعی یا رفاہی سرگرمی میں مسلمانوں کی شمولیت پر شکوک و شبہات۔
حلال خوراک پر اعتراض، حلال گوشت اور اسلامی ذبیحہ پر بے بنیاد تنقید۔ دینی و تبلیغی کاموں پر اعتراض، تبلیغی جماعت اور دیگر دینی اجتماعات کو شدت پسندی سے جوڑنا۔ مسلم علاقوں پر اعتراض، مسلم اکثریتی علاقوں کو دہشت گردی یا شدت پسندی سے جوڑنا۔ مسلمانوں کے طرزِ زندگی پر اعتراض، شادی بیاہ، رسوم و رواج، خاندانی نظام اور ثقافتی پہچان پر نکتہ چینی۔ مسلم نوجوانوں پر اعتراض، مذہبی رجحان رکھنے والے نوجوانوں کو شدت پسند بنا کر پیش کرنا۔
حتیٰ کہ آج ہی سدھارتھ نگر کے ایک مدرسے کی چھت پر ایک شدت پسند زعفرانی پرچم لہرا رہا تھا، اورکہا جا رہا ہے کہ خاموش رہیں!
یہی وہ لمحۂ فکریہ ہے جہاں ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کب تک مصلحت کے نام پر اپنے شعائر اسلامی سے سودا کرتے رہیں گے؟ ہم کب تک اپنی مذہبی شناخت کو مٹاتے رہیں گے؟
ہم جمہوری ملک میں رہتے ہیں!
ہندوستانی آئین ہمیں اپنے مذہبی تشخص کو برقرار رکھنے، اور اپنے مذہب پر آزادی کے ساتھ عمل کرنے کی مکمل اجازت دیتا ہے۔
لیکن وقت کے تھپیڑوں نے، اور کچھ ہماری اپنی کوتاہیوں نے، ہمیں ایک ایسی آزمائش میں ڈال دیا ہے جہاں ہمیں شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ اس وقت خوابِ غفلت سے جاگنے، اپنی ذاتی دنیا سے باہر نکلنے، اور پوری امت کے لیے سوچنے کا وقت ہے۔
یہ وقت صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچنے کا نہیں، بلکہ پوری ملت کے لیے جینے اور کام کرنے کا ہے۔ یہ وقت اختلافات ختم کر کے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرنے کا ہے، یہ وقت ظلم و جبر کے خلاف ایک مضبوط اور متحد آواز بلند کرنے کا ہے۔
اور ہاں! مصلحت ضرور اپنائی جائے، مگر یاد رکھیں کہ مصلحت اسی وقت کارگر ہوتی ہے جب اس کے پیچھے ایک مضبوط حکمت عملی ہو۔ لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ مصلحت کا نعرہ لگا کر غفلت کی نیند سو جاتے ہیں، اور پھر جب آنکھ کھلتی ہے تو معاملہ ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔
کچھ احتیاطی تدابیر:
طلبہ کبھی بھی تنہا سفر نہ کریں۔
سرپرست حضرات کو چاہیے کہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور موجودہ حالات کے پیش نظر انہیں تنہا نہ چھوڑیں۔
مدارسِ اسلامیہ کے منتظمین طلبہ کو ہرگز اکیلے سفر نہ کرنے دیں، خصوصاً کم عمر طلبہ کے معاملے میں سختی برتی جائے۔
دورانِ سفر طلبہ غیر ضروری بحث و مباحثے سے مکمل اجتناب کریں، اور صبر و سکون کا مظاہرہ کریں۔
بعض طلبہ دورانِ سفر ایسی حرکات کرتے ہیں جو ان کے دینی تشخص کے منافی ہوتی ہیں، ان باتوں سے پرہیز کیا جائے۔
کوشش کریں کہ اے سی اور سلیپر بسوں کا استعمال کریں، اور ہمیشہ اجتماعیت کی شکل میں سفر کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں بہترین تدبیر کے ساتھ آگے بڑھنے، ملت کے بکھرے شیرازے کو جوڑنے، اور مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنے کی توفیق عطا فرمائے۔