✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

شمع ہدایت کی کرن

عنوان: شمع ہدایت کی کرن
تحریر: محمد عارف مصباحی الخیرآبادی

یونیورسٹی کی پرشکوہ عمارت میں دینیات کے لیکچر کا اختتام ہوا تو عبداللہ کے ذہن میں خیالات کا طوفان برپا تھا۔ درسِ فقہ کے دوران پروفیسر نے جس علمی شخصیت کا ذکر کیا تھا، وہ کوئی عام عالم نہیں بلکہ علومِ دینیہ کے آفتاب، فقہ اسلامی کے بحرِ بیکراں اور تحقیق و تدقیق کے شہسوار تھے— سراج الفقہاء مفتی نظام الدین مصباحی دامت برکاتہم العالیہ!

عبداللہ، جو ایک علمی خانوادے سے تعلق رکھتا تھا، جہاں اس کے بڑے بھائی عالم و فاضل اور مبلغ و مفتی تھے، حیران تھا کہ اس بلند پایہ شخصیت سے وہ پہلے کیوں ناواقف رہا؟ دل میں ایک انجانی بے قراری جاگی، علم کی پیاس مزید شدت اختیار کر گئی۔ اس کے ذہن میں ایک ہی نام گونج رہا تھا— سراج الفقہاء!

وہ مزید تفصیلات جاننا چاہتا تھا۔ اسے فوراً اپنے محمد بھائی یاد آئے، جو نہ صرف جامعہ اشرفیہ مبارکپور کے فاضل تھے بلکہ سراج الفقہاء کے براہِ راست شاگرد بھی۔

اس نے جھٹ سے فون نکالا اور محمد بھائی کے نمبر پر کال ملائی! کال اٹھتے ہی:

محمد بھائی: السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ! عبداللہ بھائی، خیریت تو ہے؟ آج کیسے یاد کیا؟
عبد اللہ: وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ! محمد بھائی، میں ابھی دینیات کا لیکچر سن کر آیا ہوں، اور دل میں ایک اضطراب سا ہے۔
محمد بھائی: خیریت؟ کیا ہوا؟
عبداللہ: پروفیسر صاحب آج ایک ایسی علمی شخصیت کا ذکر کر رہے تھے جنہیں سن کر میرے دل میں بے حد اشتیاق پیدا ہوگیا۔ وہ فرما رہے تھے کہ اس عہد میں اگر فقہ کی کوئی درخشندہ شخصیت ہے تو وہ مفتی نظام الدین مصباحی ہیں۔ میں نے آپ کا ذکر کیا اور انہیں بتایا کہ آپ کو حضرت سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔ مجھے بتائیے، آخر کون ہیں سراج الفقہاء؟
محمد بھائی: عبداللہ! تم نے جو سنا، وہ بالکل درست ہے بلکہ حقیقت اس سے کہیں زیادہ بلند و بالا ہے۔
عبداللہ: محمد بھائی! مجھے سب کچھ بتائیے، میں پورے انہماک سے سن رہا ہوں۔
محمد بھائی: عبداللہ! یہ کوئی معمولی شخصیت نہیں، بلکہ وہ آفتابِ علم ہیں جس کی روشنی نے نہ صرف برصغیر بلکہ دنیا بھر کے علمی افق کو منور کر رکھا ہے۔
آپ کی علمی جلالت، فقہی بصیرت اور تحقیقی مزاج کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ازل ہی میں اللہ نے انہیں فقہ کی خدمت کے لیے منتخب کر لیا تھا۔ جامعہ اشرفیہ جیسے علمی قلعے میں آپ نے علومِ دینیہ کے عظیم ستونوں سے اکتسابِ فیض کیا۔ فقہ، حدیث، اصولِ تحقیق، سبھی میدانوں میں آپ کی مہارت کا طوطی بولتا ہے۔

یہ علمی جلالت، فقہی کمال اور عظمت انہیں محض خاندانی وجاہت، مال و دولت، حسن و صورت، یا کسی دنیاوی تعلق کی بنیاد پر حاصل نہیں ہوئی۔ بلکہ یہ محض اللہ کی عطا، حضور سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی نگاہِ کرم، اور شرعی بصیرت کے حصول میں آپ کی شبانہ روز کاوشوں کا نتیجہ ہے۔

آپ نے علمِ دین کی تحصیل، تبلیغ و اشاعت، علمی جلالت، فقہی نکتہ رسی، دقیق تحقیقی مزاج اور شب و روز کی انتھک جدوجہد سے وہ مقام پایا کہ گویا اللہ تعالیٰ نے آپ کو فقہی خدمات کے لیے ازل ہی میں منتخب کر لیا تھا۔ یہی سعادتِ ازلی تھی، جو آپ کو کھینچ کر اہلِ سنت کے عظیم قلعہ جامعہ اشرفیہ لے آئی، جہاں آپ نے وقت کے اجلّہ مفسرین، محدثین، محققین اور فقہائے کرام سے اکتسابِ فیض کیا۔

وہاں نہ تو اساتذہ نے پلانے میں بخل سے کام لیا اور نہ ہی آپ نے پینے میں کوئی کوتاہی برتی۔ جو بھی ملا، وہ قلب و ذہن میں نقش ہوگیا، طبیعت میں رچ بس گیا۔ رہی سہی کسر مردِ درویش، سرکار حافظ ملت کی نظرِ کیمیا نے پوری کر دی۔ نتیجتاً، آپ علم و حکمت کے کنچن، فقہ و اجتہاد کے کندن، اور بصیرت و تحقیق کے لعل و گوہر بن گئے۔

علمی جلالت پر دلیل

عبداللہ: محمد بھائی! آپ مفتی صاحب کی علمی شان کے اتنے قصیدے پڑھ رہے ہیں، لیکن ہر دعویٰ دلیل کا محتاج ہوتا ہے۔ کیا آپ کے پاس ان کے علمی جلالت پر کوئی ٹھوس دلیل موجود ہے؟
محمد: جی زید بھائی! یہ محض الفاظ نہیں، بلکہ وہ حقیقت ہے جس کے چرچے فضا میں گونج رہے ہیں۔ حضرت کے ہزاروں فتاوے، سینکڑوں علمی و فقہی مقالات، اور اکابرِ اہلِ سنت کے تاثرات اس پر شاہد ہیں۔

فقیہِ اعظم ہند، شارحِ بخاری مفتی محمد شریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:

”اس وقت، جب کہ میں ضعفِ بصارت اور ذہنی الجھنوں کی وجہ سے اہم فتاویٰ لکھنے سے قاصر ہوں، یہی (سراج الفقہاء) تمام اہم فتاویٰ تحریر فرماتے ہیں، اور جو کچھ لکھتے ہیں، وہ غور و خوض اور کامل مطالعے کے بعد لکھتے ہیں۔ میں ان پر مکمل اعتماد رکھتا ہوں۔ ان کی کامیابی کی دلیل ان کی تصانیف اور ہزاروں فتاویٰ ہیں۔ میں دعا گو ہوں کہ ربِّ متعال انہیں دارین میں بہترین صلہ عطا فرمائے اور ان کے علم، بصیرت اور تفقہ میں برکت عطا کرے۔“

فقیہِ ملت حضرت علامہ مفتی جلال الدین علیہ الرحمہ آپ کی کتاب ”جدید بینک کاری اور اسلام“ کی تائید میں لکھتے ہیں:

”فاضلِ جلیل مفتی محمد نظام الدین صاحب نے جدید بینکاری، ڈاک خانے اور دیگر معاشی مسائل پر جو گہری تحقیق پیش کی ہے، میں اس سے پوری طرح متفق ہوں۔ موصوف کی باریک بینی اور دقتِ نظر دوسروں کے لیے فکرساز اور رہنما اصول کی حیثیت رکھتی ہے۔“

شیخ الحدیث، حضرت علامہ عبد الحکیم شرف قادری، آپ کی فقہی بصیرت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

”مجھے دلی مسرت ہو رہی ہے کہ حضرت دقیق نظر، وسیع مطالعہ، اور ملتِ اسلامیہ کا حقیقی درد رکھنے والے علماء میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کی تحقیق محض نظریاتی نہیں، بلکہ فقیہانہ بصیرت، قیاسی مہارت اور شرعی استنباط کی اعلیٰ مثال ہے۔“

مخالفین کی حقیقت اور غیروں کا اعترافِ علم

عبد اللہ: محمد بھائی! کچھ لوگ حضرت کی تحقیقات کی مخالفت بھی کرتے ہیں۔ نیز، کیا غیر سنی علماء نے بھی ان کی علمی شان کو تسلیم کیا ہے؟
محمد: جو لوگ حضرت پر اعتراض کرتے ہیں، درحقیقت وہ ان کی علمی جلالت سے ناواقف ہیں۔ یا تو انہوں نے ان کی تحقیقات کو پڑھا ہی نہیں، اور اگر پڑھا تو فہم کی سطح وہاں تک نہ پہنچ سکی۔

رہی بات غیروں کی، تو قاضی مجاہد الاسلام قاسمی، قاضی اڑیسہ بہار، مولانا برہان الدین سنبھلی، مولانا رفیع عثمانی (کراچی، پاکستان)، ڈاکٹر محروس المدرس (بغداد)، اور مفتی تقی عثمانی جیسے اکابرین دیوبند نے حضرت کی علمی و فقہی مہارت کو تسلیم کیا اور ان کی تحقیقات کو سراہا۔

اس کی واضح دلیل یہ ہے کہ حضرت ”مجمع الفقہ الاسلامی“ کے سیمینارز میں مسلسل شرکت کرتے رہے، جہاں ان کے علمی مقالات کو انتہائی پذیرائی ملی۔ ان سیمینارز میں دو ملکوں کی کرنسیوں کے تبادلے، اسلامی بینکوں کے اخراجات، بیعِ حقوق، اور بیعِ مرابحہ جیسے حساس موضوعات پر آپ کی تحقیقات کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا اور ان کی آراء کو بنیاد بنایا گیا۔

مشہور تصانیف

عبداللہ: محمد بھائی! آپ حضرت کی چند مشہور تصانیف کے نام بتا دیں تاکہ میں بھی ان کا مطالعہ کرکے اپنی علمی پیاس بجھا سکوں۔
محمد: ضرور عبداللہ بھائی! حضرت کی چند اہم تصانیف درج ذیل ہیں:

شمار اسمائے کتب
1 الحواشي الجلیۃ في تأيـيد مذہب الحنفیۃ
2 فقہ حنفی کا تقابلی مطالعہ کتاب وسنت کی روشنی میں
3 عصمت انبیا
4 لاؤڈ اسپیکر کا شرعی حکم
5 شیئر بازار کے مسائل
6 جدید بینک کاری اور اسلام
7 مشینی ذبیحہ :مذاہب اربعہ کی روشنی میں
8 مبارک راتیں
9 عظمت والدین
10 فقہ حنفی سے دیوبندیوں کا ارتداد
11 ایک نشست میں تین طلاق کا شرعی حکم
12 فقہ اسلامی کے سات بنیادی اصول
13 دوملکوں کی کرنسیوں کا اُدھار، تبادلہ وحوالہ
14 انسانی خون سے علاج کا شرعی حکم
15 دُکانوں اور مکانوں کے پٹہ و پگڑی کے مسائل
16 تحصیل صدقات پر کمیشن کا حکم
17 خاندانی منصوبہ بندی اور اسلام
18 تعمیر مزارات احادیث نبویہ کی روشنی میں
19 خسر بہو کے رشتوں کا احترام نقل وعقل کی روشنی میں
20 اعضاء کی پیوند کاری
21 فلیٹوں کی خرید و فروخت کے جدید طریقے
22 بیمہ وغیرہ میں ورثہ کی نامزدگی کی شرعی حیثیت
23 فقدان زوج کی مختلف صورتوں کے احکام
24 کان اور آنکھ میں دوا ڈالنا مفسدِ صوم ہے یا نہیں
25 جدید ذرائع ابلاغ اور رویت ہلال
26 طویل المیعاد قرض اور ان کے احکام
27 طبیب کے لیے اسلام اور تقویٰ کی شرط
28 نیٹ ورک مارکیٹنگ کا شرعی حکم
29 فسخ نکاح بوجہ تعسُّر نفقہ
30 ۱۴؍ جلدوں میں ’’فتاویٰ نظامیہ‘‘ جو دراصل ’’فتاویٰ اشرفیہ مصباح العلوم‘‘ ہے
31 فقہ حنفی میں حالات زمانہ کی رعایت، فتاویٰ رضویہ کے حوالے سے
32 چلتی ٹرین میں نماز کا حکم: فتاویٰ رضویہ اور فقہ حنفی کی روشنی میں
33 احادیث صحیحین سے غیر مقلدین کا انحراف

یہ محض چند کتابوں کے نام ہیں، ورنہ آپ کی علمی میراث ہزاروں فتاوے اور سیکڑوں تحقیقی مقالات پر مشتمل ہے، جن میں فقہ حنفی، معاصر چیلنجز، اور جدید معاشی مسائل پر قیمتی علمی خزانہ موجود ہے۔

قوم و ملت کا رویہ

عبداللہ: محمد بھائی! حضرت قوم و ملت کے لیے شب و روز مصروفِ عمل ہیں، تو کیا قوم ان کی خدمات کی معترف ہے؟
محمد: الحمدللہ! قوم نے حضرت کی علمی خدمات کو بھرپور سراہا ہے۔ بے شمار خانقاہوں، مدارس، جامعات اور تنظیموں نے آپ کو ایوارڈز سے نوازا ہے، اور مختلف علمی مجالس میں آپ کو صدر، سرپرست اور نگرانِ اعلیٰ کے مناصب تفویض کیے گئے ہیں۔ آپ کی خدمات عالمی سطح پر مسلمہ ہیں، اور آپ کا نام فقہی دنیا میں ہمیشہ روشن رہے گا۔
عبد اللہ: جزاک اللہ خیرا کثیرا کہ آپ نے مجھے ہمارے دور کی اتنی بڑی علمی اور عبقری شخصیت سے متعارف کرایا۔ ان شاء اللہ، کبھی جامعہ اشرفیہ مبارک پور جانا ہوا تو حضرت سے ملاقات کی سعادت ضرور حاصل کروں گا۔ وہ لوگ کتنے خوش نصیب ہیں جنہیں اس عبقری شخصیت کے دروس سننے کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ حضرت مفتی نظام الدین صاحب کو اپنی بے شمار برکتوں اور رحمتوں سے مالا مال فرمائے، ان کی عمر میں بے پناہ اضافہ کرے اور ان کے علم و عمل میں بے پناہ وسعتیں دے۔ اللہ ان کے علوم کو دنیا بھر میں پھیلائے، ان کے فیوض و برکات سے امت مسلمہ کو سیراب کرے، اور ان کی خدمات کو قیامت تک یاد رکھا جائے۔

اللہ تعالیٰ حضرت کو صحت مند، خوشحال اور کامیاب زندگی دے، اور ان کی علمی اور فقہی بصیرت کو مزید تقویت دے تاکہ وہ اپنے علم سے امت مسلمہ کی رہنمائی جاری رکھیں۔ آمین۔

ہمیں بھی اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ ہم حضرت کی علمی خدمات کی قدر کریں، ان کی تعلیمات سے استفادہ کریں۔

1 تبصرے

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں