عنوان: | یہی ہے آرزو تعلیم قرآں عام ہو جائے |
---|---|
تحریر: | مولانا محمد حبیب اللہ بیگ ازہری |
آج کا عمومی ماحول یہ ہے کہ گھر کے ہر فرد کے پاس موبائل تو ہوتا ہے، لیکن قرآن نہیں ہوتا، کیوں کہ لوگوں نے موبائل کو اپنی ضرورت سمجھا، لیکن قرآن کو نہیں سمجھا، اگر ہم قرآن کریم کو اپنی ضرورت سمجھتے تو ہمیشہ اسے اپنے پاس رکھتے، اور سینے سے لگا کر رکھتے۔
لیکن ایک دفعہ ہمارے تین ساتھی مصر کے دار السلطنت قاہرہ میں مسجد سلطان کی طرف جا رہے تھے کہ اچانک سامنے سے ایک مصری شخص آتا ہوا نظر آیا، قریب آیا تو پوچھا:
هل عندكم مصحف؟
کیا تمہارے پاس قرآن ہے؟
ساتھیوں نے کہا: نہیں۔
یہ جواب سن کر اس مصری کو بڑی حیرت ہوئی، اس نے حیرت و استعجاب سے پوچھا:
هل أنتم مسلمون؟
کیا تم مسلمان ہو؟
تینوں میں کسی کے پاس مصحف نہیں! کیا تم واقعی مسلمان بھی ہو؟ یہ ایک واقعہ تھا، جو کسی دن پیش آیا، اور ذہن وفکر سے محو ہوگیا، لیکن آج جب کہ ہم اپنی شاہ راہ حیات پر کھڑے ہیں تو ہمیں اپنے ضمیر سے پوچھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ہاتھوں میں قرآن نہیں ہے، دل میں قرآن نہیں ہے، عملی زندگی میں قرآن نہیں ہے، کیا واقعی ہم مسلمان ہیں؟
کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہر باپ اپنے گھر بچوں کی پیدائش کے بعد سب سے پہلے اس کے لیے مصحف لے کر آتا، ہوش سنبھالنے کے بعد اسے بتاتا کہ بیٹے! ہم نے تمہارے لیے سب سے پہلے یہی کتاب لی ہے، کیوں کہ یہی کتاب تمہارے لیے دنیا و آخرت میں کامیابی کی ضمانت ہے، میں رہوں یا نہ رہوں، بہر حال تمہیں یہ کتاب پڑھنا ہے، اور اسی کے مطابق زندگی گزارنا ہے۔
آئیے آج ہم عزم کرتے ہیں کہ ہم خود کو اور دوسروں کو قرآن کریم سے قریب کریں گے، اس کے لیے بچوں کے ہاتھوں میں موبائل اور بزرگوں کے ہاتھوں میں تسبیح تھمانے سے پہلے ہم انھیں قرآن مجید پیش کریں گے، اور اس بحر معرفت کے ساتھ اپنے وفاداری کا ثبوت پیش کریں گے۔
عوام وخواص میں تلاوت قرآن کا ذوق پیدا کرنے کے لیے عربوں کو دیکھیں، عربوں کو ہم کچھ بھی کہہ لیں، لیکن سچائی یہی ہے کہ قرآن تو وہی پڑھتے ہیں، عرب قرآن پڑھتے ہیں، سنتے ہیں، ساتھ میں رکھتے ہیں، یاد کرتے ہیں، مشق کرتے ہیں، اور بہت ہی عمدہ لب ولہجے میں بڑی خوش الحانی کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں، کتنے قرا ہیں جو پڑھتے ہیں تو اشکبار ہو جاتے ہیں، ان کی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں، آیت شروع کرتے ہیں، لیکن مکمل نہیں کر پاتے، تو دیر تک دہراتے رہتے ہیں، آپ سورہ طور کا پہلا رکوع، سورہ قاف کا دوسرا رکوع، سورہ فُصِّلَت کا تیسرا، چوتھا رکوع، سورہ ابراہیم کا آخری رکوع، سورہ حاقہ اور معارج کو پڑھ کر دیکھیں، یا یوٹیوب پر سنیں تو پھر اس حقیقت کے اعتراف کے بغیر کوئی چارہ کار نہیں رہے گا کہ:
اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِ ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ [الزمر ٢٣]
یہی وہ قرآن ہے جسے سن کر دل لرز جاتے ہیں، جسم کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں، آواز پر رعشہ طاری ہوجاتا ہے، آنکھیں اشکبار ہوجاتی ہیں، دیر تک یہی کیفیت رہتی ہے، پھر من جانب اللہ دل پر سکینہ نازل ہوتا ہے، اور بندہ ذکر الٰہی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ یہ ہے وہ قرآن جو بیک وقت قلب ونظر، جسم وجان، اور ظاہر وباطن کو پاک کرتا ہے، اور بندے کو اپنے رب سے قریب کردیتا ہے۔
یہی ہے آرزو تعلیم قرآں عام ہوجائے
ہر ایک پرچم سے اونچا پرچم اسلام ہوجائے
مضمون نگار جامعہ اشرفیہ مبارک پور کے استاذ اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔ {alertInfo}
رب کریم ہمیں قرآن کریم کا نور عطا فرمائے آمین
جواب دیںحذف کریں