عنوان: | علامہ فضل رحمٰن گنج مرادآبادی |
---|---|
تحریر: | ابو محمد فراز احمد عطاری مدنی |
ایک ایسی عظیم شخصیت کا تعارف پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہوں، جس کے فیضِ ظاہری و باطنی سے ماقبل میں بہت سی نامور شخصیات فیض یاب ہوئیں اور اب بھی بہت سے لوگ، اور ہم بھی، اس کے فیوض و برکات سے سرفراز ہو رہے ہیں۔
افسوس! یہ ہے کہ اس سرفرازی کے باوجود ہماری ان سے ناآشنائی۔ میں نے اس ناآشنائی کی تاریکی کو دور کرنے کی کوشش کی تو دس بارہ کتابوں کے مطالعہ سے کچھ شناسائی حاصل ہوئی، اور اب اشکالِ حروف کے قالب میں آپ کی نظروں کے حوالے۔
نام و نسب
اس عظیم شخصیت کا نام: فضل رحمٰن، لقب: قطبُ الوقت۔ آپ کا شمار مشاہیرِ اولیاءِ متصرفین اور اکابرِ فضلاء کاملین میں ہوتا ہے۔ جامعِ علومِ ظاہری و باطنی اور صاحبِ کشف و کرامات ہیں۔
آپ کا نسب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے جا ملتا ہے اور سلسلۂ نسب کچھ اس طرح ہے: فضل رحمٰن بن شاہ اہل اللہ بن شیخ عبد الرحیم بن حضرت محمد، معروف بہ مصباح العاشقین، محمد صدیقی چشتی قدس سرہم۔
شیخ مصباح العاشقین بڑے مشہور ولی اللہ گزرے ہیں۔ صدیقی شیخ اور صاحبِ کشف و کرامات ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے عجیبُ الحالات تھے۔ سکندر لودھی، بادشاہِ دہلی، کے زمانے میں آپ موجود تھے۔ حضرت شیخ احمد بدایونی چشتی کے آپ مرید و خلیفہ تھے۔ آپ ہی کی نسل میں علامہ شاہ فضل رحمٰن رحمۃ اللہ علیہ ہیں۔
ولادت و مسکن
موضعِ ولادت کے بارے میں کچھ معلومات دستیاب نہ ہو سکیں اور نہ ہی مستقل سکونت کے بارے میں، البتہ موضعِ وصال سیرت نگاروں نے گنج مرادآباد تحریر کیا ہے۔ گنج مرادآباد، ضلع اناؤ، صوبہ اترپردیش کا ایک قصبہ ہے۔ آپ کی ولادت 1239ھ سے قبل کی ہے۔ حتمی تاریخِ ولادت کا علم نہ ہو سکا۔
تعلیم و تربیت
اپنے وقت کے بے نظیر محدث شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر زانوئے تلمذ تہ کیا اور ان کی خدمت میں رہ کر علمِ قرآن و حدیث حاصل کیا اور سندِ حدیث سے بھی سرفراز ہوئے۔ آپ کا شمار شاہ صاحب کے مشہور تلامذہ میں ہوتا ہے۔ علمِ سلوک و طریقت آپ نے مخدومِ عصر شاہ محمد آفاق نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کیا۔ بیعت و ارادت انھیں سے کی اور خلافتِ نقشبندیہ سے بہرہ مند کیے گئے۔
تلامذہ و خلفاء
حضرت شاہ فضل رحمٰن گنج مرادآبادی رحمۃ اللہ علیہ کے فیوضِ ظاہریہ و باطنیہ کے انوار دور دراز علاقوں میں درخشاں ہیں۔ آپ کے چشمۂ علم سے بہتوں نے سیرابی حاصل کی۔ آپ کہیں علمِ شریعت کے گوہر لٹاتے تو کہیں علمِ طریقت کے درِ بے بہا دیتے۔ آپ کی بارگاہ سے فیض پانے والے چند حضرات کے نام پیشِ خدمت ہیں: ◽خواجہ لطف علی شاہ چشتی قدس سرہ ◽حضرت شاہ وصی اللہ محدث سورتی رحمۃ اللہ علیہ ◽مولانا ظہور حسین رامپوری رحمۃ اللہ علیہ ◽خلیفۂ اعلیٰ حضرت، میر دیدار علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ ◽مجاہدِ جنگِ آزادی، امیرِ ملت حضرت جماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ۔
یہ تو تلامذہ تھے، جب کہ آپ کے رفقاء میں حضرت شاہ غلام علی دہلوی، علامہ فضل حق خیرآبادی، قاضی ثناء اللہ پانی پتی اور مرشدِ اعلیٰ حضرت، شاہ آلِ رسول احمدی مارہروی رحمۃ اللہ علیہم کا تذکرہ ملتا ہے۔
علامہ ظفر الدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ "حیاتِ اعلیٰ حضرت" میں ذکر کرتے ہیں کہ نبیرۂ محدث سورتی، جناب مولانا قاری احمد صاحب کا بیان ہے کہ ۱۳۰۹ھ میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ قصبہ گنج مرادآباد، ضلع اناؤ تشریف لائے۔ اس سفر میں آپ کے ہمراہ حضرت محدث سورتی بھی تھے۔
حضرت شاہ فضل رحمٰن صاحب نے آپ کی آمد سے مطلع ہو کر قصبہ سے باہر نکل کر استقبال کیا۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ خانقاہِ رحمانیہ میں شاہ صاحب کے مخصوص حجرے میں قیام پذیر ہوئے۔ عصر بعد مجلس کا انعقاد ہوا تو شاہ فضل رحمٰن صاحب حاضرین سے مخاطب ہو کر فرمایا:
مجھے آپ (اعلیٰ حضرت) میں نور ہی نور نظر آتا ہے۔
اتنا کہنے کے بعد اپنی ٹوپی اعلیٰ حضرت کو اوڑھائی اور ان کی ٹوپی خود اوڑھ لی۔ اور اعلیٰ حضرت کی وہ ٹوپی آج بھی خانقاہِ رحمانیہ میں موجود ہے۔
الحمد للہ! ہمیں بھی چند واسطوں سے ان کی شاگردی کی سعادت حاصل ہے۔ وہ اس طرح کہ:
وصال
آپ نے 22 ربیع الاول 1313ھ کو اس دارِ فانی سے دارِ باقی کی طرف کوچ کیا۔ آپ کا مزار پر انوار، قصبہ گنج مرادآباد، ضلع اناؤ میں زیارت گاہِ عالم ہے۔
اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم۔