✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

اساتذہ کا احترام اور والدین کی ذمہ داریاں

عنوان: اساتذہ کا احترام اور والدین کی ذمہ داریاں
تحریر: سلمیٰ شاھین امجدی کردار فاطمی

تعلیم و تربیت ایک مقدس فریضہ ہے جو نسلوں کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ والدین اپنے بچوں کی دنیاوی اور دینی ترقی کے خواہاں ہوتے ہیں، مگر اس مقصد کے حصول میں اساتذہ کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے۔ اساتذہ وہ معمار ہیں جو بچوں کی علمی، اخلاقی اور روحانی تربیت کرتے ہیں۔ مگر کیا ہم، بحیثیت والدین اور سرپرست، اس حقیقت کا صحیح ادراک رکھتے ہیں؟ کیا ہم اپنے بچوں کے اساتذہ کی قدر کرتے ہیں؟

یاد رکھیں: اساتذہ محض کتابی علم نہیں سکھاتے بلکہ بچوں کی تربیت میں ہمہ وقت مصروف عمل رہتے ہیں۔ وہ انہیں اچھے اخلاق، عبادات کی پابندی، نظم و ضبط، اور اسلامی شعائر کی پاس داری سکھاتے ہیں۔

وہ بچوں کی تہجد، اشراق اور چاشت کی نمازوں کی نگرانی کرتے ہیں۔

وہ ان کے اخلاق سنوارتے ہیں، انہیں علم دین سے آراستہ کرتے ہیں۔

وہ اپنا وقت، اپنی صلاحیتیں، اور اپنی نیند تک قربان کر دیتے ہیں تاکہ ہمارے بچے ایک باوقار اور صالح مسلمان بن سکیں۔

یہ سب کچھ کرنا کوئی آسان کام نہیں، اس میں بڑی قربانیاں اور محنت شامل ہوتی ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ والدین عام طور پر ان قربانیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور جب کوئی شکایت ملتی ہے تو فوراً اساتذہ پر تنقید شروع کر دیتے ہیں۔

والدین کی ذمہ داری:

جس طرح اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ طلبہ کی بہترین تربیت کریں، اسی طرح والدین پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔

کیا ہم نے کبھی اپنے بچوں کے ادارے کے لیے دعا کی؟

کیا ہم نے کبھی اساتذہ کے لیے شکریہ کا کوئی کلمہ ادا کیا؟

کیا ہم نے کبھی اپنے بچوں کے لیے مدرسے کے اصولوں پر عمل کرنا سیکھا؟

کیا ہم نے خود بھی دین سیکھنے کی کوشش کی یا صرف بچوں کو مدرسے بھیج کر اپنی ذمہ داری پوری سمجھی؟

یہ تمام سوالات غور طلب ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے ایک کامیاب اور دین دار زندگی گزاریں، تو ہمیں بھی اپنی اصلاح کرنی ہوگی۔ اگر ایک مدرسے میں تربیت یافتہ استاد کو شیخ اور مرشد کی ضرورت ہوتی ہے تو کیا ہم والدین کو اس کی ضرورت نہیں؟

ناشکری کے نتائج:

اللہ رب العزت نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے، جن میں سب سے بڑی نعمت دین اسلام ہے۔ اگر ہم ان نعمتوں کی ناشکری کریں، اساتذہ کی عزت نہ کریں، اداروں کی محنت کو نظر انداز کریں، تو اللہ ہمیں اس نعمت سے محروم بھی کر سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:

وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّكُمْ لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ وَ قَالَ مُوْسٰۤى اِنْ تَكْفُرُوْۤا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًاۙ-فَاِنَّ اللّٰهَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ (ابراہیم:8)

ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو جب تمہارے رب نے سنادیا کہ اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے۔ اور موسیٰ نے کہا اگر تم اور زمین میں جتنے ہیں سب کا فر ہوجاؤ تو بیشک اللہ بے پرواہ سب خوبیوں والا ہے۔

ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم دین کے خادموں کے ساتھ کیسا سلوک کر رہے ہیں؟ کیا ہم ان کے لیے آسانیاں پیدا کر رہے ہیں یا ان کی محنت کی قدر نہیں کر رہے؟

مدرسے اور اساتذہ کا ساتھ دینا ہماری دینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ ہمیں درج ذیل نکات پر عمل کرنا چاہیے:

  • اساتذہ کی عزت کریں ان کی خدمات کو تسلیم کریں اور ان کے ساتھ حسن سلوک روا رکھیں۔
  • مدرسے کے اصولوں کی پاسداری کریں جو ضوابط مدرسے نے وضع کیے ہیں، ان پر عمل کریں۔
  • بچوں کی دینی تربیت میں حصہ لیں بچوں کے ساتھ مل کر قرآن سیکھیں، انہیں دین کے قریب کریں۔
  • مدرسے کی مالی اور اخلاقی مدد کریں فیس کی ادائیگی وقت پر کریں، صدقات اور عطیات سے مدرسے کی مدد کریں۔
  • اساتذہ سے مشورہ کریں بچوں کی تعلیمی اور دینی رہنمائی کے لیے اساتذہ سے مشورہ کریں۔
  • صحبتِ صالحین:

    جس طرح بچوں کے لیے ایک نیک استاد ضروری ہے، اسی طرح والدین کے لیے بھی ایک دینی رہنما ضروری ہے۔ ہر شخص کو اپنی زندگی میں ایک مرشد، ایک شیخ، یا ایک عالم دین سے تعلق رکھنا چاہیے تاکہ وہ دین کے صحیح فہم کی طرف گامزن رہے۔

    حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے دعا کی تھی:

    اِنِّیْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّیْۚ

    ترجمہ کنز الایمان: اے رب میرے میں تیرے لیے منت مانتی ہوں جو میرے پیٹ میں ہے کہ خالص تیری ہی خدمت میں رہے تو تُو مجھ سے قبول کرلے۔

    آج ہمیں بھی ایسے جذبات کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی نسلوں کو دنیاوی چمک دمک کا غلام بنانے کے بجائے دین کا خادم بنانا چاہیے۔

    آج کے والدین:

    آج والدین اپنے بچوں کے لیے اچھے مکان، مہنگی گاڑیاں، قیمتی لباس اور بڑی بڑی تقریبات کا انتظام تو کرتے ہیں، لیکن کیا ہم نے کبھی ان کے دین کی فکر کی؟

    ہم بچوں کی دنیاوی ضروریات تو پوری کرتے ہیں، مگر آخرت کی تیاری کی فکر نہیں کرتے۔

    ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ دنیا عارضی ہے، اصل کامیابی آخرت میں ہے۔

    ہمیں بچوں کو ایسا بنانا ہے کہ وہ دنیا میں بھی کامیاب ہوں اور آخرت میں بھی سرخرو ہوں۔

    اساتذہ کا احترام اور والدین کی اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہی بچوں کی حقیقی کامیابی کا ضامن ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے دین کے محافظ، اچھے انسان اور بہترین مسلمان بنیں، تو ہمیں خود بھی اس راہ پر چلنا ہوگا۔ اساتذہ کے احسانات کو یاد رکھنا، ان کی عزت کرنا، اور ان کے ساتھ مکمل تعاون کرنا ہماری اولین ذمہ داری ہے۔

    اللہ رب العزت ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنے بچوں کے اساتذہ کی عزت کریں، ان کی قربانیوں کا اعتراف کریں اور اپنی نسلوں کو دین کی روشنی میں پروان چڑھانے کے لیے خود بھی دین کی تعلیم حاصل کریں۔ آمین!

    ایک تبصرہ شائع کریں

    جدید تر اس سے پرانی
    WhatsApp Profile
    لباب-مستند مضامین و مقالات Online
    السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
    اپنے مضامین بھیجیں