✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

غفلت سے بیداری

عنوان: غفلت سے بیداری
تحریر: مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا

تم چلو اس کے ساتھ یا نہ چلو
پاؤں رکتے نہیں زمانے کے

رفتگاں کی بکھری ہوئی یادوں کو سمیٹتا ہوا انسانی قافلہ مستقبل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ وقت کی تیز رفتار ہوا زندگی کے سفینے کو آگے کی طرف دھکیل رہی ہے اور ہر دن کا ڈوبتا ہوا سورج یہ پیغام دیتا ہے کہ اے انسان! تیری زندگی کا سورج بھی ایک نہ ایک دن زوال پذیر ہوگا، تیری زندگی کا سفر بھی ایک شام ضرور تمام ہوگا۔

تو غفلت کس بات کی۔۔۔؟ یہ مدہوشی کیسی۔۔۔؟ تو کس بے خبری کے عالم میں سرگرداں ہے۔۔۔؟ تجھے کس چیز نے غافل کر رکھا ہے۔۔۔؟ کیا یہ فانی دنیا۔۔۔؟ جو متاعِ قلیل ہے، متاعِ غرور ہے، دھوکے کا سامان ہے۔

تو اس کے رنگین دھوکے میں اپنی ابدی آخرت کو برباد کر رہا ہے۔۔۔؟ کیا تیرے ایمان کی غیر متزلزل چٹان کے آگے دنیا کی اتنی بھی حیثیت ہے کہ وہ تجھے تیرے دین سے بے خبر کر دے۔۔۔؟

کیا تو اسی لیے بنا ہے کہ دنیا کی آسائشوں میں خود کو فنا کر کے اپنی ذات اور اپنی پیدائش کا منشا بھول جائے۔۔۔؟ کیا تیرے کانوں تک حق کی یہ آواز نہیں پہنچی؟

وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ (آل عمران، 185)

ترجمۂ کنز الایمان: اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے۔

کیا تجھے اس دنیا میں اسی لیے بھیجا گیا ہے کہ تو اپنی مرضی کے مطابق عیش و عشرت کی زندگی گزارے۔۔۔؟ کیا تجھے اپنے خالق کا یہ فرمان یاد نہیں۔۔۔؟

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات، 56)

ترجمۂ کنز الایمان: اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔

تو یہ کیسے سوچ سکتا ہے کہ اپنی حیات کا مقصد و منشا منتخب کرنے میں تو خود مختار ہے۔۔۔؟ تجھے کس نے یہ اختیار دیا۔۔۔؟ جبکہ خلاقِ کائنات ارشاد فرما رہا ہے:

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا وَأَنَّكُمْ إِلَيْنَا لَا تُرْجَعُونَ (المؤمنون، 115)

ترجمۂ کنز الایمان: کیا تم نے یہ گمان کر لیا ہے کہ ہم نے تم کو بے مقصد (بے کار) پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤ گے۔۔۔؟

اگر تیرا ایمان مضبوط و مستحکم ہوتا تو تو اس وقتی اور عارضی دنیا کے لیے کبھی بھی اپنی ذات کو فنا نہ کرتا۔ کیا تو اپنا نام ایسے لوگوں کے زمرے میں سرفہرست کروانا چاہتا ہے جنہوں نے آخرت کی زندگی کے بدلے دنیا مول لی؟ جن کے بارے میں قرآنِ مقدس فرما رہا ہے:

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْحَيَاةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ ۖ فَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ (البقرہ، 86)

ترجمۂ کنز الایمان: بے شک وہ جنہوں نے دنیا کی زندگی آخرت کے بدلے مول لی، تو ان کے عذاب میں تخفیف نہ کی جائے گی اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔

خالقِ کائنات نے اس دنیا کو تیرے قدموں کی دھول بنایا ہے اور تجھ کو برتنے کے لیے اس کی تخلیق فرمائی، نہ اس لیے کہ دنیا خود تجھے برتے، تجھے استعمال کرے، تجھے جدھر گھمائے تو گھوم جائے، کسی غلام کی طرح جو اپنے مالک کی اطاعت میں ہمہ وقت سراسیمہ رہتا ہے۔

کیا خالقِ لم یزل نے تیرے سر پر اشرفیت کا تاج اسی لیے رکھا ہے کہ تو دنیا جیسی متاعِ قلیل کے بدلے اپنے ایمان و ایقان کا سودا کرے، اس کے آگے گھٹنے ٹیک دے، اس کی غلامی و اطاعت قبول کر لے۔۔۔؟

یقیناً حرارتِ ایمانی سے سرشار و تابدار قلب و روح کا جواب یہی ہوگا: "ہرگز نہیں!" بلکہ ہماری زندگی خالقِ کائنات کی عطا کردہ نعمتِ عظمیٰ ہے جو پہلے معدوم تھی۔ اللہ رب العزت نے اپنے فضل و کرم سے اسے حیات بخشی، اسے مکرم و مشرف کیا۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اللہ رب العزت نے زندگی گزارنے کے تمام اسلوب و اصول بیان فرما دیے ہیں۔

نیز یہ بھی واضح فرما دیا ہے کہ «كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ» ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے، ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ انسان کی زندگی عارضی ہے، جس کے لیے بقا نہیں، ایک نہ ایک دن ضرور فنا ہونا ہے۔

مگر غافل و ناآندیش انسان دنیا کی لذتوں میں مست ہو کر اپنے رب کو بھول گیا۔ اس کی ظاہری آرائش و زیبائش نے اسے اس قدر مخمور کر دیا ہے کہ وہ اپنی موت کو بھی فراموش کر چکا ہے، اور یقیناً یہ ایک مردِ مومن کی شان نہیں ہوا کرتی۔

اس لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم اپنی زندگی کا محاسبہ کریں، اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہم کس قدر مقصدِ تخلیق کے قریب ہیں؟ کیا ہم نے اپنی حیات کو دنیا کی آسائشوں میں کھو دیا ہے یا رضائے الہی حاصل کرنے کے لیے عملی اقدام کیا۔۔۔؟

ہماری زندگی کی شمع رفتہ رفتہ پگھل رہی ہے۔ آئیے، اس قیمتی وقت کو غنیمت جانیں اور اپنے رب کی طرف رجوع کریں، اپنے گناہوں سے توبۂ نصوح کریں، اپنے دل کو دنیا کی محبت سے پاک و صاف کر کے آخرت کی تیاری میں لگ جائیں۔ غفلت کی چادر اتار پھینکیں اور اپنے خالق کی طرف لوٹ آئیں۔

اس چند روزہ زندگی کی قدر کریں اور اپنی موت کو ہمہ وقت پیشِ نظر رکھیں۔ بے شک، موت کی یاد گناہوں کی زنجیروں کو توڑ دیتی ہے۔

آئیے، ہم سب مل کر عہد کریں کہ اپنی زندگی کو اللہ کی رضا کے مطابق گزاریں گے اور اپنے اعمال کے ذریعے دارین میں فلاح و کامرانی حاصل کریں گے۔ اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں غفلت جیسی وبا سے نجات بخشے اور ہمیں اپنے مقصود و منشا کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق و رفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہِ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں