✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

انسان اشرف المخلوقات یا اسفل السافلین

عنوان: انسان اشرف المخلوقات یا اسفل السافلین
تحریر: مفتیہ رضیؔ امجدی غفر لھا

گھٹے تو ذرۂ ناچیز سے ہے کم انسان
بڑھے تو وسعتِ کونین میں سما نہ سکے

انسان کیا ہے: انسان احسنِ تقویم کی شرح ہے۔ انسان فطرت کی تجلیوں کا سفیر ہے۔ انسان حسن کائنات ہے۔ انسان رفعتوں کا مصدق ہے۔ انسان مقصودِ کائنات ہے۔ انسان خالقِ حقیقی کی تخلیق کا شاہکار ہے۔

انسان قدرت کی بہترین کتاب کا وہ دیباچہ ہے جس میں کائنات کے اسرار رقم ہیں۔ انسان کائناتِ حسن ہے۔ انسان ہی کے سر «کَرَّمْنَا » کا تاج سجا ہے۔ انسان ہی تو ہے جس کی افضیلت حق تعالیٰ نے فرشتوں پر ثابت فرمائی۔ انسان ہی کے سر پر اللہ رب العزت نے اپنی خلافت و نیابت کا سہرا سجایا ہے۔

مگر یاد رہے! انسان مذکورہ صفات کا حامل تبھی ہے جب وہ احکامِ الٰہیہ کی پاسداری کرے اور ممنوعات سے باز رہے۔

انسان ہی ہے جو چاہے تو نہایت ہی بلند و بالا اور عظیم مقام حاصل کرکے رشکِ ملائکہ ثابت ہو، اور چاہے تو ابلیسی حجابات کی زد میں آکر نفسانیت کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جائے۔

اللہ رب العزت نے اپنے فضل و کرم سے حضرتِ انسان کو اعلیٰ عہدے اور مراتب عطا فرمائے، لیکن ناآندیش و کوتاہ‌بین انسان باطنی امراض میں گرفتار ہونے کی بنا پر رفعتِ انسانیت کا شعور ہی نہیں رکھتا، جس کی بنا پر مذکورہ صفات سے متصف ہونا تو درکنار، ایک حیوانِ حقیقی سے بھی کم تر ہو کر رہ جاتا ہے۔

مگر صد حیف! اس کی خام خیالی پر، جو بزعمِ خویش صفاتِ انسانیت کا حامل اور راہِ رشد و ہدایت پر گامزن ہے، مگر فی الواقع وہ ضلالت و گمراہی کی وادیوں میں سرگرداں ہے۔

اگر ہم کائنات کی تمام اشیاء کا بنظرِ غائر معائنہ کریں تو معلوم ہوگا کہ اللہ رب العزت نے ادنیٰ سے اعلیٰ تک ہر نقش کو ایک مقصد سے سجایا ہے اور کوئی بھی شے بے مقصد پیدا نہیں فرمائی۔

خود قرآنِ مقدس میں بنی آدم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے:

أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاکُمْ عَبَثًا وَأَنَّکُمْ إِلَیْنَا لَا تُرْجَعُونَ (المؤمنون: 115)

ترجمۂ کنز الایمان: کیا تم نے یہ گمان کر لیا کہ ہم نے تم کو بے مقصد پیدا کیا ہے اور یہ کہ تم ہماری طرف نہیں لوٹائے جاؤگے؟

جب دنیا کی کوئی بھی چیز عبث و بے مقصد نہیں تو اللہ کی تخلیق کا شاہکار حضرتِ انسان جو اس کائنات کا نگینہ ہے، کیوں کر بے مقصد پیدا کیا جا سکتا ہے؟

خلاقِ کائنات نے انسان کو عناصرِ اربعہ سے ایک باشعور اور بامقصد مخلوق بنایا اور اس کی پیدائش کا منشا قرآنِ مقدس میں بیان کرتے ہوئے فرمایا:

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 56)

ترجمۂ کنز الایمان: کہ میں نے جن اور آدمی اسی لیے بنائے کہ میری عبادت کریں۔

بلاشبہ اللہ رب العزت نے حضرتِ انسان کو اشرف قرار دیا ہے، مگر انسان کی اشرفیت، خالقِ حقیقی کے قائم کردہ اصول و ضوابط کی فرمانبرداری کی صورت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرتِ انسان کو ذمہ داریاں اور فرائض سونپے ہیں جن کی تکمیل فرض ہے اور منہیات ہیں، جن سے باز رہنے کا حکم فرمایا ہے۔

یہ تمام احکام بندوں کو سکھانے اور بتانے کے لیے اللہ رب العزت نے انبیا علیہم السلام کو بھیجا اور ان پر مصاحف نازل فرمائے تاکہ وہ اپنے احکام نبیوں کے ذریعے براہِ راست اور کامل طور پر بندوں تک پہنچائے۔

تو انبیائے کرام علیہم السلام انسان کو رشد و ہدایت کی راہ بتانے کے لیے تشریف لائے اور مقصدِ ایزدی جل جلالہ کو مکمل طور سے پورا فرمایا۔

بندوں کو احکامِ الٰہیہ کی تعلیم فرمائی، انہیں جنت و ثواب کی بشارت دی، عذاب و نار سے ڈرایا، اور یوں حجت تمام ہوئی۔

پس! جو شخص احکامِ الٰہیہ کا تابعدار ہوا، وہی صحیح معنوں میں انسان ہے جسے اللہ نے مکرم فرمایا، کیونکہ مخلوق کے لیے خالق کی تابعداری اور اس کے اوامر کی انجام دہی اور پاسداری ہی انسان کو اشرف بناتی ہے۔

انسان تبھی رشکِ ملائکہ ہے جب اس کا دل ذوقِ جبیں سائی سے سرشار و تابدار ہو اور اس کی پیشانی سجدوں سے سرفراز اور منور ہو۔

وہ نفسیات کا دلدادہ نہ ہو اور نہ ہی ابلیسی حجابات سے بے خبر، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ نفس کو تقویٰ کی بھٹی میں جلا کر ہی انسان شرفِ انسانیت حاصل کرتا ہے اور رفعتِ انسانیت کا حامل بنتا ہے۔

اور رہا وہ انسان جو نفسیات پر مفتون اور مادیت کا پرستار رہا، ہمیشہ نفس کی موافقت کی اور اس کے مقابلے میں شریعت کو پسِ پشت ڈال دیا، اخلاقِ رذیلہ، ظلم و جبر، تکبر و غرور، سرکشی، ناشکری، جہالت جیسے امور سے خود کو کیچڑ آلود کیا، تو گویا اس نے شرفِ انسانیت کا لبادہ اپنے جسم سے اتار پھینکا اور خود کو ذلت و حقارت کی کھائی میں دھکیل دیا۔

یہ مثال ہے اس انسان کی جس نے خود کو حیوانِ حقیقی سے بھی کم تر بنا لیا اور اپنی ذات کو اتنا گھٹا دیا کہ احسنِ تقویم کے مقام سے اسفل السافلین میں جا گرا اور اس کی ذات خسرانِ مبین کی مصداق بنی۔

اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے کسی نے کیا خوب کہا: انسان گھٹے تو ذرۂ ناچیز سے بھی کم تر ثابت ہو، اور بڑھے تو اس کی وسعت کا اندازہ لگانا ناممکن ہو جائے۔

اگر ہم عصرِ حاضر کا جائزہ لیں تو انسانیت دم توڑتی ہوئی نظر آئے گی۔انسانیت کا گلشن خزاں رسیدہ پتوں کی طرح بکھر رہا ہے۔ہر طرف غارت گری کی وبا پھیلی ہوئی ہے، نفرت کی آندھی تباہی کا رقص کر رہی ہے۔

انسان انسان کا دشمن بن چکا ہے۔ عدل و انصاف سرِعام مصلوب اور جھوٹ و فساد برملا مسند آراء ہیں۔ بھائی بھائی کے خون کا پیاسا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی سے انسانیت کے بجھتے چراغوں کو روشن کیا جائے۔

انہیں قرآن و سنت اور اعمال صالحہ کی طرف راغب کیا جائے، مادیت پرستی کے نقصانات سے باخبر کیا جائے، اور اسلام کے سانچے میں خود کو ڈھالنے کی ترغیب دی جائے، اور یہ فریضہ علماء و عالمات پر عائد ہوتا ہے جن کے سروں پر انبیا علیہم السلام کے وارث ہونے کا تاج سجا ہے۔

فلہذا! علماء و عالمات اپنی ذمہ داری کا ادراک کریں، اور دین اسلام کی روشنی لوگوں کے دلوں میں داخل کریں، نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے آئینے میں اپنے معاشرے اور نسلوں کی تربیت کریں،انہیں دین سکھائیں اور قرآن و سنت سے قریب کریں۔

اللہ رب العزت سے دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں اپنی ذمہ داری کو کما حقہ انجام دینے کی توفیق بخشے اپنے دین کی ایک سچی اور اچھی داعیہ و مبلغہ بنائے۔ آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں