عنوان: | اسلام اور رزق حلال |
---|---|
تحریر: | انس رضا حامی برکاتی |
اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ احسان ہے کہ اُس نے ہمیں پاک و حق دین اسلام اور مذہبِ حق اہل سنت و جماعت میں پیدا فرمایا۔ یہ وہ دین ہے جس نے ہمیں انسان بنایا۔
حضرتِ سیدنا عیسیٰ روح اللہ علیٰ نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آسمان پر تشریف لے جانے کے بعد سے پیارے آقا صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وسلم کی پیدائش کا درمیانی زمانہ اس قدر جہالت میں ڈوب چکا تھا کہ اُن کو رہنے اور جینے کا سلیقہ بھی نہیں معلوم تھا۔ ناانصافی اور حرام چیزیں عام ہوگئی تھیں۔ صرف اور صرف دوسروں کا حق چھینا جاتا تھا۔
ایسے میں پوری دنیا کو اللہ پاک نے جہالت کی تاریکی سے نجات بخشی اور اپنے محبوب دانائے غیوب منزہ عن العیوب محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو اس دنیا میں بھیجا۔
سرکارِ اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تشریف لانے کے بعد قرآن و حدیث کے ذریعے لوگوں کو معلوم ہوا کہ زندگی کیسے گزارنی ہے۔ قرآن و حدیث سے ہمیں جتنے خزانے حاصل ہوئے اس میں سے ایک خزانہ رزق حلال کی اہمیت اور حرام کی حرمت بھی ہے۔
یہ زمانہ فتنوں سے بھرا ہوا ہے۔ قرآن و حدیث سے لوگ اس قدر دور ہو چکے ہیں کہ عمل کرنا دور فرمان کے مخالف کام کرتے ہیں، یہاں صرف ایک مسئلہ پر یہ چاکرِ حضور تاج المشائخ امین ملت مدظلہ العالی والنورانی و خاک پائے حضور تاج شریعہ علیہ الرحمۃ بیان کرے گا اور وہ مسئلہ اسلام اور رزقِ حلال ہے۔
آج لوگ جو کماتے ہیں، جو کھاتے ہیں اس پر غور و فکر کرنا چھوڑ چکے ہیں کہ جو ہم کما رہے ہیں وہ حرام کاہے یا حلال کا۔
تفصیلی بیان کو شروع کرنے سے پہلے پیارے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے دو فرامین سے فیض حاصل کر لیں تاکہ یہ مسئلہ کتنا پیچیدہ اور ضروری ہے اس کا علم ہو جائے اور اِس بیان کو آپ بغور پڑھیں۔
یاد رکھیں! حرام مال کمانے اور کھانے کھلانے سے صرف اسلام نے روکا کسی اور باطل مذہب نے نہیں، کیوں؟ اسلام ہی حق ہے اور اسلام ہی درس دیتا ہے کہ دوسروں کو اُس کا حق ملے، کسی سے کسی کا حق نہ چھینا جائے، اور آپس میں سب پیار و محبت سے رہیں اور انسانیت برقرار رہے۔
اسلام صرف امن کا پیغام دیتا ہے اور امن ہی سکھاتا ہے۔ اے مسلمانو! اپنے آپ کو جہنم سے دور رکھو! یاد رکھو حرام کمانے اور کھلانے والا جنت میں نہیں جائے گا۔
حدیثِ پاک ہے:
عَنْ اَبِیْ بَکْرٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَایَدْخُلُ الْجَنَّۃَ جَسَدٌ غُذِّیَ بِالْحَرَامِ۔ (مشکوٰۃ المصابیح: 2787)
ترجمہ: حضرت سیدنا امیرالمؤمنین ابوبکر صدیق رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبئ رحمت علیہ التحیۃ والثناء نے ارشاد فرمایا: وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کو حرام غذا دی گئی۔
اس حدیثِ پاک میں صاف اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جنت میں وہی داخل ہوگا جس نے حلال کمایا اور حلال کھایا اور کھلایا، نیز اس بات پر بھی تنبیہ کی گئی ہے کہ اگر حرام کا ہی کھانا ہے تو جنت کی امید بالکل نہ رکھنا کیونکہ دنیا بدل سکتی ہے مگر فرمانِ نبی کریم صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وسلم نہیں بدل سکتا۔
اِس زمانے میں یہ حدیثِ پاک صاف ظاہر ہے:
عَنْ أَبِیْ ہُرَیْرَۃَ عَنْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ یَأْتِیْ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یُبَالِ الْمَرْءُ مَا اَخَذَ مِنْہُ أَ مِنَ الْحَلَالِ اَمْ مِنَ الْحَرَامِ۔ (صحیح البخاری 2059 و مشکوٰۃ المصابیح: 2761)
ترجمہ: حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ کون و مکاں علیہ التحیۃ والثناء ارشاد فرماتے ہیں: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب کوئی اس بات کی پرواہ نہ کرے گا کہ اُس نے جو مال حاصل کیا وہ حلال کا ہے یا حرام کا۔
اے مسلمانو! غفلت کی نیند سے جاگو اور اپنے مال، کمائی، کھانا، پانی، لباس، مکان، دکان، برتن یہاں تک کہ چپل بھی، سب میں غور کرو کہ حلال کا ہے یا حرام کا۔
اِس مضمون میں تین بیانات ہوں گے:
(1)۔۔۔ قرآنِ پاک اور رزقِ حلال:
حلال کمائی کا حکم: (1)۔۔۔ مولیٰ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
یَآ اَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰہِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ (البقرۃ: 172)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو! کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔
اگر آپ سچ میں اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرتے ہیں تو مولیٰ تعالیٰ نے حکم فرمایا کہ پھر ہماری دی ہوئی ستھری یعنی حلال چیزیں کھاؤ۔ اگر آپ حرام کھانا کھا کر زندگی گزار رہے ہیں تو یہ اللہ پاک کی عبادت نہیں بلکہ شیطان کے بتائے راستے پر چلنا ہے، لہٰذا اس سے خود کو بچائیں۔
(2)۔۔۔ فَكُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللہُ حَلٰلًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ (النحل: 114)
ترجمۂ کنزالایمان: تو اللہ کی دی ہوئی روزی حلال یا پاکیزہ کھاؤ اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو اگر تم پوجتے ہو۔
اگر آپ مسلمان ہو کر بھی کسی کا مال چھین کر، چوری کر کے کھائیں تو گویا آپ نے اللہ تعالیٰ کی نعمت کو ٹھکرا دیا، نعمت کا شکر کرنے کے بجائے حرام کھا کر آپ نے اپنے رب کو ناراض کیا، تو جو رب کو ناراض کر دے اُس کو جنت کیسے مل سکتی ہے؟ اور پڑھیں!
(3)۔۔۔ یَآ اَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ (البقرۃ: 168)
ترجمۂ کنزالایمان: اے لوگوں کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
ابھی جو دو آیتیں ذکر ہوئیں اُس میں تو ایمان والوں کو حلال روزی و حلال کمائی کا حکم تھا اِس آیت میں سبھی سے خدائے تعالیٰ نے کلام فرمایا ہے اور حکم دیا ہے کہ حلال روزی کھاؤ، اور جو حرام سے اپنا گھر چلائے اور پیٹ بھرے گویا وہ اپنے کھلے دشمن شیطان کی راہ پر چل رہا ہے۔
کسی سے کسی کی دشمنی ہو جائے تو وہ چہرہ بھی نہیں دیکھتا تو لوگوں نے شیطان جیسے دشمن کو دوست کیوں اور کیسے بنا رکھا ہے؟
(4)۔۔۔ حلال روزی کا حکم عام لوگوں کو ہی نہیں انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کو بھی دیا گیا تھا تاکہ لوگ جان لیں کہ حلال روزی و کمائی کی کتنی اہمیت و فضیلت ہے کہ جو حکم انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کو دیا گیا وہی ہمیں بھی، چنانچہ ہر عیب سے پاک خالقِ کائنات نے ارشاد فرمایا اور انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام سے کلام فرمایا:
یٰآَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ (المؤمنون: 51)
ترجمۂ کنزالایمان: اے پیغمبروں پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو مَیں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں۔ گویا حلال رزق اور اعمالِ صالحہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی سنت بھی ہے، سبحان اللّٰه تعالیٰ۔
حرام کمائی سے ممانعت:
(1)۔۔۔ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:
وَلَا تَاْكُلُوْآ اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَآ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ (البقرۃ: 188)
ترجمۂ کنزالایمان: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لیے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو جان بوجھ کر۔
تفسیرِ خزائن العرفان میں ہے: اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا چاہے وہ لوٹ کر، چھین کر، یا چوری سے یا جھوٹ سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی یا چغل خوری سے ہو، یہ سب ممنوع و حرام ہے۔
یہ ہے اسلام کا درس کہ کسی بھی غلط طریقے سے کسی دوسرے کا مال نہ کھاؤ، اگر کھاؤ گے گویا جسم کو حرام غذا دو گے اور وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
یٰآَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْآ اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْوَ وَ لَا تَقْتُلُوْآ اَنْفُسَكُمْؕ اِنَّ اللہَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا (البقرہ: 29)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضامندی کا ہو۔
یعنی کوئی چیز آپس میں مل کر کے خرید و فروخت کرے تب تو اللّٰه تعالیٰ کی رضا ہے اور اگر کسی دوسرے کا مال ظلم کر کے یا چوری کر کے غرض کہ کوئی بھی غلط قدم اٹھا کر چھین لے تو وہ مال حرام ہے، حرام مال سے خریدا ہوا کھانا حرام، پانی حرام، کپڑا حرام، گھر حرام بلکہ سب حرام، اور حرام جسم میں گیا وہ جسم جنت میں داخل نہیں ہوگا۔
جیسا کہ نبئ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرمان سے ظاہر ہے۔ نیز مسلم شریف کی حدیثِ: 2346 میں ہے: حرام خور (حرام کھانے والے) کی دعا قبول نہیں ہوتی۔
رشوت سے ممانعت:
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا:
کُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنَٰكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِىْ ۖ وَمَنْ يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِىْ فَقَدْ هَوىٰ (طه: 81)
ترجمۂ کنزالایمان: کھاؤ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں روزی دیں اور اُس میں زیادتی نہ کرو کہ تم پر میرا غضب اترے اور جس پر میرا غضب اترے بے شک وہ گرا (گرا جہنم میں یعنی وہ ہلاک ہوا)
ابوداؤد شریف کی حدیث: 3580 میں ہے رشوت دینے اور لینے والے پر اللہ جل و علا و رسول ﷺ نے لعنت بھیجی ہے۔
سود کی حرمت:
(1)۔۔۔خدائے تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
يٰآَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَأْكُلُوْا الرِّبوٰٓا أَضْعٰفًا مُّضَٰعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللہَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ (آل عمران: 130)
ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو سود دونا دون نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو اس امید پر کہ تمہیں فلاح ملے۔
(2)۔۔۔ قرآن مقدس میں ارشاد ہوا:
اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْآ اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ (البقرہ: 175)
ترجمۂ کنزالایمان: وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑے ہوتے ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مضبوط کر دیا ہو یہ اس لیے کہ انھوں (کافروں) نے کہا بیع بھی تو سود ہی کے مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود۔
بیع: خرید و فروخت سے، ایمانداری سے کما کر اپنا گھر چلائیں۔ سود سے اور غضبِ الٰہی سے خود کو اور اہلِ خانہ کو بچائیں۔ اب فرامینِ خدائے ذوالجلال کے بعد فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو بیان کیا جاتا ہے۔
احادیثِ کریمہ اور رزقِ حلال:
(1)۔۔۔ حلال روزی ہر فرض کے بعد فرض ہے:
عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ طَلْبُ کَسْبِ الْحَلَالِ فَرِیْضَۃٌ بَعْدَ الْفَرِیْضَۃِ۔ شعب الإيمان للبيهقي: 1135)
ترجمہ: حضرت عبداللّٰه بن مسعود رضی اللّٰه تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ کون و مکاں صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حلال روزی کی طلب (حلال رزق حاصل کرنا شریعت کے دیگر) فرائض کے بعد فرض ہے۔
(2)۔۔۔ آپ کی ایمانداری سے کمایا ہوا ہی حلال اور آپ کا ہے:
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قَالَ النَّبِیُّ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنْ اَطْیَبَ مَا اَکَلْتُمْ مِنْ کَسَبِکُمْ وَ اِنْ اَوْلَادَکُمْ مِنْ کَسَبِکُمْ۔ (مشکوٰۃ المصابیح: 2770)
ترجمہ: حضرتِ ام المؤمنین عائشہ رضی اللّٰه تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اخر الزماں صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بہت پاکیزہ غذا جو تم کھاؤ تمہاری اپنی کمائی، اور تمہاری اپنی اولاد تمہاری اپنی کمائی ہے۔
(3)۔۔۔ حرام کمائی سے کچھ فائدہ نہیں صرف خسارہ اور سببِ غضبِ الٰہی اور رسول صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
عَنْ عَبْدِاللہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ عَنْ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ لَایَکْسِبُ عَبْدٌ مَالَ حَرَامَ فَتَیَصْدِقُ مِنْہُ فَیُقْبَلُ مِنْہُ لَایُنْفِقُ مِنْہُ قُبَا بَارَکَ لَهٗ وَ لَایَتْرُکُهٗ خَلْفَ ظَھْرِہٖ اِلَّا کَانَ زَادَہٗ اِلَی النَّارِ اِنَّ اللہَ لَا یَمْحُوْا السَّیِّئَ بِالسَّیِّئِ وَ لٰکِنْ یَمْحُوْا السَّیِّئَ بِالْحَسَنِ اِنَّ الْخَبِیْثَ لَایَمْحُوْا الْخَبِیْثَ۔ (مشکوٰۃ المصابیح: 2771)
ترجمہ: حضرتِ سیدنا عبداللّٰه ابن مسعود رضی اللّٰه تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی بندہ حرام مال کمائے پھر اس سے خیرات (زکوٰۃ و صدقات) کرے تو وہ قبول ہو جائے اور نہ یہ کہ اُس (حرام مال) سے خرچ کرے تو اس میں برکت ہو، اور اس حرام مال کو اپنے موت کے بعد کے لیے نہ چھوڑے ورنہ یہ اس کا آگ کا توشہ ہے، بے شک اللہ تعالیٰ برائی سے برائی نہیں مٹاتا لیکن بھلائی سے برائی مٹاتا ہے، یقینا پلید پلید کو نہیں مٹاتا ہے۔
جو اپنے رزق اور اپنی کمائی میں غور و فکر نہیں کرتے وہ اس حدیثِ پاک سے اپنے آپ میں غور و فکر کریں۔ ہر کوئی اپنی کمائی میں نظر کرے کہ جو ان کے پاس آیا کہاں سے آیا، کتنے کا خرید رہے تھے کتنا ملا، زیادہ تو نہیں وغیرہ۔ اگر حرام لقمہ جسم میں گیا تو جنت سے دور ہو جائیں گے، برکت ختم ہو جائے گی، لہٰذا اپنے رزق میں غور و فکر کریں!
(4)۔۔۔ حلال رزق و کمائی کے لیے کوشش انبیاء بھی کرتے تھے ارشاد نبوی ہے:
عَنِ الْمِقْدَادِ بْنِ مَعَدِیْ کَرِبَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَا اَکَلَ اَحَدٌ طَعَاماً قَطُّ خَیْراً مِنْ اَنْ یَاْکُلَ مِنْ عَمَلِ یَدَیْہِ وَ اَنَّ نَبِیَّ اللہِ دَاؤُدُ عَلَیْہِ السَّلَامُ کَانَ یَأْکُلُ مِنْ عَمَلِ یَدَیْہِ۔ (مشکوٰۃ المصابیح: 2759)
ترجمہ: حضرت مقداد ابن مادیکرب سے روایت ہے کہ حضور پُرنور صلی اللّٰه تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کسی شخص نے کبھی کوئی کھانا اس سے اچھا نہ کھایا کہ انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کھائے، اللہ کے نبی حضرت سیدنا داؤد علی نبینا علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ہاتھوں سے کما کر کھاتے تھے۔
حضرتِ سیدنا داؤد علیہ الصلوٰۃ والسلام بادشاہ تھے مگر پھر بھی اپنے ہاتھوں سےمحنت کر کے کماتے اور کھاتے تھے، کبھی خزانہسےخود پر خرچ نہ فرمایا، روزانہ ایک زرّہ بناتے تھے جسے چھ ہزار درہم میں فروخت کرتے تھے۔ ایک ہزار اپنے اہلِ خانہ پر خرچ فرماتے تھے اور چار ہزار فقرائے بنی اسرائیل پر صَرف فرماتے تھے۔
غور کریں انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام رزقِ حلال اور حلال و جائز کمائی کے لیے اتنی محنت کرتے تھے تو ہماری کیا اوقات کہ ہم ان پاکیزہ حضرات کے طریقے کی خلاف ورزی کر سکیں؟
خاتمہ میں مندرجہ ذیل چند مفید باتیں ذکر کی جاتی ہیں جن پر عمل لازم جانیں!
(1)۔۔۔ جو بھی کمائی ہو رہی ہو خوب غور و فکر کریں کہ کہاں سے آیا، کیسے آیا اور کتنا آیا۔
(2)۔۔۔ جو حلال کما کر گھر لائیں حساب سے خرچ بھی کریں، جمع کر دینا سوچ کر اہلِ خانہ پر بخیل نہ بنیں۔
(3)۔۔۔ کسی کا مال غصب نہ کریں کہ وہ بھی مال حرام کا ہوگا۔
(4)۔۔۔ چوری اور ظلم سے مال حاصل کرنا بھی حرام ہے۔
(5)۔۔۔ اپنی محنت کی کمائی سے کھائیں اور زندگی گزاریں۔
(6)۔۔۔ وہ ”کام“ جس میں نماز و جملہ عبادات کے لیے بھی وقت نہ دیا جائے وہ بھی حرام ہے۔
(7)۔۔۔ نشہ اور خراب چیزیں جیسے سیگریٹ، بیڑی، گٹکھا، تمباکو وغیرہ پر مال خرچ کرنا فقط مال کو ضائع کرنا ہے جو جائز نہیں!
پیغامِ برکات:
اپنے رزق اور اپنی کمائی پر خوب غور کریں اور حرام مال و لقمہ پیٹ میں اور گھر میں قطعی نہ جائے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں شریعت پر زندگی گزارنے اور حلال کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔