عنوان: | خشیت الٰہی کیا ہے؟ |
---|---|
تحریر: | محمد انعام خان قادری مرکزی |
خشیتِ الٰہی کا معنی لوگوں نے الگ الگ انداز میں بیان کیا ہے۔ مطلقاً خوف دو طرح کا ہوتا ہے: ایک اللہ رب العزت کا خوف اور ایک اللہ کے علاوہ اس کی مخلوق کا خوف۔
اللہ کی مخلوق کا خوف یہ ہے کہ جس سے ڈرا جائے، اس سے بھاگا جائے، اور اللہ رب العزت کا خوف یہ ہے کہ اللہ رب العزت سے ڈرا جائے اور اسی کی طرف بھاگا جائے۔
جیسا کہ اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ اخْشَوْنِیْۗ (البقرہ: 150)
ترجمہ کنزالایمان: اور مجھ سے ڈرو۔
اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ (البقرہ: 40)
ترجمہ کنزالایمان: اور خاص میرا ہی ڈر رکھو۔
اور دوسرے لفظوں میں اس طرح تعریف کی گئی ہے:
الخوف من الله تعالى عبادة يتقرب بها العبد إلى الله، وهى من عبادات القلب، وليس لها عمل ظاهر على الجوارح۔
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کا خوف ایسی عبادت ہے جس کے ذریعے بندہ اللہ کے قریب ہوتا ہے، اور وہ دلی عبادت ہے، اس کا اثر اعضائے بدن پر ظاہر نہیں ہوتا۔
یہ یاد رکھیں کہ یہ اعضائے بدن پر ظاہر نہیں ہوتا، لیکن اعضائے بدن سے ضرور ظاہر ہوتا ہے، جیسا کہ جب بندہ اللہ رب العزت سے ڈرتا ہے تو گناہوں کو چھوڑ کر عبادت کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ بندہ جب اللہ رب العزت سے ڈرتا ہے تو اس کا ہر عضو اللہ سے خوف کھاتا ہے۔ جیسے:
دل کا خوف: بغض و کینہ سے پاک ہو اور اخوت و محبت سے لبریز ہو۔
زبان کا خوف: غیبت، چغلی، جھوٹ ان سب سے پاک ہو اور اللہ رب العزت کے ذکر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت اور تلاوتِ قرآن میں لگا رہے۔
ہاتھ کا خوف: دوسروں کو تکلیف دینے، ظلم و زیادتی کرنے اور حرام کام میں ملوث ہونے سے محفوظ رہے، بلکہ دوسروں کی مدد میں لگا ہو۔
آنکھ کا خوف: حرام چیز دیکھنے اور بدنظری سے محفوظ رہے، اللہ رب العزت کی خشیت میں بہتی رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار کا مشتاق ہو۔
کان کا خوف: دوسروں کی غیبت و چغلی سننے سے محفوظ رہے اور تلاوتِ قرآن، ذکرِ الٰہی اور نعتِ مصطفیٰ سننے میں مگن رہے۔
پیر کا خوف: حرام چیز اور ظلم و زیادتی کی طرف نہ بڑھے، بلکہ اللہ رب العزت کی اطاعت کی طرف بڑھے، نماز کے لیے اور دوسروں کی مدد کے لیے بڑھے۔
اطاعت کا خوف: اپنی عبادت کو خالص اللہ رب العزت کے لیے کرے اور دکھاوے و شہرت طلبی سے محفوظ رہے۔
ایمان کا خوف: سب سے بڑی نعمت ”ایمان“ کے بارے میں ہر وقت خوفزدہ رہنا چاہیے کہ کہیں ایسا فعل سرزد نہ ہو جائے جس سے ہمارا ایمان ضائع ہو جائے اور اعمال برباد ہو جائیں۔ لہٰذا ایسی چیزوں سے ہمیشہ محفوظ رہے جن سے قرآن اور حدیث میں بچنے کا حکم وارد ہوا ہے۔
خشیتِ الٰہی کا سیدھا سا مطلب یہ ہے کہ جو شخص اللہ رب العزت کا خوف اپنے سینے میں بسائے، وہ تمام ظاہر و باطن گناہوں کو چھوڑ کر یکسو ہو کر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سربسجود ہو جائے۔ اگر کوئی شخص گناہوں کو نہیں چھوڑتا اور خشیتِ الٰہی کا دعویٰ کرتا ہے، تو یہ دعویٰ بلا دلیل ہے۔
اللہ رب العزت کا یہ فرمان متوجہ ہوگا:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ (الصف: 2)
ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو! کیوں کہتے ہو وہ جو نہیں کرتے؟
تو ہمیں چاہیے کہ اپنے ظاہر و باطن دونوں طرح سے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں۔
اللہ ہمیں خوب عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم۔
مضمون نگار جامعۃ الرضا کے تعلیمی سال 2024/25 کے فارغ التحصیل ہیں۔ {alertInfo}