عنوان: | خشیت الٰہی |
---|---|
تحریر: | محمد انعام خان قادری مرکزی |
اللہ رب العزت کا ڈر ہی سب کچھ ہے، یعنی خشیتِ الٰہی بہت بڑی چیز ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں جگہ جگہ اس کا حکم ارشاد فرماتا ہے، اور اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بھی صحابہ کرام کو خشیتِ الٰہی کا حکم ارشاد فرمایا۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اس قدر خشیتِ الٰہی رکھتے تھے کہ آپ سے زیادہ خشیتِ الٰہی والا نہ کبھی ہوا اور نہ ہوگا۔
کیونکہ خشیتِ الٰہی ہی سب نیکیوں کی جڑ ہے۔ بندہ جب اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو اس کا دل نیکیوں کی طرف راغب ہوتا ہے اور برائیوں سے باز رہنے کی کوشش کرتا ہے۔
اللہ کے رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں:
رأس الحکمة مخافة الله۔ (کنز العمال: 5873)
ترجمہ: حکمت کا سرچشمہ اللہ رب العزت کا خوف ہے۔
خشیت الہٰی کی اہمیت قرآن پاک میں کس قدر ہے، اس کا اندازہ ان آیات کریمہ سے لگایا جا سکتا ہے۔
اللہ کریم قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنِ (المائدہ: 44)
ترجمہ کنز الایمان: تو لوگوں سے خوف نہ کرو اور مجھ سے ڈرو۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا (الأحزاب: 70)
ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔
یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِیْرًا وَّنِسَآءًۚ-وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْ تَسَآءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَیْكُمْ رَقِیْبًا (النساء:1)
ترجمہ کنز الایمان: اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا، اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلا دیں، اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو، بیشک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ (آل عمران:102)
ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان۔
وَیُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهٗؕ (آل عمران: 28)
ترجمہ کنز الایمان: اور اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے۔
جس طرح قرآن پاک میں خشیت الٰہی کی اہمیت ہے، اسی طرح احادیث طیبہ سے بھی خشیت الہٰی کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
یہاں چند احادیث ذکر ہیں:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ النَّاسِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: كُلُّ مَخْمُومِ الْقَلْبِ صَدُوقِ اللِّسَانِ، قَالُوا: صَدُوقُ اللِّسَانِ نَعْرِفُهُ، فَمَا مَخْمُومُ الْقَلْبِ؟ قَالَ: هُوَ التَّقِيُّ النَّقِيُّ، لَا إِثْمَ فِيهِ، وَلَا بَغْيَ، وَلَا غِلَّ، وَلَا حَسَدَ (ابن ماجہ: 4216)
ترجمہ: عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے بہتر کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہر صاف دل، زبان کا سچا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: زبان کے سچے کو تو ہم سمجھتے ہیں، صاف دل کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: پرہیزگار (خشیتِ الٰہی رکھنے والا) صاف دل، جس میں کوئی گناہ نہ ہو، نہ بغاوت، نہ کینہ اور نہ حسد۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَكْثَرُ مَا يُدْخِلُ الْجَنَّةَ؟ قَالَ: التَّقْوَى وَحُسْنُ الْخُلُقِ۔ وَسُئِلَ مَا أَكْثَرُ مَا يُدْخِلُ النَّارَ؟ قَالَ: الْأَجْوَفَانِ: الْفَمُ وَالْفَرْجُ (ابن ماجہ: 4246)
ترجمہ: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا: کون سے کام لوگوں کو زیادہ تر جنت میں داخل کریں گے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: تقویٰ (اللہ تعالیٰ کا خوف) اور حسنِ اخلاق۔ اور پوچھا گیا: کون سے کام زیادہ تر آدمی کو جہنم میں لے جائیں گے؟ فرمایا: دو کھوکھلی چیزیں، منہ اور شرمگاہ۔
ان آیاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ سے یہ پتہ چلا کہ اللہ رب العزت ہی زیادہ ڈرنے کا حقدار ہے۔ جب اللہ رب العزت کی خشیت ہمارے دل میں ہوگی، تبھی ہماری عبادات میں خشوع و خضوع آئے گا۔ جب ہمارے دل میں یہ خیال ہوگا کہ ہمارا رب ہمیں دیکھ رہا ہے، تو ہمارے دل میں اس کی عبادت کرنے کا جذبہ پیدا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی عبادت خلوص کے ساتھ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔