✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

خوش رہنے کے کچھ رہنما اصول

عنوان: خوش رہنے کے کچھ رہنما اصول
تحریر: مولانا خلیل احمد فیضانی

یہ زندگی ہماری ہے، تو اس کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں۔ اس مختصر سی زندگی میں مصائب بھی درپیش ہوتے ہیں اور مشکلات کے جھونکے بھی چلتے ہیں، مگر ایسے کوہ‌شکن حالات میں بھی خوش، پُرمسرت اور پُرعزم رہنا ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔

جو شخص اس نوعیت کا ذہن رکھتا ہے، وہ کبھی بھی پریشاں‌ خاطر نہیں ہوسکتا۔ اسے ہم ایک واقعہ سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو کچھ اس طرح ہے کہ:

بھری محفل میں کسی نے ایک عورت سے پوچھا کہ کیا آپ کا شوہر آپ کو خوش رکھتا ہے؟

محفل میں سناٹا چھا گیا۔ اس کا شوہر پُراعتماد تھا کہ اس کی بیوی مثبت جواب دے گی، کیوں کہ جب سے ان کی شادی ہوئی تھی، بیوی نے کبھی بھی پریشانی و دل شکنی کا شکوہ نہیں کیا تھا۔

لیکن بیوی کے جواب نے پارٹی میں موجود تمام افراد کو حیران کر دیا۔

اس نے کہا: نہیں! میرا شوہر مجھ کو خوش نہیں رکھتا۔

جواب سن کر شوہر کو شدید دھچکا لگا کہ ہمیشہ خوش رہنے والی بیوی نے یہ غیر متوقع جواب کیسے دے دیا۔

محفل میں موجود سبھی لوگ سراپا حیرت بنے، کبھی شوہر کو دیکھتے تو کبھی بیوی کو تکتے۔

بیوی نے اپنی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا: آپ لوگ حیران نہ ہوں کیوں کہ مجھ کو خوش رکھنا میرے شوہر کی ذمہ داری ہے ہی نہیں۔ جب ان کی ذمہ داری ہی نہیں ہے تو پھر ان کا کوئی قصور بھی نہیں ہے۔

پھر اس نے کہا: میری خوشی کا دار و مدار میرے شوہر پر نہیں، مجھ پر ہے۔ یہ میرا اپنا فیصلہ ہے، قطع نظر اس کے کہ میرا شوہر میرے ساتھ کیسا برتاؤ کر رہا ہے، مجھ کو زندگی میں کن حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔

اگر میں حماقت سے اپنی خوشی کا کنٹرول کسی اور کے ہاتھ میں دے دیتی ہوں اور وہ میری توقعات پر پورا نہیں اتر پاتے تو یقیناً مجھ کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا، جس کی ذمہ دار میں خود گردانی جاؤں گی۔

پھر اس نے کہا: ہماری زندگی میں مسلسل حالات بدلتے رہتے ہیں، ہماری صحت میں تبدیلیاں واقع ہوتی رہتی ہیں، ہماری محبتیں بدلتی رہتی ہیں، غرض یہ کہ دنیا بھر میں ہمیشہ تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں۔

لیکن یاد رکھنا: میری خوشی کا تعلق خارجی حالات سے نہیں ہے۔

خوش رہنے کا فیصلہ میں نے خود کیا ہے کہ میں نے ہمیشہ اور ہر حال میں خوش رہنا ہے، کیوں کہ قدرت نے میری خوشیوں کے خزانوں کی چابیاں میرے ہاتھ میں دے رکھی ہیں۔

اور میرا حال یہ ہے کہ میں نے چھوٹی چھوٹی چیزوں میں خوشیاں تلاش کرکے دل میں موجود خوشی کی کیفیت کو ثابت رکھنے کی ایسی مشق کر لی ہے کہ اب مجھ کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ خارج میں حالات کیسے ہیں۔

میرے پاس بڑا گھر ہے یا چھوٹا، آمدنی زیادہ ہے یا کم، اکیلی ہوں یا فیملی کے ساتھ۔

مزید اس نے کہا کہ کل میں سنگل تھی، تب بھی خوش تھی، آج شادی شدہ ہوں، تب بھی خوش ہوں، کیوں کہ خوش رہنے کا فیصلہ میں پہلے سے کر چکی ہوں اور خود کو خوش رکھنا میں اپنی ذمہ داری سمجھتی ہوں۔

اور جہاں تک میرے شوہر کا تعلق ہے، تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک عظیم انسان ہیں، مجھ سے محبت کرتے ہیں اور حتی المقدور خوشیوں کے اسباب بھی مہیا کرتے ہیں۔

سبق: اس حکایت سے ہمیں سبق یہ ملتا ہے کہ ہمیں اپنی خوشی کا ریموٹ کسی اور کے ہاتھ میں نہیں دینا چاہیے، کیوں کہ اپنی خوشیوں کا سبب دوسروں کو سمجھنا گویا فکری طور پر غلامی قبول کرنا ہے۔

جس طرح ہم خود کسی کی غلامی قبول نہیں کرنا چاہتے، تو اپنی خوشیوں کو دوسروں کی غلامی میں کیسے دے سکتے ہیں؟

اس لیے اپنی خوشی کی باگ ڈور کسی کے ہاتھ میں مت دیجیے۔ ممکن ہے کہ وہ آپ کی ڈور پکڑ کر ساری زندگی پتنگ کی طرح آپ کو اِدھر اُدھر گھماتا ہی رہے۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ آپ اپنے اندر ہی خوش رہنے کا ہنر ڈیولپ کریں۔

ایک شخص کو بہت بڑا ایوارڈ ملنے جا رہا تھا، اس لیے حسبِ روایت کئی اینکرز اس کے پاس آئے اور پوچھا: آپ کو اپنے اس شعبے کا منفرد و نمایاں ایوارڈ ملنے جا رہا ہے، جو بلا شبہ آپ کی زندگی کا سب سے خوشگوار اور حسین ترین لمحہ ہے۔

آپ یہ بتائیں کہ اس کے علاوہ آپ کی زندگی میں ایسے کتنے لمحات آئے ہیں کہ آپ آج کی طرح یا اس سے بھی زیادہ خوش ہوئے ہوں؟

تو اس دانا شخص نے جواب دیا: پہلی بات تو یہ جان لو کہ آج اس ایوارڈ کا ملنا میری زندگی کا سب سے خوبصورت اور حسین لمحہ نہیں ہے، کیوں کہ میری زندگی میں تو اس طرح کے یا اس سے بھی زیادہ خوشی کے لمحات آتے رہتے ہیں۔

اینکرز نے تعجب سے پوچھا: ایسے حسین لمحات تو کسی کسی کی زندگی میں، وہ بھی کبھی کبھی آتے ہیں، اور آپ ہیں، جو لااُبالی سے فرمائے جا رہے ہیں کہ ایسے موقعے تو بار بار آتے ہی رہتے ہیں۔ ہمیں بھی بتائیں کہ آخر وہ کون سے لمحات ہیں جن میں آپ کی خوشی کی ایسی شاندار ہریالی پنہاں ہے؟

اس نے کہا: بس معمولی سی بات ہے، اور وہ یہ کہ جب میں صبح سویرے بیدار ہو کر اپنی چلتی ہوئی سانسوں کو محسوس کرتا ہوں اور اپنے وجود کی رعنائیوں کو دیکھتا ہوں، تو مجھ کو ایک نئے دن کی شروعات کرنے اور نئی زندگی میں قدم رکھنے پر ایسی خوشی ملتی ہے کہ میں بیان کرنے سے عاجز ہوں، اور وہ لمحہ میرے لیے اس لمحے سے بہتر و حسین ہوتا ہے۔

تو یقیناً یہ چیز بہت بڑی نعمت ہے کہ ہمارے رب نے ایک بار پھر ہمیں زندگی میں کچھ کر گزرنے کا موقع دیا ہے، ایک بار پھر سنبھل جانے کا گولڈن چانس دیا ہے۔ اس پر ہمیں شکر کرنا چاہیے اور خوش رہنا چاہیے۔

اصلی خوشی کا تعلق آپ کی سوچ کے ساتھ ہے۔ آپ نے اگر اپنی خوشی کو سونے چاندی کے حصول پر منحصر کر رکھا ہے، تب تو آپ کو خوشی اس وقت نصیب ہوگی جب یہ چیزیں آپ کو حاصل ہو جائیں۔

لیکن اس کے برعکس، اگر آپ نے کفایت شعاری کو اپنایا اور قناعت اختیار کی، تو صرف دو وقت کی روٹی ہی آپ کو خوشی محسوس کروا سکتی ہے، اور ہفتوں کی فاقہ کشی بھی آپ کے لیے غم کا سبب نہیں بن سکتی۔

جو چیز آپ کو پسند آ رہی ہے، اس کو حاصل کرنا شروع کر دیں، یعنی اس کے حصول میں سرگرمِ عمل ہو جائیں اور جدوجہد کی ایک مثال قائم کر دیں۔

یا جو چیزیں آپ کو حاصل ہیں، ان پر قناعت کا ذہن بنانا شروع کریں اور ان حاصل شدہ اشیا کو پسند کرنا شروع کر دیں، یعنی اپنے اندر شکر گزاری کا مزاج پیدا کر دیں۔ آپ یقیناً اپنی زندگی میں خوشی محسوس کریں گے،

المیہ یہ ہے کہ بعض اوقات ہم اپنی خوشی کا اظہار ہی لوگوں کو جلانے کے لیے کرتے ہیں، لیکن یاد رکھیں لوگ جلیں نہ جلیں، آپ کی خوشی جل کر ضرور نذرِ غم و الم ہو جائے گی۔

اس لیے زندگی میں جب بھی آپ کو کوئی خوشی نصیب ہو، تو بجائے لوگوں کو جلانے کے، ان کو خوش کرنے کا ذہن بنائیے۔ یقیناً آپ کی خوشی کو دوام حاصل ہوگا۔

اس لیے تو کہا جاتا ہے: اگر خوشی حاصل کرنی ہے تو خوشیاں بانٹنے کا مزاج پیدا کیجیے۔

بعض حضرات ماضی کی غلامی میں جکڑے ہوتے ہیں، تو بعض مستقبل میں چھلانگ لگانے کی پلاننگ بنا رہے ہوتے ہیں۔

نتیجہ دونوں کا غم و خوف کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔

اس لیے اپنے حال پر رحم کھاتے ہوئے حال کو غنیمت جانیے اور حالات کو بدلنے کی سعی کیجیے۔

ہر چیز کے کچھ مثبت پہلو ہوتے ہیں تو کچھ منفی۔ اگر آپ کسی چیز میں منفی پہلو نکالنے کے بجائے مثبت پہلو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں، تو یقیناً آپ ایک کامیاب انسان ہیں۔

خود اعتمادی پیدا کریں، مستقل مزاجی اپنائیں، ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کریں، کتابوں سے دوستی کریں، اور سب سے بڑھ کر، رب تعالیٰ سے اپنے تعلق کو مضبوط تر بنائیں۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں