عنوان: | کتاب چور |
---|---|
تحریر: | حسین رضا اشرفی مدنی |
قارئین! آپ نے معاشرے میں کئی طرح کے چور دیکھے اور ان کے بارے میں سنا ہوگا۔ کوئی سونا چاندی چراتا ہے، کوئی روپیہ پیسہ، کوئی سامان چراتا ہے، تو کوئی دیگر اشیا۔
اسی طرح کچھ افراد عبادت میں چوری کرتے ہیں، نماز کو صحیح طریقے سے نہیں پڑھتے، رکوع و سجود صحیح ادا نہیں کرتے۔
لیکن چوروں کی اقسام میں ایک اور قسم کا اضافہ ہوا ہے، وہ ہے "مضمون چور"! اور ایسے افراد کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ جائے آہ و فغاں یہ ہے کہ یہ چوری بسا اوقات وہ افراد کرتے ہیں جن کے نام کے آگے علامۂ دہر، محققِ اہلِ سنت اور مناظرِ اسلام جیسے القاب ہوتے ہیں۔
اب یہ لمبے چوڑے القاب دیکھ کر ذہن میں سوال آتا ہے کہ کیا واقعی یہ حضرت محقق و مناظر ہیں، یا لفظ محقق اور مناظر بھی انہوں نے چرا لیا ہے؟ محقق کا کام تو تحقیق ہے، نہ کہ چوری!
حقیقت میں اگر یہ ان القاب کے حامل ہوتے، تو ایسی رذیل حرکت ہرگز نہ کرتے۔ اور اگر یہ واقعی محقق ہیں، تو جب محقق ہی چوری کرنے لگ جائے، تو عوام سے کیا شکوہ؟ العوام کالانعام!
فرق صرف اتنا ہے کہ عوام اپنے کام کی چیزیں، یعنی دنیاوی مال و دولت چراتی ہے، اور یہ حضرات اپنے کام کی چیز!
ہمیشہ یہ ذہن میں رکھیں کہ کسی قلم کار کی کتاب، تحریر اور اس کا مضمون، اس کا قیمتی سرمایہ ہے، جسے وہ بڑی محنت سے تیار کرتا ہے! بسا اوقات اس میں کئی دن، بلکہ مہینے اور سال بھی صرف کر دیتا ہے۔
اگر آپ کو محرر بننے کا اتنا شوق ہے، تو خود کوشش کریں، لکھیں! آپ بھی اچھا لکھ سکتے ہیں۔ اور اگر خود میں یہ صلاحیت نہیں پاتے، تو دوسرے کا مضمون اسی کے نام سے آگے شیئر کریں۔ علمِ دین پہنچانے کا آپ کو پورا ثواب ملے گا، آپ کے ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔
لیکن کسی کا مضمون چرا کر، دو چار حرف آگے پیچھے کر کے، ایک دو حوالے بڑھا کے، اسے اپنے نام سے منسوب کر لینا—اخلاقاً بھی جرم ہے اور شریعتِ مطہرہ بھی اس کی پذیرائی نہیں کرتی۔
اللہ تعالیٰ ایسے افراد کو ہدایت اور اس گھٹیا و رذیل حرکت سے نجات عطا فرمائے۔ آمین!