عنوان: | کیا سیاسی اقتدار ہی سب کچھ ہے؟ |
---|---|
تحریر: | سلمیٰ شاھین امجدی کردار فاطمی |
آج امتِ مسلمہ، خصوصاً ہمارے ملک کے مسلمانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی اقتدار ہی سب کچھ نہیں ہوتا۔ نہ یہ ہر مسئلے کا حل ہے اور نہ ہی دین پر چلنے میں سب سے بڑی رکاوٹ۔ اگر صرف سیاسی انقلاب کسی قوم کی حالت بدل سکتا تو آج دنیا کے 52 مسلم ممالک میں مکمل اسلامی نظام قائم ہو چکا ہوتا۔
لیکن ایسا نہیں ہے، کیوں کہ اصل مسئلہ سماجی اور اخلاقی کمزوری کا ہے، نہ کہ محض اقتدار کے نہ ہونے کا۔
کیا اقتدار تمام مسائل کا حل ہے؟
اگر فرض کریں کہ کل پوری پارلیمنٹ فنا کر دی جائے اور تمام حکومتی مناصب مسلمانوں کے سپرد کر دیے جائیں، تو کیا:
بے نمازی ختم ہو جائیں گے؟ بے پردگی مٹ جائے گی؟ سودی نظام جڑ سے ختم ہو جائے گا؟ خاندانوں میں بکھراؤ ختم ہو جائے گا؟ عدالتوں میں دائر مقدمات خودبخود حل ہو جائیں گے؟
یہ سب سوچنے کی باتیں ہیں! اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسئلہ صرف اقتدار کا نہیں بلکہ سماجی و اخلاقی بگاڑ کا ہے۔
سیاسی اقتدار اور مسلم ممالک کی حقیقت:
دنیا میں 52 مسلم ممالک موجود ہیں، جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور برسوں سے مسلمان حکمران ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بہت سے مسلم ممالک میں نماز پڑھنے والوں کی تعداد ہمارے ملک سے زیادہ نہیں ہے، وہاں بہنوں کو میراث میں ان کا حق دینے کا رجحان ہم سے زیادہ نہیں ہے۔
اگر سیاسی اقتدار ہی سب کچھ ہوتا تو ان ممالک کے مسائل حل ہو چکے ہوتے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، کیوں کہ اگر سماجی و اخلاقی بگاڑ برقرار رہے، تو اقتدار میں آنے کے باوجود حقیقی تبدیلی ممکن نہیں ہوتی۔
اخلاقی ترقی اقتدار کے بغیر ممکن:
کچھ افریقی ممالک میں، جہاں مسلمان سیاسی لحاظ سے کمزور ہیں، وہاں دینی و اخلاقی ترقی حیران کن ہے۔ مثال کے طور پر:
تنزانیہ میں، جہاں لوگوں کو دن میں صرف ایک وقت کا کھانا ملتا ہے، وہاں تہجد میں مساجد بھر جاتی ہیں اور لوگ تحیۃ الوضو کا اہتمام کرتے ہیں۔
کچھ ممالک میں مائیں خود بچوں کو ابتدائی دینی تعلیم دیتی ہیں، ہزاروں اشعار زبانی یاد کرائے جاتے ہیں، کئی قراءتوں میں قرآن پڑھایا جاتا ہے، اور خواتین گھر کے کام کاج کے دوران بھی قرآن کی تلاوت جاری رکھتی ہیں۔
یہ سب کچھ بغیر سیاسی اقتدار کے ممکن ہوا، کیوں کہ وہاں دینی بیداری اور منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا گیا۔
قرآن کی روشنی میں حقیقی کامیابی کا راستہ:
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح فرمایا:
لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْۢ بَیْنِ یَدَیْهِ وَ مِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ وَ اِذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِقَوْمٍ سُوْٓءًا فَلَا مَرَدَّ لَهٗۚ-وَ مَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍ ( الرعد:11)
ترجمۂ کنز الایمان: آدمی کے لیے بدلی والے فرشتے ہیں اس کے آگے اورپیچھے کہ بحکمِ خدا اس کی حفاظت کرتے ہیں بیشک اللہ کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل دیں اور جب اللہ کسی قوم سے برائی چاہے تو وہ پھر نہیں سکتی اور اس کے سوا ان کا کوئی حمایتی نہیں۔
یہ آیت ہمیں واضح پیغام دیتی ہے کہ صرف اقتدار مل جانے سے کچھ نہیں ہوگا، جب تک کہ ہم اپنی اصلاح نہ کریں۔
وَ اَنَّ سَعیَهٗ سَوفَ یُرٰى ثُمَّ یُجْزٰىهُ الْجَزَآءَ الْاَوْفٰىۙ (النجم: 41-42)
ترجمۂ کنز الایمان: اور یہ کہ اس کی کو شش عنقر یب دیکھی جائے گی۔ پھر اس کا بھرپور بدلہ دیا جائے گا۔
یہ آیت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ اگر ہم دین پر عمل کرنے کے لیے سچی کوشش کریں، تو اللہ تعالیٰ ہمیں راستہ دکھائے گا، چاہے سیاسی حالات جیسے بھی ہوں۔
فی زمانہ ہمیں چاہیے کہ ہم منظم اور متحد ہو کر بھی حکمتی عمل سے کام کریں۔
ہمیں اپنے روایتی دینی کاموں کو جاری رکھتے ہوئے سماجی، تعلیمی، اور قانونی میدان میں بھی بھرپور کردار ادا کرنا ہوگا۔
روایتی کام:
ترجیحی کام:
سیاسی شعور بیدار کرنا:
اصل کامیابی کیا ہے؟ اصل کامیابی اقتدار کا حصول نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم اپنی قوم کی اخلاقی، سماجی، اور دینی اصلاح کیسے کررہے ہیں اس میں ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم مایوسی کا شکار ہونے کے بجائے عزم و ہمت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان پر عمل کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں دین کی صحیح سمجھ اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!