✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

مغربی اثر سے نکل کر نبوی راستے پر

عنوان: مغربی اثر سے نکل کر نبوی راستے پر
تحریر: سلمیٰ شاھین امجدی کردار فاطمی

اللہ رب العزت نے ہمیں زندگی گزارنے کا ایک کامل اور بہترین طریقہ عطا فرمایا ہے، جو نبی کریم ﷺ کی سیرتِ طیبہ میں موجود ہے۔ مگر افسوس کہ آج امت مسلمہ مغربی طرزِ زندگی سے اتنی متاثر ہو چکی ہے کہ اس کے اثرات ہر پہلو میں دکھائی دیتے ہیں۔

مغرب کا کلچر ہماری سوچ، ہمارے رہن سہن، تعلیم، معیشت، سیاست اور حتیٰ کہ ہمارے دین پر عمل کے طریقے تک پر غالب آچکا ہے۔

کیا دین صرف عبادات تک محدود ہے؟

مغربی طرزِ زندگی نے دین کو محض عبادات تک محدود کر دیا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج ادا کر لینے سے مکمل مسلمان بن جاتے ہیں، جبکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے، جو زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی کرتا ہے۔

آج تعلیم کو تجارت بنا دیا گیا ہے، اسے محض روزگار کے حصول کا ذریعہ سمجھا جا رہا ہے، جب کہ اسلامی تصورِ تعلیم یہ ہے کہ علم انسان کو اللہ رب العزت تک پہنچنے اور انسانیت کی خدمت کے لیے حاصل کرنا چاہیے۔

کامیابی کا معیار کیا ہے؟

مغربی اثرات نے معیارِ زندگی کو ظاہری چیزوں سے منسلک کر دیا ہے۔ برانڈڈ لباس، مہنگے موبائل فون، بڑی گاڑیاں اور دنیاوی چمک دمک کو کامیابی اور عزت کا معیار بنا دیا گیا ہے۔

جب کہ قرآن کریم کا واضح فرمان ہے:

إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ (الحجرات: 13)

ترجمہ کنز الایمان: بے شک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے۔

مگر آج مغرب کی اندھی تقلید میں ہم اپنی اصل اقدار کو فراموش کر چکے ہیں۔

سودی نظام سے نجات کیسے ممکن ہے؟

مغربی کلچر نے معیشت کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ لوگوں کو اس قدر سودی نظام کا عادی بنا دیا گیا ہے کہ انہیں یقین ہو چکا ہے کہ بے غیر قرض اور سود کے زندگی گزارنا ممکن نہیں۔ حالاں کہ اسلام میں سود کو سختی سے حرام قرار دیا گیا ہے اور اس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔

لیکن مغرب کی معاشی غلامی نے ہمیں ان اصولوں سے دور کر دیا ہے۔ اگر ہم اپنی معیشت کو اسلامی اصولوں پر استوار کریں تو نہ صرف برکت حاصل ہو گی بلکہ حقیقی فلاح بھی ممکن ہوگی۔

خاندانی نظام کیوں کمزور ہو رہا ہے؟

مغرب نے برتھ کنٹرول اور فیملی پلاننگ کے نام پر مسلمانوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی ہے کہ زیادہ بچے پیدا کرنا رسوائی کا باعث ہے۔ جب کہ نبی کریم ﷺ نے زیادہ اولاد کی ترغیب دی اور اس امت کی کثرت پر فخر فرمایا۔ اگر کوئی شرعی عذر نہ ہو تو بلاوجہ برتھ کنٹرول اختیار کرنا درست نہیں۔

تعلیم کا اصل مقصد کیا ہونا چاہیے؟

تعلیم کے میدان میں بھی ہم نے مغرب کے فلسفے کو اپنایا ہے، جہاں سچائی صرف وہی سمجھی جاتی ہے جو آنکھوں سے دیکھی جا سکے۔ مغربی جامعات میں سائنس، فزکس، کیمسٹری اور ریاضی پڑھائی جا رہی ہے، لیکن وحی کا علم، قرآن و حدیث کی تعلیمات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ آج کا تعلیم یافتہ طبقہ دینی علوم سے بے خبر ہوتا جا رہا ہے۔

ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں کو نبی کریم ﷺ کی سیرت کے مطابق ڈھالیں، مغربی نظریات کو پرکھیں اور انہیں بے غیر سوچے سمجھے اختیار نہ کریں۔ جو چیز اسلام سے متصادم ہو، اسے رد کریں اور جو چیز مفید ہو، اسے شریعت کی روشنی میں اپنائیں۔

یاد رکھیں، اللہ نے ہمیں اسلام کی عزت دی ہے، اگر ہم اسے چھوڑ کر عزت کہیں اور تلاش کریں گے تو ذلیل ہو جائیں گے۔ اللہ ربّ العزت ہمیں اپنی اصل پہچان کی طرف لوٹنے اور اسلامی طرزِ حیات اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں