عنوان: | آن لائن تعلیم ایک نعمت یا زحمت! |
---|---|
تحریر: | ذکریٰ امجدی واسطی گھوسوی |
ربِ قدیر کی بے شمار نعمتیں ہیں۔ ان تمام نعمتوں میں سے ایک نعمت آن لائن تعلیم ہے، جہاں ہم گھر بیٹھ کر علمِ دین و دنیا دونوں سیکھ سکتے ہیں۔
خدارا! ان نعمتوں کو زحمت نہ بنائیں۔ سوشل میڈیا پر ہر طرف آن لائن اکیڈمیز کی دھوم مچی ہے۔ جنہیں دیکھو، اکیڈمی بنائے گھوم رہے ہیں۔ میں نے ان اکیڈمیز کے نظامِ تعلیم کا مشاہدہ کیا، بس اللہ ہی خیر کرے!
چند اکیڈمیز ایسی بھی ہیں جو مسلکِ اہلِ سنت والجماعت کے نام سے موسوم ہیں، مگر ان میں غیر بھی شامل ہیں۔ تعداد بڑھانا مقصد ہے، اہلِ ایمان اور بدعقیدوں کی کوئی پرواہ نہیں، کوئی لحاظ نہیں۔ کچھ اکیڈمیز ایسی بھی ہیں جہاں غیر عالم و عالمہ تدریس کر رہے ہیں، اور حال یہ ہے کہ ان معلم و معلمات کو خود کے مسائل بھی معلوم نہیں۔ یونہی، کچھ اکیڈمیز ایسی ہیں جن کے بانی مرد حضرات ہیں، جو کہیں نہ کہیں تعلیم و تعلم کی آڑ میں نفسانی خواہشات پوری کر رہے ہیں۔ اللہ پاک حفاظت فرمائے!
میں نے بہت قریب سے مشاہدہ کیا کہ آن لائن اکیڈمیز میں کام کم اور خرافات زیادہ ہو رہی ہیں۔ لہٰذا جب بھی علمِ دین حاصل کرنے کے لیے آپ کسی بھی اکیڈمی سے جڑیں تو تحقیق کے ساتھ معلومات حاصل کریں کہ آیا یہ پلیٹ فارم میرے دین و ایمان کے لیے رحمت ہوگا یا زحمت۔
اسے قائم کرنے والے، منتظمین، معلمین مسلکِ اہلِ سنت والجماعت کے سختی سے پابند ہیں یا نہیں؟ اس اکیڈمی میں غیر عالم یا عالمہ تدریس تو نہیں کر رہے؟ ہمارا معیار بلند ہونا چاہیے۔ کیوں کسی غیر عالم یا عالمہ سے درس لینا؟ اس میں کسی مرد حضرات کا کوئی تعلق تو نہیں؟ اگر بانی مرد حضرات ہوں تو تحقیق کر لیں، والد، بھائی یا شوہر سے ان کا رابطہ کرا دیں۔
ہرگز ہرگز آنکھ بند کر کے کسی بھی اکیڈمی میں ایڈمیشن نہ لیں! صرف اتنا ہی نہیں، بلکہ کچھ اکیڈمیز ایسی بھی ہیں جہاں فیس پے کروا کے بانیِ اکیڈمی فرار ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا آنکھ کھول کر تحقیقات کے بعد علم حاصل کریں۔ یہاں ان اکیڈمیز کے منتظمین سے بھی میری گزارش ہے کہ آپ چاہے عالم ہوں یا مفتی، حافظ ہوں یا قاری، مبلغ ہوں یا مقرر، اگر آپ اکیڈمی چلا رہے ہیں تو بس کام سے کام تک محدود رہیں۔ کسی بھی طالبہ کے پرسنل پر ہرگز قدم نہ رکھیں۔ شروعات یہیں سے ہوتی ہے، ایک بار سلام و خیریت، اگلی بار کچھ کام، اور تیسری دفعہ میں کام تمام!
اے بنتِ حوا! آپ کو سب سے زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ عورت بہت نازک شے ہے، وہ ایک پھول کی مانند ہے، لہٰذا احتیاط لازم ہے۔ معلمہ ہو یا متعلمہ، عشقیہ و فسقیہ باتوں سے گریز کریں۔
دنیا ویسے ہی بے حیائی کی کھائی پر کھڑی ہے۔ ان حالات میں بھی اگر آپ قوم کی بیٹیوں کو تعلیم و تعلم کی آڑ میں محبت کا جام پلائیں گے، تو عوام کہاں جائے گی؟ لہٰذا دین کا کام کریں، خوب محنت و مشقت سے کریں، خلوصِ دل سے کریں، دانائی سے کام لیں، نادانی چھوڑ دیں۔
یہاں ایک بات واضح کر دوں کہ میں ہر اکیڈمی کی بات نہیں کر رہی۔ کچھ اکیڈمیز ایسی بھی ہیں جو واقعتاً قابلِ تعریف ہیں، جہاں بہترین علما و عالمات اور مدرسین تدریسی فرائض سر انجام دے رہے ہیں، جہاں کوئی خرافات نہیں، کوئی وبال نہیں، خلوص کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ ربِ قدیر سے دعا گو ہوں کہ مولا عزوجل انہیں مزید عروج عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین بجاہِ سید المرسلین ﷺ