عنوان: | رمضان المبارک میں خیر خواہی |
---|---|
تحریر: | مفتی وسیم اکرم رضوی مصباحی، ٹٹلا گڑھ، اڈیشہ |
اگر آپ رمضان المبارک میں کسی کی خیرخواہی کرکے نیکیاں کمانا چاہتے ہیں تو اسے ضرور پڑھیں۔
آج کل ہمارے یہاں ایک اچھی روایت ہے کہ لوگ اپنے علاقے کے امام صاحب، مؤذن صاحب اور حفاظِ کرام کی خدمت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خاص طور پر رمضان المبارک میں۔ زیادہ تر لوگ 27ویں شب کو عید کے جوڑے تحفے میں دیتے ہیں، جو یقیناً ایک اچھی بات ہے۔ لیکن بعض اوقات ہم نیکی کرتے ہوئے چند باتوں کا خیال نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے فائدہ کم اور مشکلات زیادہ ہو جاتی ہیں۔
مثال کے طور پر 27 رمضان کو کپڑے دینے کا رجحان بہت زیادہ ہے، جبکہ ان دنوں درزی حضرات کے پاس پہلے ہی بہت زیادہ کام ہوتا ہے۔ کئی درزی تو 15 رمضان کے بعد مزید کپڑے لینے سے انکار کر دیتے ہیں کیونکہ وہ پہلے سے مصروف ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر کوئی 27 رمضان کو کپڑے دے تو وہ عید پر پہننا مشکل ہو جاتا ہے۔
اسی طرح، زیادہ تر لوگ کپڑے ہی دیتے ہیں، جس کی وجہ سے امام صاحب یا مؤذن صاحب کے پاس ایک ساتھ بہت زیادہ کپڑے جمع ہو جاتے ہیں، لیکن بعض اور ضروری چیزیں رہ جاتی ہیں۔ اسی طرح رمضان میں لوگ غریبوں کو راشن بھی دیتے ہیں، جو اچھی بات ہے، لیکن اگر ہر کوئی صرف راشن ہی دے تو دیگر ضروری اخراجات، جیسے گیس اور بجلی کے بل، کیسے پورے ہوں گے؟
اسی لیے سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اگر کسی کی مدد کرنی ہو تو نقد رقم دی جائے، تاکہ وہ اپنی ضروریات کے مطابق اسے خرچ کر سکے۔ سوچیں، اگر امام صاحب کو دس جوڑے کپڑے مل جائیں، لیکن گھر جا کر پتا چلے کہ ان کی اہلیہ اور بچوں کے لیے کچھ نہیں آیا، تو یہ کتنی عجیب بات ہوگی؟
اس لیے جب بھی کسی کی مدد کریں تو اس کی اصل ضرورت کو سمجھنے کی کوشش کریں، تاکہ آپ کی نیکی زیادہ فائدہ مند ثابت ہو۔ اور ہاں! خدمت کا ذہن رکھ کر خیرخواہی کریں۔ یہ سمجھیں کہ سامنے والے کا احسان ہے کہ وہ آپ کی دنیاوی چیز قبول کر رہا ہے، جس کے بدلے اللہ پاک دنیاوی بھی عطا فرمائے گا اور اُخروی بھی۔ اور دیتے وقت اللہ پاک کا شکر بھی ادا کریں کہ اس نے آپ کو دینے والا بنایا ہے۔
بعض عجیب و غریب لوگوں کو بھی دیکھا گیا ہے کہ غریب کو دیا، لیکن اس کی تصویر لی، تو کبھی ویڈیوز بنائیں، تو کبھی احسان جتایا۔ حالانکہ روایات میں تو اس بات کی ترغیب ملتی ہے کہ بندہ اس انداز سے پیش کرے کہ دائیں ہاتھ سے دے تو بائیں ہاتھ کو خبر نہ ہو۔ دینے سے پہلے آپ اپنے آپ کو اس مقام پر تصور کریں کہ اگر میں اس کی جگہ ہوتا اور مجھے سخت حاجت ہوتی، تو میں کس انداز سے لینا پسند کرتا؟
اللہ تعالیٰ ہمیں بہتر انداز میں خیرخواہی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔