عنوان: | ساس بہو میں ظالم کون اور مظلوم کون؟ |
---|---|
تحریر: | مفتی وسیم اکرم رضوی مصباحی، ٹٹلا گڑھ، اڈیشہ |
یہ جملے آپ نے کئی بار سنے ہوں گے کہ ساس بہو کی نہیں بنتی، بھابھی اور نند کی آپس میں نہیں پٹتی، یا دو بھابیوں کے درمیان ہمیشہ کھنچاؤ رہتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نہ کوئی سراسر ظالم ہے اور نہ کوئی مکمل مظلوم، بلکہ اکثر عورتیں خود اپنی ذات پر ظلم کر رہی ہوتی ہیں۔
دراصل مسئلہ وہاں کھڑا ہوتا ہے جہاں ترجیحات میں فرق آتا ہے۔ انسان کو زیادہ تکلیف تب ہوتی ہے جب وہ اپنی ترجیحات کو ضائع ہوتا دیکھتا ہے۔
مثلاً نند کو گھر کا آنگن صاف ستھرا رکھنے کی زیادہ فکر ہے، لیکن کچن کی صفائی اس کے نزدیک اتنی اہم نہیں، جبکہ بھابھی کے لیے کچن صاف رکھنا اولین ترجیح ہے اور آنگن پر اس کی زیادہ توجہ نہیں۔ اب نند جب گندا آنگن دیکھتی ہے تو پریشان ہوتی ہے، اور بھابھی بکھرا ہوا کچن دیکھ کر الجھتی ہے۔
یہی حال ساس بہو کا بھی ہے۔ ساس چاہتی ہے کہ گھر کے اصول و روایات برقرار رہیں، جبکہ بہو اپنی سوچ اور طریقے سے زندگی گزارنا چاہتی ہے۔ اس فرق کو اگر سمجھا جائے تو کئی مسائل خود بخود حل ہو سکتے ہیں۔
عموماً ہم جس کام کو خود ضروری سمجھتے ہیں، اگر ہمیں کوئی ایسا شخص مل جائے جو انہی باتوں کو اہمیت دے، تو وہ ہمیں اچھا لگتا ہے۔ لیکن اگر کسی کی ترجیحات ہم سے مختلف ہوں تو ہمیں اس سے شکایت ہونے لگتی ہے۔ حالانکہ ضروری نہیں کہ وہ شخص لاپروا ہو، ممکن ہے کہ جن چیزوں کو ہم اہم سمجھ رہے ہیں، اس سے کہیں زیادہ اہم کسی اور پہلو پر اس کی توجہ ہو۔
لہٰذا، بدظن ہونے سے پہلے دوسروں کی ترجیحات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر باہمی تعلقات میں برداشت ہو تو گھر کا ماحول خوشگوار رہے گا۔