عنوان: | تخلیق انسانی کا مقصد |
---|---|
تحریر: | محمد طارق القادری بنارسی |
اگر ہم دنیا میں بنائی گئی چیزوں کو دیکھیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایجاد کے پیچھے ایک خاص مقصد ہوتا ہے۔ گھڑی وقت بتانے کے لیے، ہوائی جہاز کم وقت میں زیادہ فاصلہ طے کرنے کے لیے، اور موبائل فون دور دراز کے لوگوں سے رابطے کے لیے بنایا گیا۔
جب انسان کسی چیز کو بے مقصد نہیں بناتا، تو وہ رب، جو تمام جہانوں کا خالق و مالک ہے، کیا وہ انسان جیسی عظیم مخلوق کو بے مقصد پیدا کر سکتا ہے؟
بلکہ اللہ پاک بذاتِ خود قرآنِ مقدس میں ارشاد فرماتا ہے:
اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ (المؤمنون: 115)
ترجمۂ کنزالعرفان: تو کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے؟
تخلیقِ انسانی کا اصل مقصد
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص مقصد کے تحت پیدا فرمایا ہے، اور اس مقصد کو بذات خود قرآنِ کریم میں ان الفاظ کے ساتھ واضح فرمایا:
وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (الذاریات: 56)
ترجمۂ کنزالعرفان: اور میں نے جن اور آدمی اسی لیے بنائے کہ میری عبادت کریں۔
تفسیرِ صاوی و خازن میں اس آیت کے تحت بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنوں کو محض دنیا طلب کرنے اور اس میں مشغول ہونے کے لیے نہیں بنایا، بلکہ انہیں اپنی عبادت اور معرفت کے لیے پیدا کیا ہے۔ (صراط الجنان، الذاریات، تحت الآیۃ: 56)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
تَبٰرَكَ الَّذِیْ بِیَدِهِ الْمُلْكُ وَ هُوَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرُ الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَ الْحَیٰوةَ لِیَبْلُوَكُمْ اَیُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُوْرُ (الملک:1-2)
ترجمۂ کنزالعرفان: بڑی برکت والا ہے وہ جس کے قبضے میں ساری بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرنے والا ہے، اور وہی عزت والا، بخشش والا ہے۔
عبادت میں کامیابی کا راز
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ العَبْدُ يَوْمَ القِيَامَةِ مِنْ عَمَلِهِ صَلَاتُهُ، فَإِنْ صَلُحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ، فَإِنْ انْتَقَصَ مِنْ فَرِيضَتِهِ شَيْءٌ، قَالَ الرَّبُّ: انْظُرُوا هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ فَيُكَمَّلَ بِهَا مَا انْتَقَصَ مِنَ الفَرِيضَةِ، ثُمَّ يَكُونُ سَائِرُ عَمَلِهِ عَلَى ذَلِكَ۔ (ترمذی: 413)
ترجمہ: بندے کے اعمال میں سب سے پہلے جس چیز کا حساب قیامت کے دن لیا جائے گا، وہ اس کی نماز ہے۔ اگر اس کی نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب اور کامران ہوگا، اور اگر وہ خراب ہوئی تو وہ ناکام اور خسارے میں ہوگا۔ اگر فرض نماز میں کچھ کمی پائی گئی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا: دیکھو! کیا میرے بندے کے پاس کوئی نفل نمازیں ہیں؟ تاکہ ان کے ذریعے فرض کی کمی کو پورا کیا جائے۔" پھر اسی طرح باقی اعمال کا حساب لیا جائے گا۔
اللہ کی معرفت کے لیے تخلیق
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مَرَّ بِي رَسُولُ اللهِ ﷺ وَأَنَا عَلَى حِمَارٍ، فَقَالَ: «يَا مُعَاذُ، تَدْرِي مَا حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ، وَمَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ؟» قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: «حَقُّ اللهِ عَلَى الْعِبَادِ أَنْ يَعْبُدُوهُ وَلَا يُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَحَقُّ الْعِبَادِ عَلَى اللهِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ أَنْ لَا يُعَذِّبَهُمْ۔ (المعجم الکبیر: 274)
ترجمہ: رسول اللہ ﷺ میرے پاس سے گزرے جبکہ میں ایک گدھے پر سوار تھا، تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے معاذ! کیا تم جانتے ہو کہ اللہ کا بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟ میں نے عرض کیا: "اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کا بندوں پر حق یہ ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں، اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جب وہ ایسا کریں تو انہیں عذاب نہ دے۔
عبادت کے لیے تخلیق
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى وَأَسُدَّ فَقْرَكَ، وَإِلَّا تَفْعَلْ مَلَأْتُ يَدَيْكَ شُغْلًا وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ۔ (ترمذی: 2466)
ترجمہ: بیشک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: "اے ابن آدم! میری عبادت کے لیے خود کو فارغ کرلو، میں تمہارے سینے کو بے نیازی سے بھر دوں گا اور تمہاری محتاجی دور کر دوں گا۔ اور اگر ایسا نہ کرو گے تو میں تمہارے ہاتھوں کو مشغولیت سے بھر دوں گا اور تمہاری محتاجی کو دور نہیں کروں گا۔
اصل مقصد اور ہماری موجودہ حالت
قرآن و حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔ لیکن ہم نے اپنی زندگی میں ضروریات کو مقصد اور مقصد کو ضرورت سمجھ لیا ہے۔
ہم دنیاوی مصروفیات میں اتنے مشغول ہو گئے ہیں کہ عبادت کے لیے وقت ہی نہیں نکالتے۔ اگر کوئی کہے کہ نماز کا وقت ہو چلا ہے، تو ہم بہانے بنا دیتے ہیں کہ ابھی کام ہے، بعد میں پڑھ لیں گے۔ لیکن اگر کوئی دوست ہمیں گھومنے کے لیے بلائے تو فوراً تیار ہو جاتے ہیں۔
یہ افسوس کی بات ہے کہ جس رب نے ہمیں پیدا کیا، ہمیں رزق دیا، ہمیں کبھی بھوکا نہیں سونے دیا، آج ہمارے پاس اسی کے لیے وقت نہیں۔
عبادت کی اہمیت اور ضرورت
اللہ تعالیٰ نے ہمیں عبادت کے لیے پیدا کیا، اور زندگی گزارنے کے لیے ضروریات کا انتظام بھی کیا۔ لیکن ضروریاتِ زندگی میں اتنا ڈوب جانا کہ اصل مقصد ہی بھول جائیں، یہ بہت بڑی غلطی ہے۔
لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کو اپنی اولین ترجیح بنائیں، نماز پنجگانہ کو وقت پر ادا کریں، اور دنیاوی مصروفیات کو مقصدِ حیات نہ سمجھیں۔
اللّٰہ پاک ہمیں اخلاص کے ساتھ اپنی عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دنیاوی مصروفیات میں اصل مقصد کو فراموش کرنے سے محفوظ رکھے۔ آمین بجاہِ النبی الأمین ﷺ