عنوان: | تصحیحات متأخرین |
---|---|
تحریر: | عمران رضا عطاری مدنی بنارسی |
کیا متأخرین احادیث کو صحیح یا حسن قرار دے سکتے ہیں؟
ائمۂ محدثین نے نقدِ احادیث میں وہ نمایاں خدمات انجام دیں، جو آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔ مقبول اور مردود احادیث میں تمیز کی، احادیث کی علتوں پر کلام کیا، احادیث و اسانید کے ضمن میں دقیق ابحاث فرمائیں، اور اس فن سے ایسی وابستگی رکھی کہ ان کی ابحاث اور احکام کو علما نے قبول کیا۔ ان کو حجت کا مرتبہ حاصل ہوا، احادیث کی صحت و حسن میں ان کے احکام کو دلیل بنایا گیا، اور ان کے مقتضیٰ پر عمل کیا گیا۔
جب متن کو وارد ہوئے ایک زمانہ گزر گیا، عہدِ رواۃ دور ہوا، تو امام ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ نے یہ خوف ظاہر کیا کہ متأخرین کے احکام متقدمین ائمۂ اعلام کی طرح درست نہیں ہوتے۔ چناں چہ آپ نے اپنی کتاب ”مقدمہ علوم حدیث“ میں لکھا:
جب ہم اجزاے حدیث یا دیگر کتب میں کسی حدیث کو «صحیح الاسناد» پائیں، جو صحیحین میں مذکور نہ ہو، نہ ہی ائمۂ محدثین نے اپنی کتابوں میں اس حدیث کی صحت پر نص فرمائی ہو، ایسی صورت میں اس حدیث پر صحت کا قطعی حکم لگانے کی جسارت نہیں کریں گے۔ کیوں کہ اس دور میں صرف سند کو دیکھ کر صحیح حدیث کی پہچان کر لینا مشکل امر ہے کہ ہر سند کے رجال میں، اس کے روایت کرنے میں، اعتماد ان کی کتابوں پر ہوتا ہے، حالاں کہ اس میں صحیح احادیث کی شرائط: حفظ و ضبط اور اتقان میں کمی ہوتی ہے۔ لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ حدیث صحیح اور حسن کی معرفت میں ان ائمہ کی نصوص پر اعتماد کریں گے، جنہوں نے اپنی مشہور تصانیف میں حدیث پر حکم ذکر کیا ہے۔
لیکن محدثین نے امام ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ کے اس قول کی موافقت نہیں کی، بلکہ حدیث میں غور و فکر کرنے اور اس پر حکم لگانے کے جواز کو راجح قرار دیا، اُس محدث کے لیے جس کو صلاحیت و قابلیت اور احادیث کی معرفت حاصل ہو۔ اس کی صراحت امام نووی، ابن کثیر، علامہ عراقی اور دیگر علما نے فرمائی ہے۔
حافظ ابن عراقی رحمۃ اللہ علیہ نے «النکت» میں ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ پر اعتراض کیا کہ محدثین کا عمل امام ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ کی اس رائے کے خلاف ہے۔ علامہ عراقی رحمۃ اللہ علیہ کے موقف کے مطابق جب حدیث کی تصحیح درست ہے، تو حدیث پر تحسین کا حکم بدرجۂ اولیٰ درست ہوگا، یعنی احادیث کو حسن قرار دینا درست ہوگا، جن پر حسن کا پہلے کسی نے حکم نہیں لگایا، جیسا کہ صحیح کا حکم لگانا درست ہوگا۔
محدثین کی ایک جماعت نے ان احادیث پر حسن کا حکم لگایا ہے، جن پر حفاظ کی ایک جماعت نے ضعف کا حکم لگایا تھا، جیسے امام مزی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث «طلب العلم فريضة على كل مسلم» پر حسن کا حکم لگایا، جب کہ ماقبل حفاظ نے اس کی تضعیف پر صراحت فرمائی تھی۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: امام ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ کے کلام کا تقاضا یہ ہے کہ متقدمین کی تصحیح کو قبول، جب کہ متأخرین کی تصحیح کو رد کر دیا جائے۔ پھر اس سے تو یہ لازم آئے گا کہ صحیح کو رد کر دیا جائے اور جو صحیح نہیں ہے، اسے قبول کیا جائے! کیوں کہ کئی احادیث ایسی ہیں، جن پر ماقبل کے محدثین نے صحت کا حکم لگایا، لیکن متأخرین اس حدیث میں کسی قادح علت پر مطلع ہوئے، جو اس پر حکمِ صحت کے مانع ہے۔
خاص طور پر بعض متقدمین تو حدیثِ صحیح اور حسن کے درمیان فرق ہی نہیں کرتے تھے، جیسے امام ابن خزیمہ اور امام ابن حبان۔
دونوں اقوال میں تطبیق: امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب «التنقیح لمسألة التصحیح» میں امام ابن الصلاح اور ان کے مخالف محدثین کے موقف میں تطبیق یوں ذکر فرمائی کہ:
ان دونوں اقوال میں کوئی منافات نہیں، کیوں کہ حدیثِ صحیح کی دو قسمیں ہیں: صحیح لذاتہ اور صحیح لغیرہ۔
علامہ ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث پر جو صحت کا حکم لگانے سے منع کیا، اس سے مراد صحیح لذاتہ ہے، نہ کہ صحیح لغیرہ۔
بعض کتبِ حدیث میں ایک حدیث ایک ہی سند سے مروی ہوتی ہے، جس کے متعدد طرق نہیں ہوتے۔ سند کا ظاہر صحت کا تقاضا کرتا ہے کہ اس میں اتصال بھی ہوتا ہے اور رجال ثقہ بھی۔ اب کوئی یہ ارادہ کرتا ہے کہ اس حدیث پر محض مذکورہ چیزوں کو دیکھ کر صحیح لذاتہ کا حکم لگائے، جس کی صحت پر ائمۂ محدثین میں سے کسی نے صراحت نہ فرمائی ہو، تو اس کی قطعا گنجائش نہیں اور ایسا کرنا درست نہیں ہوگا۔ اس لیے کہ مذکورہ چیزیں حدیث پر صحت کے حکم لگانے کے لیے کافی نہیں، بلکہ اس میں شذوذ اور علت کا نہ ہونا بھی ضروری ہے، جس پر فی زمانہ اطلاع نہایت مشکل امر ہے۔
علتِ خفیہ پر اطلاع ہونا متقدمین ائمہ کی شان تھی، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانے سے بہت قریب تھے، جیسے کہ جن محدثین کے شیوخ تابعین، تبع تابعین یا طبقۂ رابعہ سے تھے۔ اس دور میں محدثین کے لیے علت پر واقف ہونا آسان تھا۔ رہی بات ہمارے زمانے کی، تو اس میں اسانید کافی لمبی ہو گئی ہیں، اس وجہ سے علت پر واقف ہونا مشکل امر ہے، مگر یہ کہ علت کے موضوع پر جو کتابیں لکھی گئی ہیں، ان سے نقل کر دیا جائے۔
لہٰذا خلاصۂ کلام یہ نکلا کہ ایک سند سے مروی حدیث کو کتاب میں دیکھ کر، جس کا ظاہر صحت کا تقاضا کرے، حدیث میں اتصال اور رجال ثقہ ہونے کی وجہ سے، اس حدیث پر صحیح لذاتہ کا حکم لگانا ممکن نہیں، کیوں کہ ہو سکتا ہے اس حدیث میں کوئی ایسی علتِ خفیہ ہو، جس پر ہم مطلع نہ ہوں، کہ اس زمانے میں اس کا علم حاصل ہونا متعذر ہے۔
رہی بات قسمِ ثانی یعنی صحیح لغیرہ کی، تو امام ابن الصلاح رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر ائمہ نے اس سے منع نہیں فرمایا۔ ہمارے زمانے کے ائمہ اور جو ما بعد آئیں گے، وہ حدیث پر جو حکم لگاتے ہیں، وہ صحیح لغیرہ کا ہے، نہ کہ صحیح لذاتہ کا۔ میں نے متأخرین کے حکم کی جب تلاش و جستجو شروع کی، تو میں نے دیکھا کہ ان کے حکم کا تعلق صحیح لغیرہ سے ہے، نہ کہ لذاتہ سے۔
امام سیوطی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: اس میں احتیاط یہی ہے کہ حکم لگانے میں یوں کہے «صحیح الاسناد» مطلقاً تصحیح کا اطلاق نہ کرے، ہو سکتا ہے حدیث میں کوئی علتِ خفیہ ہو۔ میں نے بعض لوگوں کو اس طرح دیکھا ہے کہ وہ حکم میں یہ الفاظ کہتے ہیں: صحیح ان شاء اللہ تعالیٰ۔ (نصاب علم حدیث شریف، ص: ۱۸۶، مرتبہ: عمران رضا عطاری مدنی)