عنوان: | طواغیت اربعہ کے عقائد اور حکم کفر |
---|---|
تحریر: | سرور رضا احسنی مصباحی |
عام طور سے لوگ یہی جانتے ہیں کہ سنی دیوبندی اختلاف چند امور کے جواز و عدمِ جواز تک محدود ہے، لیکن حقیقتِ حال کیا ہے، اِس کا اعتراف خود دیوبندی جماعت کے نقیبوں کو بھی ہے۔
مولوی منظور نعمانی کی کتاب فیصلہ کن مناظرہ کی ابتدا میں ہے: شاید بہت سے لوگ ناواقفیت سے یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ میلاد و قیام، عرس و قوالی، فاتحہ، تیجہ، دسواں، بیسواں، چالیسواں وغیرہ رسوم کے جائز و ناجائز اور بدعت و غیر بدعت ہونے کے بارے میں مسلمانوں کے مختلف طبقوں میں جو نظریاتی اختلاف ہے، یہی دراصل دیوبندی اور بریلوی اختلاف ہے، مگر یہ مجموعی طور پر صحیح نہیں ہے۔ (منظور نعمانی، فیصلہ کن مناظرہ، ص: 5، دار النفائس، کریم پارک، راوی روڈ، لاہور)
سوال یہ ہے کہ یہ دونوں فریق کو تسلیم ہے کہ فتاویٰ رشیدیہ براہینِ قاطعہ حفظ الایمان کی عبارتیں اور تکذیبِ باری کا فتویٰ ہے۔ اِن پر علمائے اہلِ سنت کے یہ اعتراضات ہیں کہ اِن میں ضروریاتِ دین کا انکار اور اللہ عزوجل اور حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صریح اور شدید توہین ہے۔
جس کی کچھ مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں:
«قاسم نانوتوی کی کفریہ عبارت کی ایک مثال» خاتم النبیین علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد نئے نبی کا آنا ممکن ہے، اِس موضوع پر قاسم نانوتوی نے اپنی کتاب تحذیر الناس میں لکھا ہے اور خاتم النبیین کے اُس معنیٰ کا انکار کیا ہے جو دورِ صحابہ سے آج تک مشہور و معروف رہا ہے، اور یہ دعویٰ کیا ہے کہ: سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا بایں معنیٰ ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب سے آخری نبی ہیں، مگر اہلِ فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم یا تاخرِ زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔ (تحذیر الناس، ص: 4 تا 5، دار الاشاعت، اردو بازار، کراچی)
بالفرض بعدِ زمانۂ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہوا تو پھر بھی خاتمیتِ محمدی میں کچھ فرق نہیں آئے گا۔ (تحذیر الناس، ص: 28، دار الاشاعت، اردو بازار، کراچی)
«رشید احمد گنگوہی کی کفریہ عبارت کی ایک مثال» رشید احمد گنگوہی (1303ھ) میں براہینِ قاطعہ نامی کتاب لکھی اور اُس کو اپنے مرید خلیل امبیٹھوی کے نام سے چھپوایا، جس میں اُن سارے معاملات کو جو اُس وقت پوری دنیا میں رائج تھے، شرک، بدعت، حرام بلکہ یہاں تک جرات کا مظاہرہ کیا کہ میلادِ مبارک کو کنہیا کے جنم سے تشبیہ دی اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے وقوعِ کذب کا قول کرتے ہوئے لکھا:
اللہ کے لیے وقوعِ کذب کا معنی درست ہو جائے، اِس کے قائل کو تضلیل و توفیق سے مامون رکھنا چاہیے۔ وہ اہلِ سنت سے خارج نہیں، اُسے کوئی سخت کلمہ بھی نہیں کہنا چاہیے۔ (براہین قاطعہ، ص: 21، دار الاشاعت، اردو بازار، کراچی)
«اشرف علی تھانوی کی کفریہ عبارت کی ایک مثال» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم کو حیوانات و بہائم کے علم سے تشبیہ دیتے ہوئے لکھا: اِس غیب سے مراد بعض غیب ہے یا کل غیب؟ اگر بعض علومِ غیبیہ مراد ہیں تو اِس میں حضور ہی کی کیا تخصیص؟ ایسا علمِ غیب تو زید و بکر بلکہ ہر صبی و مجنون، بلکہ تمام حیوانات و بہائم کے لیے بھی حاصل ہے۔ (حفظ الایمان، ص: 8، دار الاشاعت، اردو بازار، کراچی)
«خلیل احمد انبیٹھوی کی کفریہ عبارت کی ایک مثال» اِس کا عقیدہ ہے کہ ہمارے رسولِ اعظم، اولین و آخرین کا علمِ الٰہی سے شیطان کا علم زیادہ ہے۔ چنانچہ اُس نے اپنی کتاب براہینِ قاطعہ میں لکھا: شیطان و ملک الموت کو یہ وسعتِ علم نصوص سے ثابت ہوئی۔ فخرِ عالم کی یہ وسعتِ علم کی کون سی نصِ قطعی ہے کہ جس سے تمام نصوص کو رد کر کے ایک شرک ثابت کرتا ہے؟ (براہین قاطعہ، ص: 51، دار الاشاعت، اردو بازار، کراچی)
اِن عبارتوں اور کتابوں کے شائع ہوتے ہی پورے ملک میں بےچینی پھیل گئی، اور اُس وقت کے اکابر علمائے کرام نے اِن کا شدید ردّ بھی کیا۔
پورے ملک کا یہی ماحول تھا، اِس ماحول میں مجددِ اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے ہوش سنبھالا اور مسندِ ارشاد و ہدایت پر تمکُّن ہوئے۔ اپنی فراست و بصیرت سے دیکھ لیا کہ اسلام کی بنیادی قدروں میں تحریف کرنے والوں میں سب سے زیادہ خطرناک اور مہلک دیوبندی ہیں۔
اِس لیے مجددِ اعظم اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قدس سرہ نے (1320ھ مطابق 1902ء) میں المعتمد المستند تصنیف فرمائی۔
اِس کتاب میں گنگوہی، نانوتوی، امبیٹھوی اور تھانوی صاحبان کی تحذیر الناس تکذیبِ باری عزاسمہ کے فتویٰ، براہینِ قاطعہ اور حفظ الایمان کی کفریہ عبارتوں کی بنا پر نانوتوی اور اُن جیسوں کی قطعی تکفیر مذکور ہے۔
اِن کتابوں کی یہ عبارتیں کفری معنیٰ میں واضح اور غیر مبہم ہیں کہ اِن کا انکار کرنا اِن کے وجود سے انکار کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانچ سال تک نہ اِن میں سے کسی کو کچھ بولنے کی گنجائش ملی، نہ اِن کے تلامذہ کو، نہ خلفاء کو۔
(1324ھ) میں جب بلا کسی سابق ارادے اور قصد کے یک بیک باطنی کشش کی بنا پر سرکارِ اعلیٰ حضرت رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج و زیارت کے لیے گئے، تو اِس فتویٰ کی تائید و تقویت کے لیے المعتمد المستند کا وہ حصہ، جس میں اِن لوگوں کے نام بہ نام تکفیر تھی، علمائے حرمین طیبین کی خدمتِ عالیہ میں پیش فرمایا۔ دونوں حرمین کے اجلہ علمائے کرام، مفتیانِ عظام، خطباء ذوی الاحترام اور مدرسین ذوی الفخام نے اِس کی دھوم دھامی تصدیقیں فرمائیں۔
اور سب نے نانوتوی، گنگوہی، امبیٹھوی اور تھانوی صاحبان کے بارے میں یہ فتویٰ دیا کہ یہ لوگ ضروریاتِ دین کے انکار اور شانِ الوہیت و رسالت میں صریح گستاخی کرنے کی وجہ سے دین سے خارج، کافر و مرتد ہیں۔
اب جب طواغیتِ اربعہ کا کفر ثابت ہو گیا، اور وہ بھی ایسا کفر کہ جو اِن کے کافر ہونے میں شک کرے، وہ خود بھی کافر ہے!
سرکارِ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قدس سرہ نے فتاویٰ رضویہ شریف میں رقم فرمایا: علمائے حرمین شریفین نے بالاتفاق دیوبندیوں کو کافر مرتد لکھا اور صاف فرمایا کہ:
مَن شَکَّ فِی کُفرِہٖ وَ عَذابِہٖ فَقَد کَفَرَ.
ترجمہ: اِن کے عقائد پر مطلع ہو کر اِنہیں مسلمان جاننا درکنار، اِن کے کفر میں شک ہی کرے، وہ بھی پرکا کافر ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، ج: 6، ص: 77، رضا اکیڈمی، ممبئی)
کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم ضروریاتِ دین میں سے ہے، اور جو شخص ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک بات کا بھی انکار کر دے، تو وہ قطعاً و یقیناً کافر و مرتد ہے، اور وہ بھی ایسا کافر کہ جو اُسے کافر نہ کہے، خود کافر ہے۔
جیسا کہ شفاء شریف میں ہے:
اَجْمَعَ المُسلِمُونَ اَنَّ شاتِمَہُ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ کَافِرٌ وَ مَن شَکَّ فِی عَذابِہٖ وَ کُفرِہٖ کَفَرَ.
ترجمہ: تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جو حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے، وہ کافر ہے، اور جو اُس کے معذب یا کافر ہونے میں شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، ج: 30، ص: 335، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
اور مجمع الانہر و در مختار میں ہے:
وَ اللَّفظُ لَہُ الکافِرُ بِسَبِّ نَبِیٍّ مِنَ الانبیاءِ لَا یُقبَلُ تَوبَتُہٗ مُطلَقًا، وَ مَن شَکَّ فِی عَذابِہٖ وَ کُفرِہٖ کَفَرَ۔ (ابن عابدین شامی، حاشیہ ابن عابدین، رد المحتار علی الدر المختار، ج: 13، باب المرتد، ص: 43-44، دار الثقافۃ والتراث، دمشق، سوریا)
ترجمہ: جو کسی نبی کی شان میں گستاخی کے سبب کافر ہوا، اُس کی توبہ کسی طرح قبول نہیں، اور جو اُس کے عذاب یا کفر میں شک کرے، خود کافر ہے۔
لہٰذا، جب دلائل کی روشنی میں یہ ثابت ہو گیا کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ اقدس میں اگر کوئی گستاخی کرے، تو وہ بالاجماع قطعی کافر ہے، تو اکابرِ دیوبند اپنی گستاخیوں کی بنا پر کافر ہوئے، اور ایسے کافر کہ جو اِن کے کفر میں شک کرے، وہ بھی کافر ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ «مَن شَکَّ فِی عَذابِہٖ وَ کُفرِہٖ فَقَد کَفَرَ» کا مفہوم یہ ہے کہ جس کی ذاتی تحقیق میں ملزم کا کافر ہونا ثابت ہو جائے، پھر وہ کافر نہ مانے، تب خود کافر ہے۔ اسلافِ کرام سے یہ تشریح منقول نہیں، اور یہ تشریح غلط بھی ہے۔ «مَن شَکَّ» کی یہ جدید تشریح کفر اور زندقہ کا سمندر ہے۔ اِس تشریح کے سبب نہ جانے کتنے لوگ ضلالت و گمراہی میں مبتلا ہو گئے۔ خلیل بجنوری کا بھی یہی نظریہ تھا کہ جس کی تحقیق میں ملزم کا کفر ثابت ہو جائے، پھر وہ اُسے کافر نہ مانے، تو وہ کافر ہے۔
تو ایک سو اسی (180) اکابر علمائے اہلِ سنت نے متفقہ طور پر اُسے «الاقوال القاطعہ فی ردِّ مویّد الوہابیہ» میں کافر قرار دیا۔ جو لوگ غلط راہ پر جائیں، ہرگز اُن کی پیروی نہ کی جائے۔ «مَن شَکَّ» کے اصول کی صحیح تشریح یہ ہے کہ جس کافرِ قطعی (کافرِ اصلی و کافرِ کلامی) کے کفر کا قطعی علم ہو جائے، پھر اُس کو کافر نہ مانے، تو وہ خود کافر ہے۔
خواہ اپنی جس صحیح تحقیق سے ملزم کا کافر ہونا معلوم ہو، یا کسی غیر کی صحیح تحقیق کی بنیاد پر ملزم کا کافر ہونا معلوم ہو، یا کسی عالم نے صحیح تحقیق کی خبرِ متواتر سے اُس کی صحیح تحقیق اور ملزم کے کفریہ عقائد کا علم ہو گیا، تو اُسے کافر ماننا لازم ہے۔
لہٰذا، کفارِ اربعہ کے کفریہ عقائد اور اُن پر نافذ شدہ حکمِ کفر کا قطعی علم ہو جانے کے بعد، اشخاصِ اربعہ کو مومن ماننے والا بھی کافر ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں مسلکِ اعلیٰ حضرت پر مضبوطی کے ساتھ قائم و دائم فرمائے، اور اپنے پیارے حبیب، حضورِ رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہی میں موت عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین، بجاہِ سیّدِ المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم۔