✍️ رائٹرز کے لیے نایاب موقع! جن رائٹر کے 313 مضامین لباب ویب سائٹ پر شائع ہوں گے، ان کو سرٹیفکیٹ سے نوازا جائے گا، اور ان کے مضامین کے مجموعہ کو صراط پبلیکیشنز سے شائع بھی کیا جائے گا!

تم بہت کام چور ہوگئے ہو

عنوان: تم بہت کام چور ہوگئے ہو
تحریر: مفتی عارف مدنی، مدرس ماڈل جامعۃ المدینہ

صبح کے وقت بھینی بھینی بادِ نسیم اپنے جھونکوں سے مشامِ جاں کو معطر کر رہی تھی۔ جگہ بجگہ پتوں کے ہلنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ سورج اپنا رُخِ زیبا دکھانے کو بےتاب تھا۔ شبنم کی بوندوں نے پتّوں پر موتی بکھیر دیے تھے۔ کہیں کہیں سے کوئل کی کوک کی آواز کانوں میں رس گھول رہی تھی۔

میں مسجد میں ربِّ لم یزل کی بارگاہ میں سجدہ ریزی کا شرف پا چکا تھا۔ دیگر اوراد و وظائف اور حضور نبی کریم، رؤوف رحیم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی بارگاہ میں درود و سلام کے نذرانے سے فارغ ہو کر مسجد سے نکلا۔

مسجد کی گلی سے نکلتے وقت میری نظر گلی کے نکّڑ پر پڑی۔ وہاں ایک دکان کھلی تھی۔ دکان کے آگے ترپال کو بانس کے چند ڈنڈوں کے ذریعے کھڑا کیا گیا تھا۔ ترپال کی ایک طرف ہینڈ پمپ لگا ہوا تھا، جہاں چند برتن اور کچھ چائے کے گلاس رکھے تھے۔

ترپال کے نیچے دکان دار تہبند اور بنیان پہنے ایک بوسیدہ سی مسند پر بیٹھ کر چائے بنانے میں مشغول تھا۔ دکان کے اندر چند تپائیاں اور ایک میز تھی۔ وہاں چند لوگ بیٹھے چائے کی چسکی لے رہے تھے اور ایک لڑکا کچھ کام کر رہا تھا۔

میرے دل میں بھی چائے کی خواہش ہوئی۔ وہاں پہنچ کر دکان کی چند بوسیدہ سیڑھیاں چڑھنے کے بعد ایک تپائی پر اپنی جگہ سنبھال لی۔ اچانک میری نظر اس لڑکے پر پڑی تو کیا دیکھتا ہوں کہ اس کے چہرے سے مسکراہٹ غائب تھی، بال پراگندہ تھے، پاؤں سے چپل غائب تھی۔ وہ ایک پھٹی ہوئی بنیان اور پائجامہ پہنے ہوئے تھا۔

تبھی دکان دار کی آواز گونجی: سلیم! ابھی تک تم نے برتن نہیں دھوئے؟ لڑکا آواز سن کر سہم گیا اور بولا: جی! میں ابھی دھوتا ہوں۔

تم بہت کام چور ہوگئے ہو! دکان دار نے دہاڑتے ہوئے کہا۔ تمہیں صرف کھانا پینا آتا ہے۔ تمہارے باپ کو بلا کر کہوں گا کہ اس کو لے جاؤ، یہ کام چور ہوگیا ہے، مجھے اسے نہیں رکھنا!

وہ بچہ، جسے دکان دار نے سلیم کہہ کر پکارا تھا، اس کا چہرہ غمگین ہوگیا۔ وہ بوجھل قدموں کے ساتھ ہینڈ پمپ کے پاس گیا اور برتن دھونے لگا۔

میں سوچنے لگا: اس دنیا میں سلیم جیسے کتنے بچے ہوں گے، جن کو مکتب میں داخلہ کروانے کے بجائے ان کے والدین نے دکان، ہوٹل وغیرہ پر رکھ دیا ہے! ان لڑکوں کا مستقبل کتنا تاریک ہے، جو نہ تو علم حاصل کر سکتے ہیں اور نہ ہی دیگر فنون میں اپنی صلاحیتوں کا اظہار کر سکتے ہیں، بلکہ وہ سمٹ کر ایک ہوٹل میں برتن وغیرہ دھونے اور مزدوری کرنے پر محدود رہ جاتے ہیں!

ابھی میں انہی خیالات میں گم تھا کہ سلیم کی آواز میری سماعت سے ٹکرائی: آپ چائے لیں گے؟ میں نے ہاں میں سر ہلا دیا اور کہا: ایک نہیں بلکہ دو چائے لاؤ!

وہ مجھے ایسے دیکھنے لگا جیسے اسے میری بات سمجھ میں نہ آئی ہو۔ خیر! جب وہ دو کپ چائے لایا تو میں نے اسے بٹھا لیا اور اس کی طرف ایک چائے کا کپ بڑھا دیا۔ پھر وہ مجھے یوں تکنے لگا جیسے کہ یہ کوئی نئی بات ہو۔

میں نے کہا: کوئی بات نہیں، چائے پیو! اور مجھے یہ بتاؤ کہ تمہارے والد کا نام کیا ہے؟ کہاں رہتے ہیں؟ کیا کرتے ہیں؟

میں نے کئی سوالات پے در پے کر ڈالے۔ اس نے میرے سوالات کے جوابات دیتے ہوئے کہا: میرے والد کا نام خالد ہے۔ پھر سامنے والی گلی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا: اس گلی کے نکّڑ پر جو گھر ہے، وہ میرا گھر ہے۔

تبھی میں نے سوال کر دیا: کیا وہی خالد ہیں جو رکشہ چلاتے ہیں؟

اس نے اثبات میں جواب دیا۔

کیا تم مدرسۃ المدینہ میں پڑھنا چاہتے ہو؟ میں نے پوچھا۔ وہاں ساری سہولیات ملیں گی، کھانا اچھا ملے گا، اور پڑھ لکھ کر تم بہت بڑے آدمی بن جاؤ گے!

میری باتیں سن کر اچانک اس کی آنکھوں میں چمک اور چہرے پر مسکراہٹ آ گئی، لیکن یک لخت ہی اس کی مسکراہٹ غائب ہوگئی۔ میں معاملہ سمجھ گیا۔

میں نے کہا: میں تمہارے والد سے بات کرلوں گا اور سارا خرچ میں اٹھاؤں گا۔

وہ تیار ہوگیا، اور اس کا سر ممنونیت سے جھک گیا۔ جب میں دکان سے نکلا تو مجھے وہ حدیثِ مبارک یاد آئی:

جو ہمارے چھوٹوں پر رحم اور ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں۔

اگلے ہفتے جب میں مدرسۃ المدینہ میں پہنچا تو دیکھا کہ سلیم بڑے انہماک کے ساتھ سبق پڑھنے میں مشغول ہے۔ اس کے سر پر عمامہ شریف کا تاج اور بدن پر سنت کے مطابق لباس تھا۔

مجھے دیکھ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور مجھ سے لپٹ کر سسکیاں لینے لگا، گویا وہ اپنے جذبات کی یوں ترجمانی کر رہا ہو کہ آپ نے مجھے ایک چائے کی دکان سے لا کر کتنے پیارے اور اچھے ماحول میں بٹھا دیا ہے!

میں بھی اپنے آنسوؤں کو ضبط نہ کر سکا، اور میری آنکھوں کے سامنے آنسوؤں کے حجابات حائل ہوگئے۔

1 تبصرے

  1. واقعی ہمارے معاشرے میں کئی ایسے ذہن بچے ہیں جن کو اگر علم دین سے آراستہ کیا جائے تو وہ بڑے مفتی و عالم بن سکتے ہیں۔ لیکن مال بدحالی کی بناپر والدین بچوں کو کام پر لگادیتے ہیں۔ ماشاء اللہ عارف مدنی صاحب نے جیب خرچی سے اس بچے پڑھانے کا عزم کیا مرحبا اور ایسے عارف پیدا ہوجائیں تو معاشرے میں تبدیلی آسکتی ہے۔

    جواب دیںحذف کریں
جدید تر اس سے پرانی
WhatsApp Profile
لباب-مستند مضامین و مقالات Online
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ مرحبا، خوش آمدید!
اپنے مضامین بھیجیں